... loading ...
سمیع اللہ ملک
وفات سے3روزقبل حضوراکرم ۖام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہاکے گھرتشریف فرماتھے،آپۖنے تمام ازواج مطہرات کوبلاکردریافت فرمایا”کیاتم سب مجھے اجازت دیتی ہوکہ بیماری کے یہ ایام میں عائشہ کے ہاں گزار لوں؟”سب نے بیک زبان کہا ”اے اللہ کے رسول آپ کواجازت ہے”۔پھراٹھناچاہالیکن اٹھ نہ پائے تو حضرت علی اور حضرت فضل بن عباس آگے بڑھے اورنبی ۖکوسہارے سے اٹھاکر سیدہ میمونہ کے حجرے سے سیدہ عائشہ کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم ۖکواس(بیماری اورکمزوری کے)حال میں پہلی باردیکھاتوگھبراکرایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ رسول اللہۖ کو کیا ہوا؟صحابہ کی کثیر تعداد فوری طورپرمسجدمیں جمع ہوگئی۔آقاۖکاپسنہ شدت سے بہہ رہا تھا۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ”میں نے اپنی زندگی میں کسی کااتناپسینہ بہتے نہیں دیکھا۔میں رسول اللہ ۖکے دست مبارک کو پکڑتی اوراسی کوچہرہ اقدس پرپھیرتی کیونکہ نبی ۖکا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اورپاکیزہ تھا۔حبیب خداۖسے بس یہی وردسنائی دے رہاتھاکہ ”لالہ لااللہ،بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں”۔
اسی اثنامیں مسجدکے اندرآنحضرتۖکے بار ے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کاشوربڑھنے لگا۔نبیۖنے دریافت فرمایا”یہ کیسی آوازیں ہیں؟” عرض کیاگیاکہ اے اللہ کے رسولۖ!تمام اصحابہ آپ کی حالت سے خوفزدہ ہیں۔ارشادفرمایا:مجھے ان کے پاس لے چلو۔اٹھنے کاارادہ فرمایالیکن اٹھ نہ سکے توآپ ۖپر7مشکیزے پانی کے بہائے گئے ،تب کہیں جاکرکچھ افاقہ ہواتوسہارے سے اٹھاکر منبرپرلایاگیا۔یہ میرے آقاۖکاآخری خطبہ اورآخری کلمات تھے:اے لوگو!شائدتمہیں میری موت کاخوف ہے۔سب نے سرجھکائے کہاکہ:جی ہاں،اے اللہ کے رسولۖ!
ارشادفرمایا:اے لوگو!تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیانہیں،تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض(کوثر)ہے،اللہ کی قسم گویاکہ میں یہیں سے اس(حوض کوثر کو)دیکھ رہاہوں۔اے لوگو!مجھے تم پرتنگدستی کاخوف نہیں بلکہ مجھے تم پردنیا(کی فراوانی)کا خوف ہے،کہ تم اس(کے معاملے)میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤجیساکہ تم سے پہلے(پچھلی امتوں )والے لگ گئے، اوریہ(دنیا)تمہیں بھی ہلاک کردے جیساکہ انہیں ہلاک کردیا۔اے لوگو:نمازکے معاملے میں اللہ سے ڈرواوراس کوتین مرتبہ دہرایاپھرفرمایا:اے لوگو! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو،میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتاہوں۔عہدکروکہ نمازکی پابندی کروگے،اوریہی بات بارباردہراتے رہے۔اے لوگو…… ایک بندے کواللہ نے اختیاردیاکہ دنیاکوچن لے یااسے چن لے جواللہ کے پاس ہے،تو اس نے اسے پسندکیا جواللہ کے پاس ہے۔اس جملے سے حضورۖکامقصدکوئی نہ سمجھا حالانکہ ان کی اپنی ذات مرادتھی جبکہ حضرت ابوبکر زاروقطاررونے لگے اوربلندآوازسے گریہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اورنبی اکرم ۖکی بات قطع کرکے پکارنے لگے: ہمارے ماں باپ،داداآپ پرقربان،ہمارے بچے آپ پرقربان،ہمارے مال ودولت آپ پرقربان……روتے ہوئے بارباریہی دہراتے رہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم(ناگواری سے)حضرت ابوبکرصدیق کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی اکرمۖکی بات کیسے قطع کردی؟اس پرنبی کریمۖنے حضرت ابوبکرکا دفاع ان الفاظ میں فرمایا:اے لوگو!ابوبکرکوچھوڑدوکہ تم میں سے ایساکوئی نہیں کہ جس نے میرے ساتھ کوئی بھلائی کی ہواورمیں نے اس کا بدلہ نہ دے دیاہو،سوائے ابوبکرکے کہ اس کابدلہ میں نہیں دے سکا،اس کابدلہ میں نے اللہ جل شانہ پرچھوڑدیا۔مسجد(نبوی)میں کھلنے والے تمام دروازے بندکردیے جائیں،سوائے ابوبکرکے دروازے کے کہ جوکبھی بندنہ ہوگا۔
