... loading ...
ریاض احمدچودھری
عالمی مجلس بیداری فکر اقبال کی ادبی نشست میں “وہ زمانے میں معززتھے مسلماں ہوکر” کے عنوان پر محمدکاشف نور نے اپنے خطاب میں کہاکہ جس طرح افواج اپنی پیش قدمی کے دوران کل متاع حیوةبطور زادراہ کے ساتھ رکھتی ہیں اسی طرح قرآن مجیدمیں کل انسانیت کے لیے برائے عرصہ حیات مکمل سامان ہدایت موجودہے جواس عظیم کتاب کے ساتھ اپنی نسبت جوڑ لیتاہے وہ بھی عظیم ہوجاتاہے۔ یہ کتاب اندھیروں سے نکال کرروشنیوں میں لاتی ہے اور منزل تک چھوڑ کر دم لیتی ہے۔جو غلام بن کے اللہ تعالی کے سامنے پیش ہوتے ہیں وہ آقابناکر دنیامیں بھیج دیے جاتے ہیں کیونکہ یہ زندگی بخش کتاب ہے۔ قرآن مجیدہمیں شریعت و طریقت اور معرفت کے راستے حقیقت تک رسائی دیتاہے۔ مسلمانوں کے عروج کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لکھی گئی کتابوں میں ابواب و فصول کے عنوانات قرآنی آیات سے رکھے جاتے تھے۔ قرآن مجید ہرزمانے کے مسائل کا بہترین حل پیش کرتاہے ۔ آج ہم جس طرح کے حالات سے گزررہے ہیں ہمیں من حیث القوم اس کتاب قرآن مجیدسے جڑنے کی اشدضرورت ہے۔ اسلام اورعزت لازم و ملزوم ہیں،اگرآج کے مسلمان کی عزت نہیں ہے تواس لیے کہ وہ اسلام سے دور ہوگیاہے۔ مسلمان ہوناگویا تحرک کاایک نام ہے کیونکہ اس دین میں جمودکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ڈاکٹر علامہ اقبال، خودی کو ”واحد حقیقت” قرار دیتے ہیں۔ تصور خودی ایک مسلمان کو مومن بناتا ہے۔جس کی اذان سے شبستان وجود لرز اٹھتا ہے اور پھر یہ تصور خودی ان کے مرد مومن کے جگر میں وہ آگ پھونک دیتا ہے کہ لذت پرواز اسے احساس تفاخر عطا کرتی ہے۔حق شناس بناتی ہے اور وہ معرکہ حق و باطل کے لیے ہر دم صف آرا نظر آتا ہے۔ پھر یہی مرد مومن عشق کی بلندیوں کو چھوتا ہے اور علم کے سمندر میں ڈوب کر علم کا سورج بن کر ابھرتا ہے۔اقبال کے کلام میں مرد مومن کی صفات اور خصوصیات کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے اور ان صفات کا بار بار تذکر ہ اس صورت سے کیا گیا ہے۔ کہ اس کی شخصیت اور کردار کے تمام پہلو پوری وضاحت سے سامنے آجاتے ہیں۔ یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے اور تربیت اور استحکامِ خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس، اطاعت الہٰی،اور نیابت الہٰی طے کرنے کے بعد اشرف المخلوقات اور خلیفتہ اللہ فی الارض ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔
مرد مومن کی یہ امتیازی شان ہے کہ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے ان دنیاوی آلائشوں سے خود کو دور رکھتا ہے اگر آج کے انسان کو ”مرد کامل” کے مرتبے پر فائز ہونا ہے اور اس کھوئے ہوئے مقام و مرتبے کو پھر سے پانا ہے تو خود میں فولاد کی سختی اور کردار کی مستی پیدا کرنی ہو گی، اپنے زور بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے ایام کا مرکب نہیں راکب بننا ہوگا۔ ریشم کی نرمی اور شبنم کی ٹھنڈک کو مزاج کاحصہ بنانا ہو گا اور فقر و استغناء کا دامن تھام کر آگے بڑھنا ہو گا کیونکہ مومن کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا، ان تمام اجزاء کو مٹی میں گوندھنے کے بعد اس مٹی سے جو تخلیق ابھرے گی اسے صحیح معنوں میں ”مرد کامل” کے لقب سے ملقب کیا جائے گا جس کی ضرورت موجودہ حالات میں بہت زیادہ ہے۔
آج کے انسان میں عمل کا فقدان ہے اور اسی بے عملی کی وجہ سے ماضی کا انسان جو اعلیٰ و ارفع مقام تک پہنچ چکا تھا اور جس میں ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی صلاحیت تھی۔ آج حال میں بے یارومددگار اور عقلی لحاظ سے نحیف و نزار ہو چکا ہے کیونکہ اس کے فکرونظر اور سوچ کے تمام پیمانے ٹوٹ چکے ہیں آج کے انسان نے خود کو اپنے مقام سے خود ہی نیچے گرا لیا ہے۔ آج کا انسان مادیت کے جال میں پھنس چکا ہے اس کی سوچ اور عمل حرص و طمع سے لتھڑے ہوئے ہیں جبکہ اقبال جس مرد کامل کے بانی ہیں وہ ان تمام مکروہات سے مبرا ہے اس کے لیے مال و زر بے معنی ہیں بلکہ اس کا اصل مقصود صرف اور صرف شہادت ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
علامہ اقبال نے جس زمانے میں آنکھ کھولی اس وقت مشرق و مغرب میں زندگی کے مختلف شعبوں میں عجیب و غریب انقلاب ظہور پذیرہو رہا تھا۔ مشرق کی جہانگیری و جہانبانی ختم ہو چکی تھی اور ہر سمت زوال اور پستی کا دور دورہ تھا۔ ہندوستان کی فضا سوراج کے نغموں سے معمور تھی۔ ان حالات میں اقبال نے وطنیت کے جذبے کو اْجاگر کرنے کیلئے خوبصورت نظمیں لکھیں جن میں اہلِ مشرق کومغرب کی تقلید سے بازرکھنے اور ان میں وطن اور قوم سے محبت کا جذبہ پیدا کرنے کی بات کی گئی۔ مزید برآں اقبال نے مرد مومن کا آفاقی تصوّر پیش کیا۔اقبال کے کلام میں مرد مومن کی صفات اور خصوصیات کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے اور ان صفات کا بار بار تذکر ہ اس صورت سے کیا گیا ہے۔ کہ اسکی شخصیت اور کردار کے تمام پہلو پوری وضاحت سے سامنے آجاتے ہیں۔ یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے اور تربیت اور استحکامِ خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس، اطاعت الہٰی،اور نیابت الہٰی طے کرنے کے بعد اشرف المخلوقات اور خلیفتہ اللہ فی الارض ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ اسکے کردار اور شخصیت کی اہم خصوصیات کلام اقبال کی روشنی میں مندرجہ ذیل ہیں۔
اقبال کا مرد مومن حیات و کائنات کے قوانین کا اسیر نہیں بلکہ حیات و کائنات کو اسیر کرنے والا ہے۔ قرآن مجید نے انسانوں کو تسخیر کائنات کی تعلیم دی ہے اور مرد مومن عناصر فطرت کو قبضے میں لے کر انکی باگ اپنی مرضی کے مطابق موڑتاہے۔ وہ وقت کا شکار نہیں بلکہ وقت اس کے قبضہ میں ہوتا ہے۔