... loading ...
سمیع اللہ ملک
دل ودماغ کوعطربیزکردینے،سدابہاراورروح میں گیلی لکڑی جیسی سلگاہٹ پیداکرنے والی اورلاکھوں افرادکی روزمرہ کی دعاؤں میں شامل یہ رباعی علامہ اقبال کی کسی کتاب یا کلیات میں موجودنہیں۔آخراس کی کیاحقیقت ہے؟یقیناان دواشعارکی مشکبو کہانی بڑی دلچسپ ہے۔
ایک صدی سے زائدکاعرصہ ہوا،ڈیرہ غازی خان کے ترین قبیلے سے تعلق رکھنے والے اللہ دادخان کے ہاں ایک بچہ پیداہوا۔اس کانام محمدرمضان رکھاگیا۔اس ہونہارطالب علم نے بی۔اے کے بعدبی ٹی کا امتحان پاس کرکے سرکاری اسکول میں انگلش ٹیچر کی ملازمت اختیارکرلی۔طبیعت میں فقیرانہ استغنااورصوفیانہ بے نیازی تھی۔اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اورسرکاری ملازم ہونے کے باوجودکبھی دیسی لباس ترک نہ کیا۔چہرہ سنت رسول سے سجاتھا،ہمیشہ ہاتھ میں ایک موٹی سوٹی اورکندھے پربڑاساکپڑا ڈالے رکھتے۔فارسی اوراردو کے اشعارکہتے۔علامہ اقبال کے عشاق میں سے تھے۔ان کے کئی اشعارپہ تضمین کہی جوعلامہ نے بہت پسندکی۔مولانافیض محمدشاہ جمالی کے مریداورحضرت خواجہ نظام الدین تونسوی کے حلقہ نشین تھے۔ایک نوجوان،عطا محمد جسکانی سے گہرے لگاؤکے باعث عطائی تخلص اختیارکیااورمحمدرمضان عطائی کہلانے لگے۔
یہ ان دنوں کاذکرہے جب عطائی ڈیرہ غازی خان کے گورنمنٹ اسکول میں تعینات تھے۔انہی دنوں ان کے قریبی شناسامولانامحمد ابراہیم ناگی بھی ڈیرہ غازی خان کے سب جج تھے۔ابراہیم ناگی ایک درویش منش اورصاحب علم شخصیت تھے۔آپ انیس ناگی کے والداورمعروف صحافی واصف ناگی کے داداتھے۔علامہ اقبال سے گہری محبت رمضان عطائی اور ابراہیم ناگی کے درمیان دوستانہ قربت کی قدرمشترک تھی۔مولاناابراہیم کوعلامہ اقبال سے ملاقاتوں کااعزازبھی حاصل تھا۔ایک دن مولاناابراہیم لاہورگئے علامہ سے ملاقات ہوئی۔واپس آئے توسر شام معمول کی محفل جمی۔ علامہ سے ملاقات کا ذکر چلاتوعطائی کاجنوں سلگنے لگا۔مولانانے جیب سے کاغذکاایک پرزہ نکال کرعطائی کودکھایاجوعلامہ کی اپنی تحریر تھی۔ مولاناکہنے لگے:لوعطائی!علامہ صاحب کی تازہ رباعی سنو۔پھروہ ایک عجب پرکیف اندازمیں پڑھنے لگے۔
توغنی ازہردوعالم من فقیر
روزمحشرعذرہائے من پذیر
ورحسابم راتوبینی ناگزیر
ازنگاہ مصطفے پنہاں بگیر
مولاناکی آنکھوں سے آنسورواں تھے لیکن محمدرمضان عطائی روتے روتے عالم وجدمیں فرش پرگرگئے،چوٹ آئی اوربے ہوش ہوگئے۔رباعی ان کے دل پرنقش ہوگئی۔اٹھتے بیٹھتے گنگناتے اورروتے رہتے،انہی دنوں حج پرگئے۔جب حجاج اوراد ووظائف میں مصروف ہوتے تووہ زاروقطارروتے اورعلامہ کی رباعی پڑھتے رہتے۔حج سے واپسی پر دل میں ایک عجب آرزوکی کونپل پھوٹی۔کاش یہ رباعی میری ہوتی یامجھے مل جاتی ،یہ خیال آتے ہی علامہ اقبال کے نام ایک خط لکھاآپ سرہیں،فقیربے سر،آپ اقبال ہیں،فقیرمجسم ادبار لیکن طبع کسی صورت کم نہیں پائی۔انہوں نے علامہ کے اشعارکی تضمین اوراپنے فارسی اشعارکاحوالہ دیتے ہوئے لکھا فقیرکی تمناہے کہ فقیرکاتمام دیوان لے لیں اوریہ رباعی مجھے عطا فرمادیں۔کچھ ہی دن گزرے تھے کہ انہیں علامہ کی طرف سے ایک مختصرساخط موصول ہوا:جناب محمد رمضان صاحب عطائی۔سینئرانگلش ماسٹرگورنمنٹ ہائی اسکول ڈیرہ غازی خان ۔ لاہور:19/فروری1937
جناب من:میں ایک مدت سے صاحب فراش ہوں،خط وکتابت سے معذورہوں،باقی،شعرکسی کی ملکیت نہیں،آپ بلاتکلف وہ رباعی،جوآپ کوپسندآگئی ہے،اپنے نام سے مشہورکریں۔مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
فقط : محمد اقبال ۔ لاہور
علامہ نے یہ رباعی اپنی نئی کتاب ”ارمغان حجاز”کیلئے منتخب کررکھی تھی۔عطائی کی نذرکردینے کے بعدانہوں نے اسے کتاب سے خارج کرکے،تقریبااسی مفہوم کی حامل ایک نئی رباعی کہی جوارمغان حجازمیں شامل ہے۔
بہ پایاں چوں رسدایں عالم پیر
شودبے پردہ ہرپوشیدہ تقدیر
مکن رسواحضورخواجہ ما را
حساب من زچشم اونہاں گیر
(اے میرے رب!روزقیامت)یہ جہان پیراپنے انجام کوپہنچ جائے اورہرپوشیدہ تقدیرظاہرہوجائے تواس دن مجھے میرے آقاومولاۖ کے حضوررسوانہ کرنااورمیرانامہ اعمال آپ کی نگاہوں سے چھپارکھنا!
