... loading ...
سمیع اللہ ملک
امت مسلمہ اس وقت جس صورتحال سے دوچارہے اس کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ہرصاحبِ نگاہ آگاہ ہے کہ عزت، وقاراورسربلندی گویاکہ ہم سے چھین لی گئی ہے اوربعض اوقات یہ لکھتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتاہے جو”مغضوب علیھم”قوموں کا نقشہ قرآن مجیدمیں کھینچاگیاہے،مختلف اعتبارسے وہی نقشہ آج ہمیں اپنے اوپر منطبق ہوتانظرآرہاہے،افتراق ہے،باہمی خانہ جنگیاں ہیں،اختلافات ہیں۔ وحدتِ امت جومطلوب ہے،اس کاتوشیرازہ بکھرچکاہے۔سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کاحل کیا ہے؟اس کیلئے ہم کس سے رجوع کریں؟اس کا جواب اگرایک لفظ میں جانناچاہیں تووہ یہ ہے کہ خلوص اوراخلاق کارشتہ اوروفاداری کاتعلق ازسرِنواللہ سے، اس کی کتاب سے،اس کے رسول اکرمۖسیصحیح بنیادوں پرقائم کیاجائے۔ایک حدیث کی روسے نبی اکرمۖنے فرمایا:
”دین توبس خیرخواہی،اخلاص اوروفاداری کانام ہے”۔پوچھاگیاکہ”حضورۖکس کی وفاداری،کس سے اخلاص؟” حضور اکرمۖ نے ارشادفرمایا”اللہ ،اس کی کتاب،اس کے رسول اورمسلمانوں کے رہنماؤں اورقائدین سے،اورعامتہ المسلمین سے”۔اللہ تعالی کے ساتھ خلوص واخلاص کاجہاں تک تعلق ہے،وہ ایک لفظ میں اداکیاجاسکتاہے۔التزام توحیداورشرک کی ہرنوعیت سے اجتناب اللہ تعالی کے ساتھ وفاداری ہے،اگرچہ یہ کام آسان نہیں ۔جہاں تک قرآن اورحضوراکرم ۖکے ساتھ خلوص واخلاص کامعاملہ ہے تویہ درحقیقت دو چیزیں نہیں ہیں،جیسے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے فرمائش کی گئی کہ ہمیں حضور اکر مۖکی سیرت واخلاق کے بارے میں بتائیں توآپ نے سوال کیا”کیاتم قرآن نہیں پڑھتے؟”اورجواب اثبات میں آیاتوآپ نے فرمایاکہ”،حضوراکرم ۖکی سیرت اور اخلاق قرآن ہی توہے”۔
غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ نبی اکرمۖسے ہمارے تعلقات کی بنیادیں چارہیں۔سور الاعراف کی آیت157کاپس منظر بڑا عجیب ہے،حضرت موسی علیہ السلام نے جب اپنے اوراپنی قوم کیلئے بارگاہِ خداوندی میں رحمت کاسوال کیاتواللہ تعالی نے جوابا ارشاد فرمایا: ”میری ایک رحمت عام ہے جوتمام مخلوقات کیلئے کھلی ہوئی ہے اورجومیری رحمتِ خصوصی ہے تواسے میں نے مخصوص کردیاہے ان لوگوں کیلئے جومیرے نبی امی سے اپناصحیح تعلق قائم کریں گے”۔ وہ تعلق کیاہے؟اس کومذکورہ آیت کے آخری حصے میں بیان کردیاگیاہے: پس آج یہ رحمت ان لوگوں کاحصہ ہے)جواس پیغمبرنبی امی کی پیروی اختیارکریں …….لہنداجولوگ ان پرایمان لائیں گے،ان کی تعظیم کریں گے،ان کی نصرت وحمایت کریں گے اوراس روشنی کی پیروی اختیارکریں گے جوان کے ساتھ نازل کی گئی ہے وہی فلاح پانے والے ہیں (اصل معنی میں کامیاب اورمیری رحمتِ خصوصی انہی لوگوں کے حصے میں آئے گی)۔
اس آیت مبارکہ کی روشنی میں غورکیاجائے توحضوراکرم ۖکے ساتھ ہمارے تعلق کی چاربنیادیں واضح طورپرسامنے آتی ہیں۔سب سے پہلی بنیادہے تصدیق وایمان،یہ تصدیق کرناکہ آپ اللہ کے رسول ہیں،آپ ۖنے جوکچھ فرمایااپنی طرف سے نہیں فرمایا،جیساکہ قرآن میں ارشادفرمایاگیاہے:اورہمارانبیۖاپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا،یہ تو ایک وحی ہے جوان پرکی جاتی ہے،اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے”(سور النجم(5-3
اب اس ضمن میں یہ جانناچاہئے کہ اس ایمان اورتصدیق کے دودرجے ہیں،ایک زبانی اقرارجس سے انسان اسلام کے دائرے میں آ جاتاہے،وہ قانونی ضرورت پوری ہوجاتی ہے جوامتِ محمدی میں شامل ہونے کیلئے لازمی اورضروری ہے لیکن اصلی ایمان دل سے تصدیق کا ہے جبکہ آنحضرت رسول اکرمۖ کی رسالت ونبوت پردل میں یقین کی کیفیت پیداہوجائے تویہ ہے ایمانِ مطلوب،اس کے بغیر جو دوسرے حقوق ہیں نبی اکرمۖ کے وہ ہم ادانہیں کرسکتے،پھرزبانی کلامی تعلق رہے گاجیسا کہ اللہ معاف فرمائے ہماری ایک عظیم اکثریت کا ہے۔دوسراتعلق ہے تعظیم ومحبت،یہ لازمی تقاضا ہے یقینِ قلبی کا۔اگریہ یقین ہوکہ آپ ۖ اللہ کے رسول ہیں توآپ کی عظمت کانقش قلب پرقائم ہوجائے گا، آپ کی محبت دل میں جاگزیں ہوگی۔جیسے کہ نبی اکرمۖنے فرمایا”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اسے محبوب ترنہ ہوجاؤں اس کے اپنے بیٹے سے،اس کے اپنے باپ سے اورتمام انسانوں سے”۔یہ حدیث مبارکہ اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایمان کامعیاراس کے سوااورکچھ نہیں کہ دنیاومافیہاکی ہرشے سے بڑھ کرحضورنبی اکرم ۖکی ذات سے محبت کی جائے اورجب تک یہ کیفیت پیدانہ ہوکوئی شخص نام کامسلمان توہوسکتاہے،مومن نہیں ہوسکتا۔
ایک دفعہ حضورنبیۖکی بارگاہ اقدس میں سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کہ حضور نبی اکرم ۖنے پوچھا:اے عمر! تمہیں مجھ سے کتنی محبت ہے؟حضرت عمررضی اللہ عنہ جوابھی مرحل تربیت سے گزررہے تھے،عرض کرنے لگے:حضور!مجھے سب سے بڑھ کر آپ کی ذات سے محبت ہے مگرگاہے بگاہے محسوس ہوتاہے کہ اولادکی محبت آپ کی محبت سے قدرے زیادہ ہے حضورنبی اکر ۖفرمانے لگے: اے عمر!اگریہ بات ہے توتمہاراایمان ابھی مکمل نہیں ہوا۔اس فرمان کے بعدحضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دل کی کایاپلٹ گئی، یہاں تک کہ ان کے دل میں حضورنبی اکرم ۖکی محبت دیگرتمام محبتوں پرغالب آگئی اوروہ بے ساختہ پکاراٹھے:رب ذوالجلال کی قسم!اب حضورنبی اکرم ۖکی محبت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ ہے اورمرتے دم تک کبھی کم نہیں ہوگی۔اس پرآپ ۖنے حضرت عمر کا ہاتھ پکڑکرفرمایا:اب تمہاراایمان مکمل ہوا۔یہاں یہ بات ملحوظ خاطررہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کاظاہروباطن ایک تھااوران کے کردار میں منافقت کاشائبہ تک نہ تھا۔اسی لیے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضورنبی اکرم ۖکے استفسارپر دل کی بات بتادی یعنی اگرمومن کے دل میں آنحضورۖکی محبت اپنے تمام اعزااقربااورتمام انسانوں سے بڑھ کرجاگزیں ہوئی ہے تووہ حقیقتامومن ہے۔اس حدیث میں بیٹے اورباپ کے ذکرنے تمام عزیزوں،رشتہ داروں ،قبیلوں اورقوموں کااحاطہ کرلیاہے۔ان الفاظ میں کوئی ابہام نہیں ہے،ایسانہیں کہ بات واضح نہیں بلکہ صاف صاف اوردوٹوک اندازمیں ارشاد ہواہے کہ حقیقی ایمان کالازمی تقاضہ ہے کہ حضورۖایک بندہ مومن کودنیاکی تمام چیزوں سے محبوب ترین ہوجائیں اوران کی حرمت پرجان بھی چلی جائے تواس کوسعادت سمجھیں۔
تعظیم ظاہری بھی مطلوب ہے اورقلبی بھی،اس طرح محبت کازبانی اظہاربھی ہواوردل میں بھی محبت جاگزیں ہواوراس کاسب سے بڑا مظہرہے حضوراکرمۖ پردرودبھیجناجس کے بارے میں فرمایاگیا:اللہ اوراس کے فرشتے پیغمبرپردرودبھیجتے ہیں،مومنوتم بھی ان پر درود اور سلام بھیجاکرو۔اگرکوئی شخص اپنی دعاکل کی کل صرف حضورۖ پردرودبھیجنے پرمشتمل کردے تواس کامقام اورمرتبہ کہیں زیادہ ہوگااس سے،کہ وہ خوداپنے لئے کوئی سوالات کرتارہے۔
تیسراتعلق حضورۖکے ساتھ ہماراحضورۖکی نصرت وحمائت ہے جولازمی نتیجہ ہے ان پہلی دوبنیادوں کا،وہ ہے حضوراکرمۖکی اطاعت اور اتباع کا۔ظاہربات ہے کہ جب آپۖ کواللہ کارسول ماناتواب آپۖکے حکم سے سرتابی چہ معنی دارد۔ آپ ۖکاہرحکم سر آنکھوں پرہوگا،اس میں البتہ انسان تحقیق کاحق رکھتاہے کہ واقعتا محمدرسول اللہ ۖنے یہ حکم دیاہے یانہیں،لیکن جب طے ہوجائے کہ یہ آپۖکافرمان ہے تواب چوں چراں کاکوئی سوال نہیں،اب تواطاعت کرنی ہوگی اوراطاعت بھی کیسی؟وہ اطاعت جس کے بارے میں قرآن مجیدمیں فرمایاگیا:پس نہیں تیرے رب کی قسم!یہ لوگ ہرگزمومن نہیں ہیں جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کوفیصلہ کرنے والانہ مان لیں،پھر جوکچھ تم فیصلہ کرواس پراپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ آپۖکے فیصلے کے آگے پوری دلی آمادگی اورخوشی کے ساتھ سرِ تسلیم خم نہ کردیں(سور نسا۔65)
یہی بات آنحضورۖنے فرمائی:تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتاجب تک کہ اس کی خواہشِ نفس اس ہدایت کے تابع نہ ہوجائے جومیں لیکرآیاہوں۔جب اطاعت کے ساتھ محبت کی شیرینی شامل ہوجائے تواس طرزِ عمل کانام ہے اتباع۔اس کادائرہ بہت وسیع ہے۔ ظاہرہے کہ اطاعت تو ان احکام کی ہوگی جوحضورۖنے دیئے ہوں لیکن اتباع ان تمام اعمال وافعال کاہوگاجن کاصدوروظہورہوانبی اکرمۖسے،چاہے اس کوکرنے کا حکم آپ ۖنے بالفعل نہ دیاہو۔اس اتباع کاجوقرآن میں جومقام ہے وہ بھی سن لیجئے۔سور آل عمران آیت132میں فرمایا:اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کروتاکہ تم پررحمت کی جائے۔یعنی اے نبی ۖان سے کہہ دیجئے کہ :اگرتم اللہ سے محبت رکھتے ہو توتم لوگ میرااتباع کرو،اللہ تم سے محبت کرے گااورتمہاری خطاؤں کوڈھانپ لے گا۔
اس آیت کریمہ سے اتباع رسولۖکی یہ اہمیت سامنے آتی ہے کہ اللہ سے محبت کادعوی ہے توجنابۖ کااتباع لازم ہے۔اس کاایک نتیجہ تویہ نکلے گاکہ اللہ ہم سے محبت فرمائے گااوردوسرانتیجہ یہ نکلے گاکہ ہم اس کی مغفرت کے مستحق قرارپائیں گے۔اس سے زیادہ ایک بندہ مومن کی خوش بختی اورکیاہوسکتی ہے کہ وہ اللہ کامحبوب اوراس کی مغفرت کاسزاوار بن جائے۔
