وجود

... loading ...

وجود

مسلمان، پارلیمنٹ میں بھی محفوظ نہیں

منگل 03 اکتوبر 2023 مسلمان، پارلیمنٹ میں بھی محفوظ نہیں

معصوم مرادآبادی

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا مندر کہی جانے والی ہماری پارلیمنٹ اب ایک نئی اور زیادہ بڑی عمارت میں منتقل ہوگئی ہے ۔کہا جارہا ہے کہ یہاں جمہوری قدروں کی ایک نئی کہانی لکھی جائے گی، لیکن اس نئی پارلیمنٹ کے مختصر اجلاس کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس نے جمہوری قدروں کے ہی پرخچے اڑا دئیے ہیں۔ اس واقعہ کا تعلق حکمراں بی جے پی کے ایک ممبر سے ہے جس نے ایک مسلمان ممبر کو وہ سب کچھ کہا ہے جو سڑک چھاپ قسم کے جنونی فرقہ پرست آئے دن کہتے رہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ بی جے پی میں کام کرنے والے تمام لوگ ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں اور ان کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اس نفرت نے آج یہ دن دکھائے ہیں کہ مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور وہ خود کو کہیں بھی محفوظ تصور نہیں کررہے ہیں، یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں بھی ان کی عزت وآبرو محفوظ نہیں ہے ۔
ہوا یوں یہ کہ گزشتہ جمعرات کو لوک سبھا میں چندریان3کی کامیابی پر بحث ہورہی تھی، جس میں بی جے پی کے ارکان اس کا تمام کریڈٹ وزیراعظم نریندر مودی کو دے رہے تھے ، جبکہ اپوزیشن ممبران کا بجا طورپرکہنا تھا کہ یہ کارنامہ دراصل ملک کے سائنسدانوں کا ہے ،اس لیے اس کا کریڈٹ بھی انھیں ہی ملنا چاہئے ۔ ظاہر ہے کہ چندریان 3 کا مشن کوئی سیاسی مہم جوئی نہیں تھی بلکہ یہ سائنسی مہم جوئی تھی جس کی کامیابی کے لیے ہمارے سائنسداں مبارکباد کے مستحق ہیں، لیکن بی جے پی کو چونکہ ہر چیز کاکریڈٹ لینے کا شوق ہے تو وہ اس معاملے میں بھی دوہاتھ آگے ہے ۔ لوک سبھا میں اسی بحث کے دوران جب جنوبی دہلی سے بی جے پی ممبررمیش بدھوڑی نے لن ترانیاں شروع کیں تو اس پر دیگر ممبران کے ساتھ بی ایس پی رکن دانش علی نے بھی اعتراض درج کرایا۔ پھر کیا تھا بدھوڑی نے انھیں ‘اگروادی”کٹوا”آنتک وادی’ جیسے القاب سے نوازنا شروع کردیا۔ المیہ یہ ہے کہ جس وقت وہ یہ بکواس کررہے تھے تو ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے بی جے پی کے دیگر ممبران مسکرارہے تھے ۔ان میں سابق وزیرصحت ڈاکٹر ہرش وردھن اورروی شنکر پرشاد بھی شامل تھے ،جو خود کو بڑا مہذب اور باشعور سیاست داں قرار دیتے ہیں۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ بی جے پی میں شامل بیشتر لوگوں کی ذہنیت یہی ہے اور وہ اس ملک سے مسلمانوں کو حرف غلط کی طرح مٹانا چاہتے ہیں۔
جو لوگ اس قسم کی زبان بولتے ہیں، ان کا قد بی جے پی میں سب سے بلند ہوجاتا ہے ۔آپ کو یاد ہوگا کہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جاری مہم کے دوران جس مرکزی وزیر نے دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو جیسا بے ہودہ نعرہ لگایا تھا، وہ آج مرکزی کابینہ میں کئی اہم عہدوں کا وزیر ہے ۔آئینی عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ بھی وہی زبان استعمال کرتے ہیں جو بدترین فرقہ پرستوں کو پسند آتی ہے ۔آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا شرما آئے دن مسلمانوں کے خلاف جو بیانات دیتے رہتے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔خود وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ انتخابی ریلیوں میں جو تقریریں کرتے ہیں،ان میں مسلمانوں کی حب الوطنی پر براہ راست چوٹ ہوتی ہے ۔قصور ان کا نہیں ہے بلکہ اس تربیت کا ہے جو انھوں نے اپنی سرپرست تنظیم کی شاکھاؤں میں حاصل کی ہے ۔
