وجود

... loading ...

وجود

امت مسلمہ کی بہتری کے لیے فکر اقبال کا فروغ ناگزیر

جمعرات 05 اکتوبر 2023 امت مسلمہ کی بہتری کے لیے فکر اقبال کا فروغ ناگزیر

ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ممتاز دانشور اور سکالر ڈاکٹر ابصار احمد کا کہنا ہے کہ امت مسلمہ کے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے فکر اقبال کا فروغ اشد ضروری ہے۔ بزم اقبال کے زیر اہتمام مسلم فکر کے زوال اور اقبال کے زاویہ نگاہ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں عصر جدید کے نو مسلم مفکرین بشمول حسن سپائکر اور کریم الہان کے لیکچر سننے چاہیں۔ان میں فکری زوال سے نکلنے کی رہنمائی ملتی ہے۔ مغرب میں جدید ٹیکنالوجی کے فروغ سے اس کے منفی اثرات پر سوچ بچار پیدا ہونا خوش آئند ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے کلام میں روحانیت کے حصول پر توجہ دی کیونکہ اس کے بغیر تزکیہ نفس ممکن نہیں۔ نئی نسل کو بھی قرآن، حدیث اور افکار اقبال کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ڈاکٹر ابصار احمد کی رائے ہے کہ امہ کے دانش ور طبقہ کو اس پر توجہ دینا ہوگی۔ہمارے ہاں جدید ٹیکنالوجی کے منفی پہلوئوں سے نجات پر بھی غور ہونا چاہیے۔ مستقبل سنوارنے کے لیے فکر اقبال کا فروغ ضروری ہے۔ ایسا اسلام کے بنیادی اصولوں کی تعلیم حاصل کرنے سے ممکن ہے۔
علامہ اقبال کی سوچ کا مرکز اور محور امت مسلمہ ہے وہ امت کی حالت پر سراپا درد ہیں ان کی خواہش ہے کہ امت محمدی گدائی’ خوف اور غلامانہ ذہنیت کے چنگل سے آزاد ہو’ منفی خیالات سے گریز کرے۔ مثبت انداز فکر اپنائے۔ مگر آج کا مسلمان آئین شریعت سے آزاد ہو گیا ہے جس کی زندگی میں جفا کشی’ نظم و ضبط’ روا داری اور احساس انسانیت مفقود ہو چکی ہے اسی کے سبب قوم کا شیراز ہ بکھر گیا اور یہ قانون فطرت ہے کہ جب کوئی فرد یا قوم آئین اور ضابطے کی پابندی نہیں کرتی وہ بکھر جاتی ہے فرماتے ہیں
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
اس قوم رسول ہاشمی کی امامت بھی بے مثل ہونی چاہئے اور امامت کا فریضہ ہر شخص کی خودی پر منحصر ہے انسانی خودی تبھی حقیقی ہونی ہے جب اس میں اپنی حقیقت کا شعور پیدا ہو۔ بس لازم ہے کہ فکر اقبال جو قرآن کا ماخذ ہے منبع ہے سرچشمہ ہے اس سے اپنے لئے راہیں متعین کریں۔ڈاکٹر صاحب کے خیال میں ہمارے زوال پذیر اخلاقی رحجان کا نتیجہ یہ ہے کہ اب رمضان المبارک میں دینی پروگراموں میں بھی سامعین کو ہنسانے کے لیے علما کو لطیفے سنانا پڑتے ہیں۔ دانش ور طبقہ کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔ جدت پسندی نے معاشرے میں ہیجانی کیفیت میں اضافہ کردیا ہے۔ معاشرہ تنہائی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات سے نجات کے لیے قرآن و سنت سے تعلق قائم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اقبال مسلمانوں کے زوال سے بہت متفکر تھے۔ انکی دلی خواہش تھی کہ مسلمان ایک بار پھر دنیا کی عظیم قوم بن جائیں۔ آخری عمر میں وہ بڑی بے تابی کے ساتھ مسلمانوں کو متحد ہونے کا پیغام دیتے رہے۔ اقبال ایک دیانتدار مفکر تھے ان کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں تھا نہ ہی وہ ذاتی شہرت کے اسیر تھے۔ وہ سچے اور کھرے مفکر کی طرح ارتقائی منازل طے کرتے رہے اور ان کی فکر میں بلوغت آتی رہی۔اقبال نے مغرب میں تعلیم حاصل کی اور مغربی علوم و فنون کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مغرب نے مختلف حوالوں سے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ متحد ہوکر پھر سے عظیم قوم نہ بن سکیں۔
دینی اور عصری علوم میں یکساں درک رکھنے والا علامہ کے برابر کوئی دوسرا رہنما ملت کو سہارا دینے والا موجود نہیں تھا۔ حالانکہ اس وقت جید علماء تھے، مگر وہ جدید علوم سے نا آشناتھے، جبکہ دوسری طرف عصری علوم کے دانشور تھے ، مگر وہ قرآن وسنت سے بے بہرہ تھے۔ وہ مغرب سے یا تومرعوب تھے یا متاثر۔ ملت کو ذہنی غلامی سے آزاد کرانا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ بلکہ غلامی کے احساس سے بھی وہ عاری ہو چکے تھے۔ علامہ نے نہایت دکھ بھرے انداز سے اس صورتحال کی تصویر کشی کی ہے۔
شاعر بھی ہیں پیدا ،علماء بھی، حکماء بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ !
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرحِ معانی میں یگانہ !
علامہ اقبال نے نہ صرف مذہب کے امکان پر شرح وبسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے بلکہ انھوں نے اسلام کے اساسی اور بنیادی عقائد اور عبادات پر نظری حوالے سے بحث بھی کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ان کے عملی پہلوئوں کی بڑی مؤثر تعبیر پیش کی ہے۔ انھوں نے رموز بے خودی میں توحید اور رسالت کے ضمن میں ایسی تفسیر بیان کی ہے کہ چند اشعار میں موضوع کا حق ادا کر دیا ہے، اسی طرح انھوں نے دیگر عقائد اسلامیہ کے بارے میں نظم و نثر میں عمدہ اسلوبِ بیان اختیار کیا ہے۔اقبال کے نزدیک قرآن کریم کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر ان گونا گوں روابط کا ایک اعلیٰ اور برتر شعور پیدا کرے، جو اس کے اور کائنات کے درمیان پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے کلام اور افکار میں اسلام کے بنیادی عقائد کی نہایت ہی خوبصورت اور عالمانہ تعبیر پیش کی ہے۔ توحید اور رسالت کی اہمیت اور افادیت کا جیسا عالمانہ اظہار علامہ کے ہاں ملتا ہے اس سے قبل شاید ہی ایسا تعبیراتی اور تفسیراتی اظہار کسی شاعر کے کلام کاحصہ بن سکا ہو۔ علامہ نے فکر و فلسفہ کی بوقلمونی میں الجھنے اور کش مکش سے دو چار ہونے کے بجائے سیدھے سادے انداز میں اسلامی تصورات اور عقائد کی جامعیت کو بیان کیا ہے۔ قبل ازیں ڈاکٹر تحسین فراقی ، ڈائریکٹر بزم اقبال نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ اقبال نے مسلم فکری و اخلاقی زوال کی صرف نشان دہی ہی نہیں کی بلکہ اس سے نجات کے لیے بھی رہنمائی کی۔انہوں نے حاضرین کا شکریہ بھی ادا کیا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر