... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانان برصغیر کیلئے قدرت کا عظیم تحفہ تھے۔ انہوں نے اپنی مدبرانہ قیادت سے انگریز، ہندو اور بعض مسلمان سیاست دانوں کی مخالفت کے باوجود مسلمانوں کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو منجدھار سے نکال کر کنارے پر لگا دیا۔ حضرت علامہ اقبال جیسی صاحب بصیرت شخصیت نے بھی محمد علی جناح کو ہی مسلمانان ہند کی قیادت کے اہل سمجھا اور قائد اعظم نے بھی اس کا حق ادا کر دیا۔ جناب محمد آصف بھلی، نامور صحافی ، مصنف ،محقق اور پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ 5 اپریل 1955ء کو رسول پور بھلیاں (ضلع سیالکوٹ) میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم لاہور و سیالکوٹ سے حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے صحافت ، جامعہ پنجاب لاہور سے ایم اے سیاسیات، کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔عملی صحافت کا آغاز ہفت روزہ چٹان سے کیا۔ محمد آصف بھلی قائد اعظم کے دیوانے اور قائد کے قلمی و علمی جانبازہیں۔ آصف بھلی نظریاتی قلم کاروں میں بڑا ہی اہم اور محترم مقام رکھتے ہیں۔آپ نے مختلف موضوعات پر بیشمار کتب تصنیف کیںجو جمہوریت سیاست شعرو ادب پر مبنی ہیں۔
محترم آصف بھلی قائد اعظم محمد علی جناح بارے اپنی کتاب ”میرے قائد کا نظریہ” میں لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی سیکولر اور بے دین قوتوں نے قائد کے نظریے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے شروع کر دیئے تھے۔ ابتدائی سالوں میں تو تحریک پاکستان کے مقاصد سے آگاہ اور ملی و قومی جذبوں سے سرشار نسل زندہ و متحرک تھی جس نے سیکولر لابی کی سازشوں کا ناکام بنا دیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سیکولر طبقہ کا پھیلایا ہوا زہر نوجوان نسل کے دل و دماغ پر اثرانداز ہونے لگا۔ بعض ملک دشمن عناصر سرحد کی لگیر مٹانے کی بات کرنے لگے۔ واہگہ بارڈر پر بھارتی علاقہ میں یہ بورڈ آویزاں ہے کہ ‘یہ تقسیم عارضی ہے’۔ایسی ہی بات قادیانی جماعت کے امیر نے تقسیم ہند کے وقت کہی تھی کہ ہم ہندوستان کی تقسیم پر خوشی سے رضا مند نہیں ہوئے بلکہ مجبوری سے اور ہم پھر یہ کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح دوبارہ متحد ہوجائیں۔
قائداعظم نے مسلم قوم کی جداگانہ اور منفرد تہذیب کے نقوش واضح کرتے ہوئے فرمایا ”ہندوؤں اور مسلمانوں کا مذہب الگ، اور ان کا ادب ، تاریخی روایات الگ الگ ہیں۔ نہ وہ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں اور نہ ہی اکٹھے کھانا کھا سکتے ہیں۔ دونوں قومیں تاریخ کے دو مختلف ذرائع سے فیضان حاصل کرتی ہیں۔اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک قوم کا فاتح دوسری قوم کا صریح دشمن ہے۔ مسلمان قوم کی ہر تعریف کے لحاظ سے ایک الگ قوم ہیں ”
ایک موقع پر قائد اعظم نے فرمایا کہ ہم دونوں قومیں کیسے اکٹھی رہ سکتی ہیں۔ جب کہ ہندو گائے کو مقدس سمجھ کر اس کی پوجا کرتے ہیں اور مسلمان اسے ذبح کر کے کھاتے ہیں۔ ہمارے تصورات اور عقائد بالکل الگ اور جداگانہ ہیں۔ محض آلو اور شلجم کی بھجیا کھالینے اور ایک جیسی موسیقی اورراگ سن لینے سے تہذیبی وحدت پیدا نہیں ہوتی۔ دونوں تہذیبوں کے درمیان تصادم کا ادراک کر لینے کے بعد قائد اعظم نے 11 اگست 1947ء کو فرمایا’میری رائے میں متحدہ ہندوستان کا تخیل ہمیں زبردست تباہی کی لے جاتا’۔ اس تباہی کی منہ بولتی تصویر ہندوستان اور کشمیر کے مظلوم مسلمان ہیں۔ حضرت علامہ محمد اقبال نے مسلمان قوم اور مغربی اقوام کے فرق کے حوالے سے ایک بنیادی نکتہ یوں بیان فرمایا۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیۖ
آصف بھلی صاحب نے اپنی کتاب” میرے قائد کا نظریہ ” میں قائد کے نظریہ پر اٹھنے والے اعتراضات پر قلم اٹھایا ہے۔ ایسے حالات میں جب کہ ہر سمت سے حضرت قائداعظم کے بنائے پاکستان میں نظام حکومت پر قائد کے حوالے سے کذب تراشی ناکام کی بہتات ہے۔ ان کی یہ کتاب ان بیہودہ حملوں کے مقابل مضبوط سپر اور آئینی ڈھال کی حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف کی 184صفحات پر مشتمل یہ کتاب حضرت قائد کے فرمودات کے ذریعے مخالفین کے اوچھے وار کے دفاع اورپرکھوں سے عہد کے ایفاسے عبارت ہے۔
