... loading ...
سمیع اللہ ملک
جدیدعقلیت نے کسی بھی چیزکے درست ہونے کامعیاریہ رکھاہے کہ وہ انسانی عقل میں آجائے اوراس کا تجربہ بھی ممکن ہو۔اس لاجک کے تحت مذہبی عقائدکوبھی ہدف تنقیدبنانے کارواج عام ہوتاجارہاہے، چنانچہ جہاں عقیدہ توحید،رسالت،آخرت پرعقلی سوالات اٹھائے گئے ہیں وہاں اس زدمیں انبیاکے معجزات بھی آئے ہیں۔جدیدذہن ان کی عقلی و سائنسی توجیہہ کامطالبہ رکھتاہے۔اس کوجانتے ہوئے بھی کہ سائنس کچھ ڈائمنشنز،مشاہدات وتجربات تک محدودہے،ہرحتمی سچائی،رازاورعلم سے واقف نہیں،کئی مسلم نوجوان ان عقائدکے بارے میں شکوک وشبہات کاشکارہوگئے اورکچھ مخلص مسلمانوں نے جواب دینے میں ناکامی کی وجہ سے دین کی بنیادوں پرہی انتہائی قسم کے سمجھوتے کرلیے۔عقائدکی سائنسی تفاسیرکے حق میں جائے بغیرجدیدمسلم ذہن کی اس تشکیک کودیکھتے ہوئے ان معاملات کی ایسی معقول وممکن سائنسی توجیہہ وتشریح کی ضرورت ہے جس سے ان کے خلاف عقل ہونے کے دعوے کی حقیقت واضح ہوجائے۔
معجزہ وہ خلاف عادت چیزہے جوسوال اوردعوی(نبوت)کے بعدظاہرہوجوہرحیثیت سے محال نہ ہواورلوگ باوجودکوشش اورتدبیرکے اس قسم کے معاملات میں پوری فہیم وبصیرت رکھتے ہوئے بھی اس کے مقابلہ سے عاجزہوں۔معجزہ کے ذریعہ چونکہ ایساواقعہ ظہورمیں آتاہے جوقوانین فطرت کی عام روش سے ہٹاہواہوتاہے جس سے واضح ہوتاہے کہ مدعی نبوت رب العالمین کانمائندہ ہے جس نے اس کی صداقت ثابت کرنے کیلئے اپنی براہ راست مداخلت سے وہ واقعہ نشانی کے طورپرصادرکیاہے اگرچہ رسول کی سیرت،اخلاق،طبعی سلامت روی اوررسول کاسنایاہواپیغام خودسے دلیل ہوتاتھالیکن ہرذہن اس دلیل سے مطمئن نہیں ہوتاتھا ،اس لئے رسول کے ذریعے کوئی ایسا خرق عادت واقعہ پیش کیاجاتاجوکہ معلوم فطری قوانین کے مطابق ناممکن ہوتا۔یہ خرق عادت واقعات اللہ کے وجودکوثابت کرنے کیلئے پیش نہیں کیے گئے،بلکہ اصلاًرسول کورسول ہونے کی دلیل کے طورپراو رضمناً رسول کی تعلیمات کے حق ہونے کی دلیل کے طورپرپیش کئے گئے ۔
سائنس کے مزعومہ دریافت کردہ قوانین سے مرعوبیت کی بناپرہمارے ہاں ایسے مفسرین قرآن نے بھی جنم لیاجنہوں نے قرآن کومعلوم سائنسی قوانین کے مطابق ثابت کرنے کے جوش میں یاتومعجزات کاسرے سے انکارہی کردیااوریاپھران کی ایسی بے سروپاتاویلات کیں کہ وہ معجزہ ہی نہ رہے۔سائنسی معلومات وقوانین کی بنیادپرمعجزات کاانکارکرنے والے شخص کی ذہنی کیفیت اس ایلین کی سی ہے جو ہماری زمین پرٹریفک سگنل کے سامنے کھڑامشاہدہ کررہاہے کہ لال رنگ کی بتی جلنے پرگاڑیاں رک جاتی ہیں اورسبز بتی پرچلنے لگتی ہیں ۔فرض کریں متعدددفعہ یہی مشاہدہ کرنے پراس کے ذہن میں یہ مفروضہ جنم لیتا ہے کہ”لال رنگ کی بتی گاڑی رکنے کاسبب ہے اورسبز رنگ کی بتی ان کی حرکت کاسبب”اپنے مفروضے کی مزید تحقیق کیلئے وہ شہربھرکے سگنلزکاچکرلگاتاہے اورہرجگہ واقعات کی اسی ترتیب کامشاہدہ کرنے کے بعدوہ اپنے درج بالامفروضے کودنیاکااٹل قانون مان لیتاہے۔ اب فرض کریں سڑک پراس کی ملاقات آپ سے ہوتی ہے اوروہ آپ کودنیاکے بارے میں اپنے دریافت کردہ قانون سے آگاہ کرتاہے یعنی”لال بتی ہمیشہ گاڑی روک دے گی اور سبز بتی اسے چلادے گی”آپ مسکراکراسے کہتے ہیں کہ جناب لال اورسبزمیں ایساکچھ نہیں ہے جوگاڑیوں کوروکتایاچلاتاہے بلکہ ان رنگوں میں یہ معنی وتاثیرہم انسانوں نے خود رکھے ہیں، جب تک ہم چاہتے ہیں یہ ترتیب نظرآتی رہتی ہے اورجب ہم نہیں چاہتے توہم اسے معطل کردیتے ہیں،جیسے کہ ایمبو لنس کوہم نے اس قانون سے مستثنٰی کررکھاہے مگروہ ایلین اپنی تحقیق پربضداورآپ کی بات پریقین نہیں کرتابلکہ الٹاآپ کوجاہل اورنادان سمجھنے لگتاہے اوردعوی کرتاہے کہ”دنیاکے فطری قانون کے مطابق ہوہی نہیں سکتاکہ ایمبولینس لال بتی پرنہ رکے”۔
یہی حالت ہراس شخص کی ہے جوسائنسی مشاہدات کی بنیادپردریافت شدہ روابط کوحتمی سمجھتے ہوئے معجزات کاانکارکرتاہے۔اللہ کا نبی کہتاہے کہ یہ اشیابذات خودمؤثرنہیں بلکہ ان کی یہ بظاہردکھائی دینے والی تاثیراورمعنی حکم خداوندی کی بناپرہیں،جب تک وہ چاہتا ہے یہ ربط تمہیں دکھائی دیتاہے اورجب اس کااذن نہ ہوتویہ روابط معطل ہوجاتے ہیں مگرسائنس کاماراہوانادان انسان اللہ کی بنائی ہوئی دنیاکے بارے میں اپنے دریافت کردہ ربط کواٹل جانتے ہوئے نبی کاتمسخراڑاتاہے۔دراصل یہ ساراعمل عقیدے اوراعتمادکے مابین یقین کے نازک دھاگے سے بندھاہواہے۔
اس کی مثال یوں ہے کہ ایک شخص دو اونچے میناروں کے درمیان بندھی رسی پر چلنے لگا۔وہ اپنے ہاتھوں میں ایک لمبی چھڑی کو متوازن کرتے ہوئے آہستہ آہستہ چل رہاتھا۔اس نے اپنے کندھوں پراپنے اکلوتے بیٹے کوبٹھایاہواتھا۔زمین پرموجودہرشخص سانس روکے، بے حدپریشانی اورتجسس کے ساتھ اس کی سلامتی کیلئے دعائیں بھی مانگ رہاتھا۔جب وہ آہستہ آہستہ دوسرے ٹاور پرپہنچاتوہرکوئی خوشی سے اچھل پڑا،تماشائیوں نے اپنی نشستوں پرکھڑے ہوکرزوردارتالیوں،سیٹیوں اورپرتپاک جملوں سے اس کا استقبال کیا ۔ نوجوانوں کی ایک کثیرتعداداس کے گردجمع سیلفیاں لینے اورآٹوگراف لینے میں مصروف تھی۔اپنے استقبالی مجمع کوایک طرف کرتے ہوئے اچانک اس نے ہجوم سے پوچھا”کیاتم سب کومجھ پربھروسہ ہے کہ میں واپس اس طرف اپنے بچے کے ساتھ جاسکتاہوں جہاں سے میں نے اپناسفرشروع کیاتھا؟سارامجمع بیک آوازچلایا ”ہاں،ہاں،آپ کے ناقابل یقین عمل اوراعتمادکودیکھ کرہم ہرقسم کی شرط لگانے کو بھی تیارہیں۔
اس نے چندلمحوں کیلئے آنکھیں بندکرکے خاموشی اختیارکرلی۔مجمع میں موت جیسی خاموشی چھاگئی۔مجمع منتظرتھاکہ اس نے اچانک خاموشی توڑتے ہوئے کہا:ٹھیک ہے،کیاتم میں سے کوئی اپنے بچے کومیرے کندھے پربٹھاسکتاہے؟میں بچے کوبحفاظت دوسری طرف لے جاؤں گا۔سارے مجمع میں خاموشی چھاگئی اورسب اس سوال کوسن کردنگ رہ گئے۔کسی میں بھی ہمت نہیں تھی کہ ابھی چندلمحے قبل جس پریقین کرتے ہوئے شرط لگانے کوتیارتھے،اس کوجواب دیتے:اس نے مجمع کے خاموش چہروں اورجھکی گردنوں کودیکھ کرایک قہقہہ لگایا اوریہ کہہ کرپردہ کے پیچھے غائب ہوگیا:عقیدہ ااوراعتماد میں فرق ہے۔اعتمادکیلئے آپ کومکمل طورپرہتھیار ڈالنے کی ضرورت ہے۔
آج کی دنیامیں ہماری یہی کمی ہے۔کیاہماراعقیدہ ہمیں یقین کی ہمت دیتاہے؟خودسے سوال کریں کہ کیاہم اللہ تعالی پریقین اور اس پربھروسہ کرتے ہیں؟جس دن ہم نے بھروسہ کی کامیاب منزل کوپالیاتواسی دن اغیارکی غلامی کیطوق سے نجات کاسفرشروع ہوجائے گا۔ان شااللہ