... loading ...
حمیداللہ بھٹی
بظاہرسعودی عرب کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات نہیں اورنہ ہی وہ صیہونی ریاست کو تسلیم کر تاہے لیکن کیاحقیقت میں بھی سب کچھ ایسا ہی ہے؟اِس کا جواب ہاں میں دیناقطعی طورپر غلط ہو گا کیونکہ بظاہر سفارتی تعلقات نہ ہونے اور اسرائیل کو فی الوقت تسلیم نہ کرنے کے باوجود دونوں ممالک میں بڑھتی قربت اِس امر کی عکاس ہے کہ سفارتی تعلقات قائم ہونے اور اسرائیل کو بطورملک تسلیم کرنے کی منزل بس دوچارگام ہے اور کسی وقت بھی اِس حوالے سے اعلان متوقع ہے ایساہونے سے مشرقِ وسطیٰ کا منظرنامہ تبدیل ہونے کے ساتھ معاشی سرگرمیوں کا رُخ بھی بدل جائے گا۔امریکی سرپرستی میں بھارت کی طرف سے شروع ہونے والی تجارتی راہداری میں سعودی عرب اور اسرائیل کا کلیدی کردارہے اِس لیے یہ دونوں ممالک مزید ایک دوسرے سے دوررہ ہی نہیں سکتے۔ 93 ویںقومی دن پر سعودی شاہ ،سعودی حکومت اور عوام کو مباکباد پیش کرتے ہوئے اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے خواہش ظاہر کردی ہے کہ دونوں ملکوںکے درمیان امن ،تعاون اور اچھی ہمسائیگی کا ماحول قائم ہونا چاہیے۔
اسرائیلی وزیرِ خارجہ ایلی کوہن نے ایک حالیہ انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ سعودی قیادت اِس وقت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلے سے کچھ ہی دوری پرہے اور دونوں ممالک میں معاہدہ تقریباََ طے پا گیاہے جس کی تردید نہیں کی گئی نام لیے بغیرانھوں نے یہ بھی کہا کہ سعودیہ سے سفارتی تعلقات قائم ہوتے ہی ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے مزید چھ سات ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے سفارتی اور تجارتی تعلقات بحال کر لیں گے۔ مملکتوں کے نام نہ لینے کی وجہ شاید یہ ہو کہ ایلی کوہن نے گزشتہ ماہ جب کہاکہ اُن کی لیبیا کی وزیرِخارجہ سے ملاقات ہوئی ہے جس سپر نجلا منقوش کو نہ صرف عہدے سے محروم ہونا پڑا بلکہ اُنکے خلاف تحقیقات شروع کر دی گئیں، انھوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی یہ بات انتہائی اہم قراردی کہ سعودی عرب کے ساتھ امن کا مطلب مسلم دنیا اور یہودیوں کے درمیان امن ہے۔ اِس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ اسرائیل مسلم ممالک کو اپنے حق میں کرنے کے لیے ایک نتیجہ خیز سفارتی مُہم کا آغاز کیے ہوئے ہے ۔ایلی کوہن ایسے مسلم ممالک کے اعلیٰ حکام سے بھی ملاقاتوں میں مصروف ہیں جن کا اسرائیل سے رسمی سا تعلق ہونا تو درکنا ر ،بلکہ یہ ممالک صیہونی ریاست کو تسلیم تک نہیں کرتے ۔ابھی تک مسلم ممالک اِس حوالے سے کچھ کہنے سے گریزاں ہیں لیکن سعودی اعلان کے ساتھ ہی وہ بھی کُھل کر اظہار کرسکتے ہیں کیونکہ مقاماتِ مقدسہ کی سرزمین ہونے کی بناپر سعودیہ کو مسلم امہ میںایک خاص مقام حاصل ہے سعودیہ اپنے دیرینہ موقف پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ روش پر چلتا ہے تو دیگر مسلم ممالک کے لیے بھی ایسا کرنا آسان ہوجائے گا ۔
امریکی کوششوں کی بدولت 2020میں جب متحدہ عرب امارات۔بحرین ،سوڈان اور مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کر تے ہوئے سفارتی تعلقات قائم کرلیے تو مشرقِ وسطیٰ پر نظر رکھنے والے ماہرین نے اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ سعودی قیادت کو اعتما د میں لے کر کیا ہے اور اب اگلے مرحلے میں ریاض اور تل ابیب میں دوستی کا آغاز ہونے والا ہے اور یہ کہ عرب امارات کے ذریعے سعودیہ نے اِس فیصلے پر مسلم امہ کاردِ عمل معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس کی تائید سعودیہ کی طرف سے اسرائیل کے حوالے سے کئی اقدامات پر نظر ثانی سے بھی ہوئی ۔مثال کے طور پر اسرائیلی پروازوں کو نہ صرف سعودی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی گئی بلکہ اسرائیلی وفود کے آنے کے حوالے سے رکاوٹیں بھی دورکردی گئیں، پھربھی سعودیہ نے یہ کہہ کر سفارتی تعلقات قائم کرنے سے انکار کر دیا کہ فلسطین کے دوریاستی حل تک تعلقات کی بحالی ناممکن ہے۔ مگر اب سعودی قیادت دیرینہ سخت موقف سے نہ صرف پیچھے ہٹ رہی ہے بلکہ دوستانہ روش پر چہل قدمی سے آگے بڑھ کر دوڑنے کی آرزومند ہے۔ ایران کے صدر ابراہیم ریئسی تو اب بھی امریکی سرپرستی میں سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے ثمر بار ہونے کی تردید کرتے ہیں لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ ایرانی صدر کا دعویٰ بے بنیاد ثابت ہونے میں کچھ ہی دن رہ گئے ہیں۔
ممکن ہے سعودیہ اب بھی مسئلہ فلسطین کے حل کی خواہش رکھتا ہو مگر اب اُسے اسرائیلی دہشت گردی نظر نہیں آتی۔ غزہ کی پٹی پر آئے روز بمباری ہوتی اور نہتے فلسطینی شہید کیے جاتے ہیں۔ سرچ آپریشن کے نام پر نوجوانوں کی گرفتاریاں بھی معمول ہیں۔ فلسطینی آبادیاں گراکر یہودی بستیاں بسانے کا عمل بھی جاری ہے۔ فوج اور پولیس کی سرپرستی میں قبلہ اول مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر یہودی نہ صرف عبادت میں مصروف مسلمانوں کو تنگ کرتے بلکہ مخالفانہ نعرے لگاتے ہیں۔لیکن دوستانہ روش پر سفر شروع کرنے کے بعد سعودیہ ایسے واقعات کو اہمیت نہیں دیتا۔بلکہ شنید ہے کہ رواں ہفتے کے آخر پر سعودیہ کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد مقبوضہ مغربی کنارے کا دورہ کرنے والا ہے جس کے متعلق اندازہ ہے کہ یہ وفد بات چیت کے دوران فلسطینی قیادت کو تلقین کرے گا کہ اسرائیل سے اپنے مسائل حل کریں اور اِس کے عوض قابض ریاست سے کچھ رعایتیں حاصل کرلیں۔ایسا نہیں کرتے تو مستقبل میں سعودیہ سے مالی مددکی توقع نہ رکھیں۔ مقبوضہ مغربی کنارے پرعائد آمدورفت اور تجارتی پابندیاں ہٹا کر اسرائیل نے کسی حد تک نرمی کردی ہے۔ اگلے مرحلے میں مزید خود مختاری کا علان متوقع ہے لیکن ابھی تک فلسطینی قیادت ایسے کسی فارمولے کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ اب اسرائیلی شرائط پر رضامند کرنے کی کڑی کے طورپرہی سعودی وفد کی آمد کو دیکھا جارہا ہے کیونکہ کچھ بھی ہو فلسطین کا مسئلہ حل ہونے تک مشرقِ وسطیٰ میں مکمل امن قائم نہیں ہو سکتا۔ عراق ،شام اور لبنان پر آئے روز اسرائیلی فضائیہ بمباری کرتی ہے لیکن دوستی کی روش پر گامزن سعودی قیادت کے لیے ایسے واقعات بھی غیر اہم ہوچکے ہیں ۔