اپنے مذہب اور تہذیب کو فراموش کردینے والے سیکولر، لا مذہب اور آزاد خیال طبقہ ہمیں ہندوؤں سے محبت کا درس دیتا ہے اور امن کی آشا کا راگ الاپا جا تا ہے۔ نصاب تعلیم سے جہاد کے متعلق قرآنی آیات نکلوا دی جاتی ہیں۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بارے میں مضامین غائب کرنے کی سازشیں کی جاتی ہیں۔ یہ جھوٹا پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہندوستان اور ہماری تہذیب ایک ہے اور ہندوستان ہمارے لئے پسندیدہ ترین ملک ہے۔
11 جنوری، 1938 کو گیا ریلوے سٹیشن بہار پر ایک بہت بڑے مجمع عام سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے مسلم لیگ کا جھنڈہ لہرا کر فرمایا”آج اس عظیم الشان اجتماع میں آپ نے مجھے مسلم لیگ کا جھنڈا لہرانے کا اعزاز بخشا ہے۔ یہ جھنڈا در حقیقت اسلام کا جھنڈا ہے، کیونکہ آپ مسلم لیگ کو اسلام سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔ بہت سے لوگ بالخصوص ہمارے ہندو دوست ہمیں غلط سمجھے ہیں۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ یہ جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے تو وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم مذہب کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں، حالانہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں۔ اسلام ہمیں ایک مکمل ضابطہ حیات دیتا ہے۔ یہ نہ صرف ایک مذہب ہے بلکہ اس میں قوانین، فلسفہ اور سیاست سب کچھ ہے۔ درحقیقت اس میںوہ سب کچھ موجود ہے جس کی ایک آدمی کو صبح سے رات تک ضرورت ہوتی ہے۔ جب ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو ہم ایک اسے ایک کامل لفظ کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ ہمارا کوئی غلط مقصد نہیں، بلکہ ہماری اسلامی ضابطہ کی بنیاد آزادی، عدل و مساوات اور اخوت ہے”۔ اس کے بعد آپ 6 مارچ 1946ء کو فرماتے ہیں”ہمیں قران پاک، حدیث شریف اور اسلامی روایات کی طرف رجوع کرنا ہو گا جن میں ہمارے لیے مکمل رہنمائی ہے، اگر ہم ان کی صحیح تجرمانی کریں اور قراٰن پاک پر عمل پیرا ہوں۔”
یہ درست ہے کہ آئین ، قانون اور ریاست کی بڑی اہمیت ہے لیکن ان سب کی بقاء نظریہ پاکستان کے وجود میں پنہاں ہے۔ نظریاتی سرحدوں کے دفاع ہی سے جغرافیائی سرحدوں کا دفاع ممکن ہے۔ اگر دو قومی نظریے کو اولیت نہ دی جائے یا اس نظریے سے اعتقاد اٹھ جائے تو اس سے سیکولرازم اور بالآخر اکھنڈ بھارت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ہمیشہ عام انتخابات میں اہم سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے عوام سے متعدد وعدے کیے لیکن نظام اسلام کے نفاذ کی بات نہیں کی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نظریہ پاکستان کی روشنی میں اپنے فکری زاویے درست کریں اور نفاذ نظام اسلام کی طرف قدم بڑھائیں۔ایڈووکیٹ آصف بھلی لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان میں برصغیر کے تمام مسلمانوں نے اپنے اپنے انداز اور توفیق کے مطابق کردار ادا کیا لیکن قیام پاکستان کا اعزاز اگر کسی فرد واحد کو دیا جاسکتا ہے تو وہ حضرت قائداعظم ہیں ۔مہاجرین سے تو پاکستان کا رشتہ ہی لا الہ الا اللہ کی وجہ سے ہے۔ کسی ہندو سکھ نے بھی انڈیا چھوڑ کر پاکستان ہجرت کی۔ مہاجرین کی ہجرت کی بنیاد لا الہ الاللہ ہے تو ان کا محبوب نعرہ بھی یہی ہونا چاہیے۔ میرا ایمان ہے کہ جس طرح تحریک پاکستان انگریز ہندو اور کانگریسی علماء کی مخالفت کے باوجود کامیاب ہوئی اسی طرح پاکستان میں کارواں نظریہ پاکستان کامیاب ہو کر رہے گا سیکولر طبقہ نامراد رہے گا۔
اردو کی حمایت میں مصنف کا کہنا ہے کہ قائداعظم نے اردو کے مقابلہ میں ہندی لٹریچر کی مخالف کی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ قائد کو مسلمانوں کی معاشرتی مذہبی خصوصیات کا تحفظ عزیز تھا۔ قائد اعظم کا احسان ہے کہ میں پیدا ہوتے ہی ایک آزاد ملک کا شہری تھا ورنہ انگریز کے غلام ملک کا شہری ہوتا یا ہندو کی ذلت آمیز غلامی مقدر ہوتی ۔ قائدکے آئیڈیل حکمران آئیڈیل رہبر اور قانون عطا کرنے والی آئیڈیل شخصیت محمدعربی ۖہیں۔ پھر گمراہی کا شکار سیکولر طبقہ کس بنیاد پر یہ دعوی کرتا ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست نہیں بلکہ سیکولر کے طور پر بنایا گیا۔