ایم اے فارسی کاامتحان دینے لاہورگئے توعطائی،شکریہ اداکرنے علامہ کی خدمت میں حاضرہوئے۔ہمراہ جانے والے چوہدری فضل دادنے تعارف کراتے ہوئے کہا:یہ بوڑھا طوطاایم اے فارسی کاامتحان دینے آیاہے ۔علامہ ایک کھری جھلنگاچارپائی پر احرام نماسفیدچادراوڑھے لیٹے تھے۔ ”بولے عاشق کبھی بوڑھانہیں ہوتا”۔
رباعی کاذکرچل نکلا۔عطائی نے جذب وکیف سے پڑھناشروع کیا”توغنی ازہردوعالم ”علامہ بلک بلک کراس قدرروئے کہ سفید چادرکے پلوبھیگ گئے۔آخری ملاقات علامہ کے انتقال سے کوئی4ماہ قبل دسمبر1937میں ہوئی۔انہوں نے علامہ سے کہا:سناہے جناب کودربارنبوی سے بلاواآیاہے ۔علامہ آبدیدہ ہوگئے آوازبھراگئی۔بولے،ہاں بے شک لیکن جانانہ جانایکساں ہے،آنکھوں میں موتیااترآیاہے،یارکے دیدارکالطف دیدہ طلبگارکے بغیرکہاں؟عطائی نے کہاجاناہوتودربارنبوی میں وہ رباعی ضرورپیش فرمائیے گا، جواب میری ہے ۔علامہ زاروقطاررونے لگے،سنبھلے توکہاعطائی!اس رباعی کوبہت پڑھاکرو،ممکن ہے خداوند کریم مجھے اس کے طفیل بخش دے۔
21اپریل1938کوعلامہ انتقال فرماگئے۔عرصہ بعدشاہی مسجدکے احاطے میں ان کے مزارکی تعمیرشروع ہوئی توہرہفتے اور اتوارکوایک
مجذوب شخص لاٹھی تھامے مسجدکی سیڑھیوں پرآبیٹھتااورشام تک موجودرہتا۔وہ زیرتعمیرمزارپہ نظریں گاڑے ٹک ٹک دیکھتارہتا۔کبھی یکایک زاری شروع کردیتا۔کبھی طواف کے اندازمیں مزارکے چکرکاٹنے لگتا۔ اس کانام محمدرمضان عطائی تھا ۔
مولانامحمدابراہیم ناگی کبھی کبھی کہاکرتے :ظالم عطائی!کان کنی تومیں نے کی اورگوہرتواڑالے گیا۔بخدا!اگرمجھے یہ علم ہوتا کہ حضرت غریب نواز(علامہ اقبال)اتنی فیاضی کریں گے تومیں اپنی تمام جائیداددے کریہ رباعی حاصل کرلیتااورمرتے وقت اپنی پیشانی پرلکھواجاتا۔
محمدرمضان عطائی،سینئرانگلش ٹیچر1968میں اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔انہوں نے اپنی وصیت میں لکھا۔ میرے مرنے پراگرکوئی وارث موجودہوتورباعی مذکورمیرے ماتھے پہ لکھ دینااورمیرے چہرے کوسیاہ کردینا۔مجھے معلوم نہیں کہ پس مرگ ان کے کسی وارث نے اس عاشق رسول کی پیشانی پہ وہ رباعی لکھی یانہیں لیکن ڈیرہ غازی خان کے قدیم قبرستان ”ملا قائد شاہ”میں کوئی بیالیس برس پرانی ایک قبرکے سرہانے نصب لوح مزارپرکندہ ہے۔
توغنی ازہردوعالم من فقیر
روزمحشرعذرہائے من پذیر
ورحسابم راتوبینی ناگزیر
ازنگاہ مصطفے پنہاں بگیر
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جس اخلاق وکردارکاحکم فرمایا،ہمارے رسولۖکے اخلاق وکردارعین قرآنی آیت”اِنک لعلی خلقِ عظِیم”کی عملی تفسیرتھے۔حضرت ابی بن کعبسے روایت ہے کہ نبی کریمۖنے ارشادفرمایاکہ رب تعالی نے مجھے تین سوال عطافرمائے،پس میں نے دعاکی:الہٰی!میری امت کوبخش دے۔الہٰی!میری امت کوبخش دے اورتیسراسوال اس دن کیلئے اٹھارکھاجس دن تمام مخلوق میری طرف نیازمندہوگی۔
اب یہ ہم پرمنحصرہے کہ ہم اس دن اپنے آقاۖکاسامناکس حال میں کریں گے؟