اب آئیے ایک نظر رمیش بدھوڑی کے پس منظر پر بھی ڈالتے ہیں، جو دوسری بار جنوبی دہلی سے لوک سبھا کے ممبر چنے گئے ہیں۔ وہ اس سے قبل تین بار اسی علاقہ سے ممبر اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔ ان کاخاندانی تعلق آرایس ایس سے ہے اور اسی کی طلباء تنظیم اے بی وی پی کے چینل سے سیاست میں داخل ہوئے ہیں۔ وہ بی جے پی کے ضلع صدر بھی رہ چکے ہیں۔ انھوں نے 2019میں ایک عوامی جلسے کے دوران دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال کو بھی ‘دلال’ کہا تھا۔یہی ان کی اصل بھاشا ہے جس کا اظہار وہ اکثر وبیشتر کرتے رہتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ جنوبی دہلی کے جس پارلیمانی حلقہ سے منتخب ہوتے چلے آئے ہیں، وہ دہلی کا سب سے پوش علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ خوشحال اور تعلیم یافتہ لوگ رہتے ہیں۔اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ نفرت کے پجاری آج کل سب سے زیادہ کن علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ زہر ان ہی اعلیٰ طبقوں کے لوگوں میں ہے جو بظاہر بڑے مہذب نظر آتے ہیں، لیکن اپنا نمائندہ رمیش بھدوڑی جیسوں کو منتخب کرتے ہیں۔
گزشتہ منگل کو جب پارلیمانی کام کاج پارلیمنٹ کی پرانی عمارت سے نئی عمارت میں منتقل ہوا تو وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں ایستادہ کئے گئے سینگول (راج دنڈ)کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمارت نئی ہے ، انتظامات بھی نئے ہیں، لیکن یہاں ماضی اور حال کو جوڑتی ہوئی بڑی وراثت کی علامت بھی موجودہے ۔انھوں نے اپنی تقریر کے دوران یہ بھی کہا تھا کہ چناؤ تو ابھی دور ہے اور اس لوک سبھا میں جتنا وقت باقی ہے ، اس میں ممبران کا طرزعمل یہ طے کرے گا کہ اقتدار میں کون بیٹھے گا اور کون اپوزیشن میں۔آئندہ مہینوں میں ملک اس فرق کا مشاہدہ کرے گا۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت صرف ایک نئی عمارت نہیں بلکہ ایک نئی شروعات کی علامت بھی ہے ۔وزیراعظم نریندر مودی کے اس بیان کی روشنائی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ان ہی کی پارٹی کے ایک ممبر نے اپنے طرز عمل سے حقیقت عیاں کردی ہے ۔ہمیں نہیں معلوم کہ آئندہ الیکشن کے بعد نئی پارلیمنٹ میں کون کہاں بیٹھے گا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ مودی جی کی سرپرستی میں ملک کے اندر منافرانہ سیاست کو جو جگہ ملی ہے ،وہ آگے بھی جاری رہے گی۔
یوں تو ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی داستان کافی پرانی ہے اور فسادات کا سلسلہ بھی انگریزوں کے دورمیں انیسویں صدی میں شروع ہوگیا تھا۔آزادی کے بعدکانگریس کے دور حکومت میں مسلمانوں نے ہزارہا فسادات کو اپنے وجود پر جھیلا ہے ، لیکن 2014میں جب سے بی جے پی نے مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار سنبھالا ہے تب سے مسلمانوں کی ذہنی،جسمانی اور کاروباری لنچنگ کا خوفناک سلسلہ جاری ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا سب کچھ حکومت کی مرضی سے ہورہا ہے ۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ اس دوران جن شرپسندوں
اور بدترین فرقہ پرستوں نے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کی دعوت دی ہے ،وہ بدستورآزاد گھوم رہے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ لگاتا ر ہیٹ اسپیچ کے خلاف وارننگ دے رہی ہے ، لیکن حکومت کی مشنری ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے ۔
رمیش بدھوڑی کو لو ک سبھا اسپیکر اوم برلا نے بھی وراننگ دی ہے اور بی جے پی نے انھیں وجہ بتاؤ نوٹس بھی جاری کردیا ہے ۔ یہاں تک کہ وزیرداخلہ نے اس معاملے میں معافی بھی مانگی ہے ۔ اپوزیشن نے بدھوڑی کے خلاف سخت ترین کارروائی کا مطالبہ بھی کیا ہے ، لیکن اطمینان رکھئے کہ بدھوڑی کا کچھ نہیں بگڑے گا اور وہ2024 کے چناؤمیں بی جے پی کا ایک نمایاں چہرہ بن کرسامنے آئیں گے اور انتخابی جلسوں میں سب سے زیادہ ان ہی کی مانگ ہوگی۔ یہی بی جے پی کی سیاست ہے اور یہی اس میں شامل لوگوں کی تربیت بھی۔ آپ کا احتجاج اور غم وغصہ بھی کچھ دن میں ٹھنڈا پڑجائے گا اور سب کچھ یونہی چلتا رہے گا۔حالانکہ بھدوڑی کا یہ بیان محض ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ کی توہین نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے سب سے بڑے جمہوری ادرارے پارلیمنٹ کی بھی توہین ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر