... loading ...
حمیداللہ بھٹی
رواں ماہ تین اکتوبرکو قومی ایپکس کمیٹی کااجلاس ہواجس میں غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اِس فیصلے کے تحت رضاکارانہ طور پر انخلا پر آمادہ افراد سے انسانی ہمدردی کے طورپر 31اکتوبر تک نرمی کی گئی ہے پھربھی جولوگ رضا کارانہ طورپر ملک نہیں چھوڑتے اوررہائشی اجازت نامہ بھی حاصل نہیں کرتے توحتمی تاریخ کے بعداُن کے خلاف وسیع پیمانے پر آپریشن کا اعلان کیا گیا ہے جس سے اِس فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ حکومتی اور عسکری قیادت نے اتفاقِ رائے سے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اسی بناپر امید ہے کہ عملدرآمد کے دوران کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا ۔ماضی میں ایسے فیصلے اور ا علانات تو ہوتے رہے لیکن کبھی عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی۔ تاخیر سے ہی سہی اب بھی فیصلے کے مطابق بلا تفریق کاروائی سے نہ صرف معیشت پرکومہاجرین کے بھاری بوجھ سے نجات مل سکتی ہے ۔بلکہ امن و امان کا مسئلہ حل ہونے کابھی قوی امکان ہے حکومت نے غیر ملکیوں کو فوری طورپر بے دخل نہیں کیابلکہ نرمی اور رحمدلی کا مظاہرہ کیاجوانسانی حوالے سے ایک اچھافیصلہ ہے۔ اب اگر اعلان کے مطابق تاریخ تک غیر ملکی اپنے اثاثے اور کاروبارفروخت اور ملک سے چلے جاتے ہیں تو یہ اُن کے اپنے حق میں بہتر ہوگا۔ وگرنہ نہ صرف کاروبارو جائیدادیں ضبط اور زبردستی ملک بدرکردیے جائیں گے بلکہ یکم نومبر کے بعد غیر قانونی غیر ملکیوں کو رہائش اور دیگر سہولیات فراہم کرنے والے پاکستانی شہریوں کوبھی تادیبی کارروائی کا سامناہوگا۔
وزیرِ اعظم ،آرمی چیف سمیت تمام سیکورٹی اِداروں کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت ظاہر کرتی ہے کہ ملک میں غیر قانونی طورپر مقیم غیر ملکیوں کی ملکی مفاد کے منافی سرگرمیوں کاسب کوکامل ادراک ہے۔ اب بلاوجہ نوازشات ختم اور صرف پاسپورٹ اور ویزہ پر نقل وحمل کی اجازت ہوگی جس سے نہ صرف قانون کی عملداری بلکہ ریاستی رٹ بھی مضبوط ہوگی ۔نیز باضابطہ آمد ہونے سے غیر ملکی کسی غیر قانونی سرگرمی کا حصہ نہیں بنیں گے کیونکہ انھیںسزاکا خوف ہوگا ۔اِس وقت پاک افغان بارڈر اسمگلنگ کااہم ذریعہ ہے جس سے حکومتی آمدن متاثر اور بدعنوانی ودہشت گردی میں ملوث عناصر مضبوط ہو رہے ہیں۔ دس اکتوبر سے پاک افغان سرحد پرنقل وحرکت کے لیے کمپیوٹر ائزڈ شناختی کارڈ لازمی قرار دے دیا ہے۔ اِس کا بھی ملک کے تمام مکاتبِ فکر نے خیر مقدم کیا ہے ۔شہری اپنے اربابِ اقتدارواختیار سے توقع رکھتے ہیں کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کے دوران کسی سے غیر ضروری نرمی کامظاہرہ نہیں ہو گا۔
ایک اندازے کے مطابق ساٹھ لاکھ کے قریب افغانی ودیگر غیر ملکی پاکستان مقیم ہیں دستیاب اعدادو شمار کے مطابق صرف 1.42 ملین افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے خود پریس بریفنگ میں تسلیم کیا ہے کہ ملک میں جو غیر قانونی مقیم ہیں وہ صرف افغانی نہیںانھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ رواں برس جنوری سے اب تک ہونے والے 24 خود کش دھماکوں میں چودہ میں براہ راست افغانی ملوث ہیں۔ علاوہ ازیں 12ربیع الاول کو ہنگو میں حملہ کرنے والے بھی افغانی تھے جس میں کوئی دورائے نہیں ۔دراصل افغانستان سے ہم پرجو حملے ہوتے ہیں اُن میں ملوث افراد کو یہاںغیر قانونی طورپر مقیم افغان مہاجرین سہولیات فراہم کرتے ہیں جن کی تفصیلات منظرعام پر آنے سے اکثر اوقات پاکستانی صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں لیکن ہمیشہ ایسی آوازوں کوبے وقعت جان کر نظر انداز کیا گیاہے اب جبکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے جنھیں یہاں دوست اور خیرخواہ سمجھا جاتا ہے مگر حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ ایساسمجھنا غلط ہے یا تو اُن کی ملک پر گرفت نہیں یا پھر جان بوجھ کر امن دشمن عناصر سے نرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں وجہ جوبھی ہو اب وقت آگیا ہے کہ یہاں کسی نے رہناہے تو یہاں کے قوانین اورضوابط کی پاسداری کرنا ہو گی یہ مطالبہ غلط نہیں ساری دنیا میں یہی اصول رائج ہے جوبھی خلافِ قانون سرگرمیوں میں ملوث ہویاقومی سلامتی کے لیے خطرہ بنے اُسے فوری طورپرملک بدرکر دیاجاتاہے ایک ہم ہیں کہ پرچم کی توہین پر بھی چُپ رہتے ہیں کرکٹ کے میدان میں شکست پر تلملا کر پاکستانیوں پر افغان تماشائی حملہ آورہوتے اور توڑپھوڑ کرتے ہیں لیکن ہماری خاموشی نہ ٹوٹی کے پی کے سے لیکر بلوچستان تک افغان دہشت گرد کئی عشروںسے حملوں میں مصروف ہیں افغانستان میں پاکستانیوں سے انسانیت سوز سلوک ہوتاہے لیکن کبھی نوٹس نہیں لیا گیاحالانکہ ایسے واقعات کا سدِباب ریاستی اِداروں کی زمہ داری ہے وقت آگیاہے کہ فرض کی انجام دہی میں تمام وسائے بروئے کارلائے جائیں۔
اب تواِداروں کی رپورٹس سے واضح ہوگیاہے کہ زیرِ گردش کرنسی کا ایک تہائی یعنی تین ہزار ارب روپے افغانیوں کے پاس ہیں جس سے وہ ڈالر خریدکر افغانستان منتقل اور ہماری معیشت غیر مستحکم کررہے ہیںاِن میں کچھ ایسے ہیں جنھوں نے نادرا کی نااہلی سے پاکستانی شہریت کے کاغذات بنوالیے ہیں ۔ایک فوجی آفیسر کو نادراکی سربراہی ملنے سے قوم کو توقع ہے کہ افغانیوں کی نشاندہی اورنادرا سے حاصل کیے جانے والے شناختی کارڈ بلاک کیے جائیں گے تاکہ کوئی بھی غیرملکی ملک بدر ہونے سے بچ نہ سکے دنیا بھر میں پناہ گزینوں کومخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص علاقوں میں بنے کیمپوں میں رکھا جاتا ہے ایران نے ایسا ہی کیااسی لیے آج وہاں امن ہے لیکن پاکستان نے بلا روک ٹوک کہیں بھی آنے جانے کی اجازت دے کر غیر دانشمندی کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں ملک میں اور سرحدپرمسلسل بدامنی ہے آج افغانی کینسر کی طرح دارالحکومت سمیت پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں یہ لوگ وسائل لوٹنے کے ساتھ پاکستان اور پاکستانیوں سے نفرت کرتے ہیں اِس لیے مزید رحمدلانہ سلوک کے حقدارنہیں دودہائیوں بعد طالبان پندرہ اگست 2021کودوبارہ اقتدار میں آچکے لیکن مہاجرین کی آمد کا سلسلہ تھم نہیں سکا گزشتہ دوبرسوں کے دوران چھ لاکھ مزید غیر رجسٹرڈ مہاجرملک میں داخل ہوئے۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے مرکزی بینک افغانستان کے نو ارب ڈالر اِس خدشے کی بنا پر منجمد کیے تاکہ اِس رقم سے عسکریت پسندوں کومضبوط ہونے کا موقع نہ ملے عبوری افغان حکومت محسن کشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان سے روزانہ کی بنیاد پرغیر قانونی طریقے سے ڈالر لیکر اپنی ضرورت پوری کررہی ہے اور اسمگلنگ کی سرپرستی کررہی ہے۔ یہاں کالعدم ٹی ٹی پی،داعش خراسان ،بی ایل اے سمیت دیگر انتہا پسند گروپ پوری طاقت سے سرگرم ہیں مگر طالبان نے آنکھیں موند رکھی ہیں۔ پاکستان میں منشیات وجسم فروشی کا دھندہ ہویاانسانی وگاڑیوں کی اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان کی واداتیں ہو ں یا منی لانڈرنگ ،ہر جگہ افغانی ملوث ہیں۔ الیکٹرانکس،جوتوں ،کپڑوںجیسے کاروباروںپر انھی کا کنٹرول ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ اب جب غیر ملکی افواج جاچکی ہیں تو غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے ساتھ تمام رجسٹرڈ افغانیوں کو بھی واپس بھیجنے کی پالیسی واضح کی جائے ۔
دفترِ خارجہ نے جب وضاحت کردی ہے کہ صرف افغان مہاجرین نہیں بلکہ تمام غیر قانونی مقیم افراد کے خلاف کاروائی ہوگی پھربھی طالبان عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان پناہ گزینوں سے پاکستانی رویے کوناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے جس سے ایسے قیاسات کو تقویت ملتی ہے کہ ہونے والی دراندازی طالبان سے پوشیدہ نہیں اسی لیے آئے روز افغانستان سے ہونے والے حملوں کو روکنے یا شدت پسندوں کے خلاف طاقت استعمال کرنے بارے کوئی بات نہیں کی جاتی حالانکہ ملوث مجرموں کوحوالے کرنے کا پاکستان کئی بارمطالبہ کر چکا ہے لیکن جواب میں زمہ دارانہ طرزِ عمل کا مظاہرہ نہیں کیاجاتا ہزاروں تربیت یافتہ افغان انتہا پسند پاکستانی ریاستی اِداروں کی نظر میں ہیں جن میں سے کچھ تو افغان جیلوں سے رہا ہوکرآنے والے جرائم پیشہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی ٹریکنگ کا آغاز ہو چکا ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی پاکستان سے افغان پناہ گزین ملک بدرنہ کرنے کا مطالبہ کرتاہے لیکن یہ اِدارہ بھی مہاجرین کوکیمپوں میں رکھنے کی ضرورت کے مطابق فنڈزجاری نہیں کرتا ۔لہٰذا تنگ آکرحکومت نے اگر فیصلہ کرہی لیا ہے تو عملدرآمد کے دوران کسی قسم کی رکاوٹ کو خاطر میں لائے بغیرآگے بڑھاجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