آخرمیں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کیلئے آخری دعاکے طورپرارشادفرمایا:اللہ تمہیں ٹھکانہ دے،تمہاری حفاظت کرے،تمہاری مدد کرے،تمہاری تائید کرے۔اورآخری بات جومنبرسے اترنے سے پہلے امت کومخاطب کرکے ارشادفرمائی:اے لوگو!قیامت تک آنے والے میرے ہرایک امتی کومیراسلام پہنچادینا۔پھرآنحضرتۖکودوبارہ سہارے سے اٹھاکرگھرلے جایاگیا۔
اسی اثنامیں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر خدمت اقدس میں حاضرہوئے اوران کے ہاتھ میں مسواک تھی،نبی اکرم ۖمسواک کودیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پائے چنانچہ سیدہ عائشہ حضوراکرمۖ کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اورانہوں نے حضرت عبدالرحمن سے مسواک لے کرنبی کریمۖکے دہن مبارک میں رکھ دی،لیکن حضورۖاسے استعمال نہ کرپائے توسیدہ عائشہ نے حضوراکرمۖسے مسواک لے کراپنے منہ سے نرم کی اورپھرحضورنبی کریمۖکولوٹادی تاکہ دہن مبارک اس سے تررہے۔فرماتی ہیں: آخری چیزجونبی اکرمۖکے پیٹ میںگئی وہ میرالعاب تھا،اوریہ اللہ تبارک وتعالی کامجھ پرفضل ہی تھاکہ اس نے وصال سے قبل میرااور نبی کریم ۖکالعاب دہن یکجاکردیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا مزید ارشادفرماتی ہیں:پھرآپۖکی بیٹی حضرت فاطمہ تشریف لائیں اورآتے ہی روپڑیں کہ نبی کریم ۖاٹھ نہ سکے،کیونکہ نبی کریم ۖکامعمول تھاکہ جب بھی فاطمہ تشریف لاتیں،حضوراکرم ۖان کے ماتھے پربوسہ دیتے تھے۔
حضورۖنے فرمایا:اے فاطمہ!قریب آجاؤ…..پھرحضورۖنے ان کے کان میں کوئی بات کہی توحضرت فاطمہ اورزیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتادیکھ کرحضورۖنے پھرفرمایا:اے فاطمہ!قریب آؤ…..دوبارہ ان کے کان میں کوئی بات ارشادفرمائی تووہ خوش ہوگئیں۔حضور اکرم ۖکے وصال کے بعدمیں نے سیدہ فاطمہ سے پوچھاکہ وہ کیا بات تھی جس پرآپ روئیں اورپھرخوشی کااظہارکیاتھا؟سیدہ فاطمہ کہنے لگیں کہ پہلی بار(جب میں قریب ہوئی)توفرمایا:فاطمہ!میں آج رات(اس دنیاسے)کوچ کرنے والاہوں جس پرمیں رودی،جب انہوں نے مجھے بے تحاشاروتے دیکھاتوفرمانے لگے،فاطمہ!میرے اہل خانہ میں سب سے پہلے تم مجھے آملوگی،جس پرمیں خوش ہوگئی۔سیدہ عائشہ فرماتی ہیں پھرآنحضرت ۖنے سب کوگھرسے باہرجانے کاحکم دیکرمجھے فرمایا:عائشہ!میرے قریب آجاؤ۔آنحضرت ۖنے اپنی زوج مطہرہ کے سینے پرٹیک لگائی اورہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے فرمانے لگے:مجھے وہ اعلیٰ وعمدہ رفاقت پسندہے۔میں اللہ کی،انبیا،صدیقین، شہدااور صالحین کی رفاقت کواختیارکرتاہوں۔صدیقہ عائشہ فرماتی ہیں”میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کوچن لیاہے۔
جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضرہوکرگویاہوئے:یارسول اللہ!ملک الموت دروازے پرکھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔آپ ۖنے فرمایا:جبریل!اسے آنے دو………ملک الموت نبی کریمۖکے گھرمیں داخل ہوئے اورکہا: السلام علیک یارسول اللہ!مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئے بھیجاہے کہ آپ دنیامیں ہی رہناچاہتے ہیں یااللہ سبحانہ وتعالی کے پاس جاناپسندکرتے ہیں؟نبی اکرمۖنے جواب میں فرمایاکہ مجھے اعلیٰ وعمدہ رفاقت پسند ہے اوردوبارہ اپنی اس خواہش کودہرایا:ملک الموت آنحضرت ۖکے سرہانے کھڑے ہوئے اورکہنے لگے:اے پاکیزہ روح!اے محمدبن عبداللہ کی روح………اللہ کی رضاو خوشنودی کی طرف روانہ ہو،راضی ہوجانے والے پروردگارکی طرف جوغضبناک نہیں!
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہافرماتی ہیں:پھرنبی کریم ۖ کاہاتھ نیچے آن رہا،اورسرمبارک میرے سینے پربھاری ہونے لگا،میں سمجھ گئی کہ آنحضرتۖکاوصال ہوگیا…….مجھے اورتوکچھ سمجھ نہیں آیا،میں اپنے حجرے سے نکلی اورمسجدکی طرف کادروازہ کھول کراندرسے کہا……”رسول اللہ کاوصال ہوگیا…….رسول اللہ کاوصال ہوگیا!”مسجد آہوں اورنالوں سے گونجنے لگی۔ادھرعلی کرم اللہ وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھرہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔ادھرعثمان بن عفان معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔اورسیدناعمر تلوار بلند کرکے کہنے لگے:خبردار!جوکسی نے کہاکہ رسول اللہۖوفات پاگئے ہیں،میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا….میرے آقاتواللہ تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی اپنے رب سے ملاقات کو گئے تھے،وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے!اب جووفات کی خبراڑائے گا،میں اسے قتل کرڈالوں گا۔اس موقع پر سب زیادہ ضبط،برداشت اورصبرکرنے والی شخصیت سیدناابوبکرصدیق کی تھی۔آپ حجرہ نبوی میں داخل ہوئے رحمت دوعالم ۖکے سینہ مبارک پرسررکھ کررودیے اورساتھ ہی کہہ رہے تھے:
وآآآخلیلاہ،وآآآصفیاہ،وآآآحبیباہ،وآآآنبیاہ…ہائے میرے پیارے دوست…ہائے میرے مخلص ساتھی…..ہائے میرے محبوب…..ہائے میرے نبی…..پھرآنحضرتۖکے ماتھے پر پربوسہ دیااورکہا:یا رسول اللہ!آپ پاکیزہ جیے اورپاکیزہ ہی دنیاسے رخصت ہوگئے۔سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ باہرآئے اورخطبہ دیا: جو شخص محمدۖکی عبادت کرتاہے سن رکھے کہ آنحضرتۖکاوصال ہوگیااورجواللہ کی عبادت کرتاہے وہ جان لے کہ اللہ تعالی شانہ کی ذات ہمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔یہ سنتے ہی سیدناعمررضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوارگرگئی۔عمر فرماتے ہیں:پھرمیں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگاجہاں اکیلابیٹھ کرروؤں!آنحضرت ۖکی تدفین کردی گئی۔ سیدہ فاطمہ فرماتی ہیں:تم نے کیسے گواراکرلیا کہ نبی اکرمۖکے چہرہ انورپرمٹی ڈالو؟پھرفرمانے لگیں:
یابتاہ،جاب ربادعاہ،یا بتاہ، جن الفردوس مواہ، یا بتاہ،ال جبریل ننعاہ…..ہائے میرے پیارے بابا جان!کہ اپنے رب کے بلاوے پرچل دیے،ہائے میرے پیارے باباجان،کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے،ہائے میرے پیارے باباجان،کہ ہم جبریل کوان کے آنے کی خبردیتے ہیں۔اللھم صل علی محمدکماتحب وترضا۔