سعودی قیادت کا بین الاقوامی اور علاقائی تنازعات کے حوالہ سے نکتہ نظر بدل چکا ہے تنازعات کا حصہ بننے کی بجائے اُس نے تمام تر توجہ ملکی سلامتی و استحکام اور جامع معاشی ترقی پر مرکوز کر لی ہے مملکت کے ویژن 2030کا مقصد تعمیر وترقی کو اِس اندازمیں آگے بڑھانا ہے کہ ریاستی معیشت کا تیل کی آمدن پر انحصار کم ہو امسال مملکت کے 93 ویںقومی دن پر شہروں میں آتش بازی کے شاندار مظاہروں کے علاوہ فخریہ طورپر یہ اعلان بھی کیا گیا کہ مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی) پہلی بار ایک ٹریلین ڈالر کی حد سے تجاوز کر گئی ہے۔ معیشت کا ٹریلین ڈالر کلب میں شمولیت کااعزازحاصل کرنا اِس بناپر غیرمعمولی معاشی ترقی ہے کہ مملکت نے 2025 سے بہت پہلے ہی یہ ہدف حاصل کر لیا ہے۔ مزید خاص بات یہ ہے کہ تیل کے علاوہ دیگر پیداواری شعبوں کا معیشت میں حصہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ انسانی وسائل کو بروئے کار لانے کے ساتھ قومی سلامتی کے نام پر اختلافی آوازوں سے بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹا بھی جاری ہے۔ انسانی حقوق کی ایسی خلاف ورزیاں اب کسی عالمی طاقت کو نظر نہیں آتیں کیونکہ ایسا کوئی انتباہ دوستانہ روش پر جاری سفر میں رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے ۔
پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور تعلقات قائم کرنے کا ابھی تک کوئی اشارہ نہیں وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اِس معاملے پر دوٹوک کہہ دیاہے کہ ایسا کوئی بھی فیصلہ قومی اور فلسطینی مفادات کو مدِ نظر رکھ کر ہی کیا جائے گا۔انھوں نے اسرائیلی وزیرِخارجہ سے حالیہ کچھ عرصے کے دوران کسی طرح کی ملاقات کی بھی تردیدکی مگر یہ کہنا جتنا آسان ہے عملاََ بہت مشکل ہے کیونکہ پاکستان اِس وقت بدترین معاشی بحران کا شکار ہے اور سعودیہ و عرب امارات سے عارضی طورپرحاصل کیے گئے پانچ ارب ڈالراُسے دیوالیہ ہونے سے بچانے میں معاون ہیں۔ اسی لیے سعودی قیادت کے مطالبے کی صورت میں موقف پر نظرثانی بعید ازقیاس نہیں ۔پرویز مشرف کے اقتدارکے دوران 2005 میں ترکیہ کے صدر طیب اوردوان کی کاوشوں سے استنبول میں پاکستانی وزیرِ خارجہ خورشید قصوری اور اسرائیلی وزیرِ خارجہ سیلون شیلوم میں براہ راست نہ صرف ملاقات ہوئی بلکہ اسرائیل نے کئی شعبوں میں تعاون کی پیشکش بھی کی اسی طرح یواین کے اجلاسوں میں بھی دونوں ممالک کی قیادت میں آمناسامنا ہونااور خیرمقدمی کلمات کا تبادلہ ہوتارہتاہے۔ اسی بناپر کہہ سکتے ہیں کہ سعودی اعلان ہوتے ہی پاکستان بھی دوستانہ روش پر چل سکتا ہے ۔موجودہ نگران حکومت کی جڑیں کیونکہ عوام میں نہیں اور نہ ہی وہ عوامی نبض شناس ہے اسی لیے کسی بھی ایسے اہم فیصلے کے لیے منتخب حکومت سے زیادہ موجودہ نگران دور بہترین ہے ۔