... loading ...
ریاض احمدچودھری
قائد اعظم محمد علی جناح کے اپریل1944ء کے سیالکوٹ کے تین روزہ کامیاب دورہ اور تاریخی کانفرنس کے نتیجے میں قیام پاکستان کی تحریک برق رفتاری سے آگے بڑھی اور صرف تین سال بعد الحمد اللہ آزادی کی منزل حاصل ہوگئی۔اس اجلاس کے بعد 1945-46کے انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ نے پنجاب کی مسلمانوں کی کل 86 نشستوں میں سے 79 نشستیں جیت لیں۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی کی واحد سیٹ بھی جیت لی۔لاہور میں مارچ 1940ء آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کے بعد قرارداد لاہور منظور ہوئی جس میں ہندوستان کے شمال مغربی مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل آزاد مسلم ریاستوں کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے بعد پورے برصغیر میں قیام پاکستان کی تحریک عروج پر پہنچ گئی۔ تاہم پنجاب میں تین چار برسوں کے اندر مسلم لیگ کی سرگرمیاں ماند پڑگئیں اس لئے پنجاب کی مسلم لیگ قیادت نے سیالکوٹ میں اٹھائیس، انتیس اور تیس اپریل 1944 ء کو کانفرنس کا اہتمام کرنے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی سیالکوٹ میں کانفرنس اور قائد اعظم محمد علی جناح کے خطاب کا فیصلہ ہوا، تو اس وقت کے سپرنٹنڈنٹ پولیس نے دفعہ 144 نافذ کر دی او راس نے کانفرنس کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا مگر سیالکوٹ کے مسلمان ڈپٹی کمشنر جناب اختر حسین (مغربی پاکستان کے سابق گورنر)کی مداخلت سے مسلم لیگ کی کانفرنس اورجلسے سے قائد اعظم کے خطاب کی راہ ہموار ہوگئی۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ مسلم لیگ کی سرگرمیاں ماند پڑنے سے جناح اور خضر حیات ٹوانہ کے درمیان معاہدہ منسوخ ہوگیا اور یونی نیسٹ وزیر اعظم نے صوبائی وزیر سردار شوکت حیات خان کو وزارت سے نکال دیا اورسردار شوکت حیات نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریک پاکستان کیلئے زور شور سے کام کرنا شروع کر دیا۔ سیالکوٹ میں پنجاب مسلم لیگ کی کانفرنس اور قائد اعظم محمد علی جناح کے خطاب سے مسلم لیگ پھر دوبارہ منظم اور متحرک ہوگئی۔ لاہور میں 1940ء کے اجلاس کے بعدقائد اعظم کا دورہ سیالکوٹ تحریک پاکستان کا اہم سنگ میل تھا جس نے نہ صرف پنجاب بلکہ ہندوستان کے دوسرے صوبوں میں مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی کی راہ ہموار کر دی۔قائد اعظم نے 27 اپریل 1944 ء کوخضر جناح مذاکرات کی ناکامی پر اعلان کیا کہ میں نے سیالکوٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملک خضر حیات ٹوانہ کی رہائش گاہ پر قائد اعظم سے ان کی ملاقات ہوئی جس میں قائد اعظم نے اپنا ایک خط ٹوانہ صاحب کے حوالے کیا تو ٹوانہ نے کہا کہ وہ آج رات نو بجے تک اس کا جواب دے دیں گے۔ تاہم قائد اعظم نے فرمایا کہ میرے لئے مزید انتظار ممکن نہیں کیونکہ میں کل صبح سیالکوٹ روانہ ہو رہا ہوں۔ لیکن ٹوانہ صاحب کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ قائد اعظم کے خط کے تین اہم نکات یہ تھے مجلس قانون ساز پنجاب میں مسلم لیگ پارٹی کا ہر رکن یہ اعلان کرے کہ وہ اسمبلی میں صرف مسلم لیگ پارٹی کا وفادار ہے۔ اتحاد کا موجودہ لیبل یعنی یونی نیسٹ پارٹی ترک کر دیا جائے ۔ مجوزہ اتحاد کا نام مسلم لیگ اتحاد پارٹی ہونا چاہیے۔ پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے سیالکوٹ میں سالانہ اجلاس کے بارے میں محمد ارشد طہرانی اپنی کتاب’قائد اعظم کا دورہ سیالکوٹ’ میں لکھتے ہیں کہ سیالکوٹ میں قائد اعظم کے شاہانہ استقبال اور کارکنوں کے جوش و خروش نے مسلم لیگ مخالف حلقوں کی نیندیں اڑادیں۔ خود قائد اعظم نے استقبالیہ جلوس کے متعلق ، جلوس کے اختتام پر اپنے مختصر سے خطاب میں فرمایا
‘You have given a Royal Reception’
مصنف محمد ارشد طہرانی نے اپنی کتاب میں نہایت محنت اور جذبہ سے تقریباً پچاس صفحوں میں قائد اعظم کے استقبالیہ جلوس کا آنکھوں دیکھا حال لکھا ہے۔ یہ جلوس پیپل والا چوک کچہری روڈ سے شروع ہو کر مختلف راستوں سے ہوتا ہوا جلسہ گاہ تالاب شیخ مولا بخش پہنچ کر اختتام پزیر ہوا۔ اجلاس سیالکوٹ میں قائد اعظم نے انگریزی میں خطاب کیا تھا لیکن سردار عبدالرب نشتر نے اس کا با محاورہ اورعام فہم اردو ترجمہ کرکے قائد اعظم کے الفاظ وخیالات کو درست اور نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا ۔ممتاز دانشور اور مصنف محترممحمد آصف بھلی کا کہنا ہے کہ ارشد طہرانی نے بڑی محنت سے’ قائداعظم کا دورہ سیالکوٹ’ کے نام سے کتاب لکھی ہے جو سیالکوٹ میں تحریک پاکستان کے بارے میں ایک تاریخی دستاویز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تحریک پاکستان اس صدی کے ایک عظیم انسان قائد اعظم محمد علی جناح کے کارہائے نمایاں کا ہی دوسرا نام ہے۔ قائد اعظم کے اقوال آج بھی ہمارے لئے چراغ راہ بلکہ نشان منزل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
28اپریل کو کانفرنس کے آغاز پر استقبالیہ کمیٹی کے سیکرٹری چودھری نصیر احمد ملھی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا جس کے جواب میں سردار عبدالرب نشتر مرحوم نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ میں اہل سیالکوٹ کو بالعموم اور مسلم لیگی کارکنوں کو بالخصوص مبارک باد دیتا ہوں کہ انہوں نے مشکلات کے باوجود کامیابی سے اس عظیم اجلاس کا اہتمام کیا۔ مجھے اجلاس کی صدارت کی دعوت دے کر اہل سیالکوٹ نے عزت افزائی کی ہے اس پر وہ اہلیان سیالکوٹ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ سردار عبدالرب نشتر نے اس موقع پر مفصل خطاب کیا تھا لہذا قائد اعظم نے فرمایا کہ وہ سردار نشتر کے اہم خطاب پر ہی اکتفا کریں گے اور وہ آج کی بجائے کل 29اپریل کو خطاب کریں گے تاکہ سردار عبدالرب نشتر کے خطاب کی اہمیت بخوبی واضح ہو سکے۔ تحریک پاکستان کے کارکنوںکی نگاہ میں سیالکوٹ کا اجلاس مارچ 1940 کے لاہور اجلاس سے کم نہیں تھا ۔
قائد اعظم نے 30 اپریل 1944ء کو سیالکوٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان پنجاب کے بغیر بے معنی ہے۔ مسلم لیگ مطالبہ پاکستان سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ صدرمسلم ا سٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع سیالکوٹ خواجہ محمد طفیل کے سپاسنامہ کا جواب دیتے ہوئے قائد اعظم نے کہا کہ میں آپ کی طرح نوجوان نہیں ہوں لیکن آپ کی نوجوان روح اور جوش عمل نے مجھے نوجوان بنا دیا ہے۔ گو میں بوڑھا ہو چکا ہوں لیکن ان نوجوان مسلم طلبہ کے عزم ، ارادہ اور قربانی کے جذبہ کو دیکھ کر میری بوڑھی رگوں میں بھی پرجوش خون گردش کرنے لگا ہے اور قوم کی بیداری نے مجھے نوجوان بنا دیا ہے۔گزشتہ سال ایمانداری سے جس طبقہ نے اس سیاسی جنگ میں میرا ہاتھ بٹایا ہے وہ طلبہ کا طبقہ ہے۔ مجھے ان پر ہمیشہ اعتماد رہا ہے۔ اپنی تقریر ختم کرتے ہوئے قائد نے فرمایاکہ میں ایک بات صاف کردینا چاہتا ہوں کہ اب کوئی شخص مسلمانوں کو دھوکہ نہیں دے سکتا کیونکہ مسلمان بیدار ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سے قبل پنجاب کے مسلمانوں میں کوئی حرارت نہ تھی آج صورتحال بدل گئی ہے۔ انہوں نے ہر قسم کے خوف اور اندیشوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔ یہاں سے ہم ایک قدم آگے بڑھ رہے ہیں جو ایک دستوری قدم ہے۔ ہماری جدوجہد دستوری جنگ ہے ہم اس جنگ کو جیت سکتے ہیں۔بریگیڈیئر ظفر اقبال چودھری، کارکن تحریک پاکستان اپنی کتاب ‘یادوں کی دھنک’ میں لکھتے ہیں قائد اعظم کا دورہ سیالکوٹ اور جلسہ پنجاب میں مسلم لیگ کے احیاء کیلئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اجلاس سیالکوٹ کے بعد ہی پنجاب میں یونی نیسٹ پارٹی کا زوال شروع ہو گیا اور تین سال کی قلیل مدت میں یہ پارٹی ہمیشہ کیلئے صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔
1945-46کے انتخابات میں مجلس احرار نے رام تلائی کے جلسہ گاہ میں روزانہ جلسے منعقد کئے جس میںمولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، ماسٹر تاج الدین انصاری، شیخ حسام الدین، آغا شورش کشمیری اوراحرار کے جنرل سیکرٹری مولوی مظہرعلی اظہرخطاب کرتے تھے۔ واضح رہے کہ مولوی مظہر علی اظہر نے اپنی تقریر میں قائد اعظم کو معاذ اللہ کافر اعظم کہا تھا۔ مسلم لیگ کے جلسوں میں لدھیانہ سے علی محمد مجاہد، غلام فرید قریشی ، خالد گیلانی راولپنڈی تقریر کرتے تھے۔انتخابات میں تحصیل نارووال سے ممتاز دولتانہ،تحصیل سیالکوٹ سے چودھری ناصر الدین اور سیالکوٹ شہر سے شیخ کرامت علی پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان کے مقابلے میں مجلس احرار کے جنرل سیکرٹری مولوی مظہر علی اظہر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔یہاں یہ بتاتا چلوں کہ مجلس احرار کے نوابزادہ نصراللہ خان مظفرگڑھ میں مسلم لیگی امیدوار سردار عبدالحمید دستی سے بری طرح شکست کھا گئے۔اسی طرح ملتان میں سابق وزیر اعلیٰ نواب صادق حسین قریشی کے والد میجر عاشق حسین مسلم لیگی امیدوار ملک محمد اکرم بوسن سے ہار گئے۔
تین جون 1947ء کو لارڈ ویول نے تقسیم ہند کا اعلان کیا تو قائد اعظم نے چار جون کو تمام مسلم لیگی کارکنوں کو اپنی جماعتی سرگرمیاں ختم کر کے سرحد کے ریفرنڈم میں مہم چلانے کی ہدایت کی۔ پروفیسرچودھری محمد صادق مرحوم کی قیادت میں سیالکوٹ سے ایک وفد صوبہ سرحد میں ریفرنڈم مہم چلانے کیلئے گیا۔ اس ریفرنڈم میں سرخ پوش رہنما عبدالغفار خان اور ڈاکٹر خان صاحب کو شکست ہوئی۔ اس کے بعد قائد اعظم نے سرحد کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب کو برطرف کر دیاکیونکہ انہوں نے شکست کھانے کے بعد استعفیٰ نہیں دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