عیدمیلادالنبی کااصل اوربہترین پیغام تویہ ہے کہ ہم اپنے آقاۖ کی زندگی،ان کی تعلیمات اوررحمتوں کویادکریں۔اس موقع پران کی سنتوں اورمعاشرتی اقوال کواپنی زندگیوں کا اوڑھنابچھونابنانے کاعہدکریں کہ ہم ان کے انعامات اوررہنمااصولوں کواپناکراپنی باقی ماندہ زندگی گزاریں گے۔ہم سب اس دن کے حوالے سے یہ عزم کریں کہ ہم سیرت النبی کی روشنی سے اس دنیاکی ظلمتوں کودور کریں گے۔عیدمیلادالنبی کاتقاضا ہے کہ ہم دنیابھرمیں اپنے کردارسے امن،اخوت اورمحبت کااستعارہ بن کریہ پیغام دیں کہ ہمارے آقا ۖنے اپنے آخری سانسوں میں بھی دنیاکی فلاح،عورتوں کی بھلائی اورحفاظت کاحکم دیاہے،ظلم وجبرکے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوارکاسبق دیاہے تاکہ دنیامیں سب کوجینے کا حق مل سکے اورانسانیت بلاجبرواکراہ کے آشتی ومحبت کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق اداکریں۔
عیدمیلادالنبی کے موقع پرہمیں پیغامبرِاسلامۖکی شان وشوکت کویادکرنے کاعظیم موقع ملتاہے۔ان کی عالمی اخلاقی اورانسانی حقوق کواپنے زندگیوں میں منتقل کرنے کی تحریک کادن ہے کہ ہم ان کے پیغام کودنیاکے ہرکونے تک پہنچانے کاوعدہ کرتے ہیں تاکہ دنیاسیرت النبی کی روشنی اوررحمت کوچھوسکے۔اس موقع پرہمیں اپنی زندگیوں کودوسروں کی مدد اورخدمت کیلئے وقف کرنے کاعزم کرناچاہئے۔ہمیں اپنے گھروں،اجتماعات میں امن،اخوت اورمحبت کوفروغ دینے کیلئے پہلے خوداپنی زندگی کوتبدیل کرنے کی محنت کرنی ہوگی تاکہ ہم اپنے آقاۖکے پیغامات کوعملی شکل دے کردوسروں کوبتاسکیں جوپیغامبرِاسلام نے ہمیں دیے ہیں۔
ہمارے آقاۖکاسب سے بڑامعجزہ توقرآن مجیدہے جس کی من وعن حفاظت کی ذمہ داری خودرب کریم نے روزِ قیامت تک کیلئے اپنے ذمے لے رکھی ہے،اس کے بعد ہمارے آقاکی زندگی کی سیرت کے تمام لمحات بھی ہمارے پاس محفوظ ہیں۔قرآن میں ہمیں آیت الکرسی جیسی عظیم آیت رب کریم کی طاقت اورکمال کی تعریف سے آشناکرتی ہے اورایک پیغام دیتی ہے کہ اللہ کی ذات میں کمال اورقدرت ہے جوکہ عالمی امن کی اہمیت کوبنیاداوراہمیت کوظاہرکیاگیاہے اوراسی پیغام کومیرے آقانے اپنے امتیوں کیلئے چھوڑا ہے ۔
میں نے سوچا کیوں نہ جشن عید میلاد النبی کے فضائل کوپڑھ لوں لہذا میں نے بطورطالب علم اپنے شیوخ الحدیث سے صحاح الستہ کے علاوہ دیگراحادیث کی کتب کامطالعہ کیا، احادیث کے بعد فقہ کی کتابوں میں جشن عیدمیلاد النبی کاعنوان تلاش کیا،چاروں خلفائے راشدین،تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین،تابعین وتبع تابعین،چاروں ائمہ کرام، امام مالک کی فقہی کتاب”ا لمدونہ الکبری،امام شافعی کی مشہورزمانہ فقہی کتاب”الامم”فقہ حنفی کی سب سے مستند کتاب ہدایہ،قدوری،فتاوی عالمگیری،کنزالدفائق،فتاوی شامی،بدائع الصنائع،ان تمام کتب میں عیدین کاتوتذکرہ ہے لیکن عیدمیلادالنبی کاکوئی عنوان نہیں۔گزشتہ صدی کے تمام امتِ مسلمہ کے مستندعلمائے احناف وفقہا کی کسی بھی کتاب یاتقریرمیں عیدمیلادالنبی کی سندنہیں ملی،توپھریہ مروجہ جشن آیاکہاں سے؟عیدمیلادالنبی کابہترین پیغام تویہ ہے کہ گھراورمسجد،تمام تعلیمی اداروں،منڈیوں اورتھانے،چھاؤنی،عدلیہ اورپارلیمنٹ، ایوانِ وزارت وصدارت اورتمام سفارت خانوں کواپنے آقاۖکی تعلیم کے مطابق چلایاجائے جسے ہم اپناہادی برحق مان چکے ہیں۔یہی عیدمیلادالنبی کااصل پیغام ہے اور ہمارے آقاکی خوشنودی ان کے بتائے ہوئے راستے سے ہی مل سکتی ہے۔
۔۔۔۔