چوتھااورآخری اوریوں کہئے کہ یہ عروج ہے حضورۖکے ساتھ ہمارے تعلق کا،وہ ہے تائیدونصرت۔حضورۖایک مشن لیکرتشریف لائے تھے۔ صحابہ کرام نے دورانِ خلافت ِ راشدہ اس عمل کوجہاں تک پہنچایاتھاہم اپنی بے عملیوں کے طفیل وہ اثرات بھی ختم کرچکے ہیں۔ اب توازسرِ نو پیغام محمدی ۖکی نشرواشاعت کرنی ہے۔پیغام محمدی ۖکوپہنچانا ہے تمام اقوام وملوک تک،اورازسرِنواللہ کے دین کوفی الواقع قائم ونافذ کرناہے کرہ ارضی پراوراس کیلئے پہلے اللہ جہاں بھی توفیق دے،جس خطہ ارضی کی قسمت جاؤگے،عہدِ حاضر میں انقلابِ محمدیۖکاتواس ملک کی خوش بختی اورخوش نصیبی پرتوواقعتا رشک کرناچاہئے۔یہ ہے وہ فریضہ منصبی جوامت کے حوالے کیاگیاہے۔آنحضورۖکامشن زندہ وتابندہ ہے ۔حضورۖ گویاکہ اب بھی پکاررہے ہیں:کون ہے اللہ کی راہ میں میرامددگار،یعنی کون ہے جومیرے پیغام کی نشرواشاعت کاکام کرے،میرے دین کاعلمبرداربن کر کھڑاہواور پورے کرہ ارض پراس کاجھنڈاسربلندکرنے کیلئے تن من دھن لگانے کیلئے آمادہ ہوجائے۔
اس ضمن میں آخری بات یہ ہے اس آیۂ مبارکہ میں،کہ اس عمل کاذریعہ کیاہے۔محمدرسول اللہ ۖنے جوانقلاب برپاکیاتوآلہ انقلاب تھاقرآن حکیم،پس معلوم ہواآپۖکی دعوت کامرکزومحورقرآنِ حکیم تھا۔آپۖنے قرآن کریم کے ذریعے لوگوں کے اذہان و قلوب بدل کررکھ دیے۔اسی قرآن حکیم کی بدولت لوگوں کی سوچ میں انقلاب برپا کردیا ۔ اسی قرآن الفرقان کی آیاتِ بینات سے اذہان کی تطہیرفرمائی،یہی قرآنی آیات وبینات لوگوں کے تزکیہ نفس کاذریعہ بن گئیں،اسی قرآن کریم کے نورسے خارج وباطن منورہو گئے۔ وہ کتاب آج بھی اسی حالت میں اس امت کے پاس محفوظ ہے بس اس کے ساتھ اپنے تعلق کودرست کرناہوگا۔یہ آنحضورخاتم النبین ۖکے ساتھ ہمارے صحیح تعلق کی آخری اوراہم ترین بنیادہے۔اس وراثتِ محمدیۖکومضبوطی کے ساتھ تھامنے کاحکم ہے اوراسی کو ”حبل اللہ”قراردیاگیاہے۔یہی کتاب اللہ،امت کے اندرازسرنواتحادویکجہتی پیدا کرے گی،اسی سے وحدتِ فکرپیداہوگی،اسی سے وحدتِ عمل کی توفیق ملے گی،اسی سے ہماری جدوجہدیکجہتی کے ساتھ اپنے اصل ہدف کی طرف آگے بڑھے گی۔اس کتاب کے حقوق کوپہچانناہمارے حقیقی اورقلبی ایمان کیلئے ضروری ہے،یہی درحقیقت میلادالنبیۖکااصل پیغام ہے۔ یہی اصل لمحہ فکریہ ہے،اس کتاب کومانیں جس طرح ماننے کاحق ہے،اسے پڑھیں جیساکہ پڑھنے کاحق ہے،اس کوسمجھیں جیسا کہ سمجھنے کاحق ہے،اس پرعمل کریں جیساکہ اس پرعمل کرنے کاحق ہے اورپھراس کے داعی،مبلغ اورمعلم بن جائیں جیسے کہ اس تبلیغ،دعوت،تعلیم اور تبین کاحق ہے اورجذبہ عشق رسول اکرمۖکا اصل تقاضہ یہی ہے کہ یہ کیفیت ہمارے فکروعمل کاپوری طرح احاطہ کرلے۔یہ بات ایمان کی ہے اورایمان کا ثبوت اعمال صالح کی صورت ہی میں فراہم کیاجاسکتاہے۔سیرت پاک کے سلسلے میں یہ حقیقت بھی ہماراجزوایمان ہونی چاہئے کہ دوررسالتِ مآبۖتاریخ کاحصہ نہیں ہے بلکہ ساری نسلِ انسانی کیلئے قیامت تک ہدایت جاریہ ہے۔
ہمارے رسول کریمۖنے اسلام کوایک مکمل معاشرتی نظام بناکرنسلِ انسانی کوعطافرمایاہے اورانسانی تاریخ کا حقیقی انقلاب وہی دورسعا دت آثار ہے۔رسول کریمۖکے وسیلے ہی سے انسانیت کودنیاکے ساتھ ساتھ حیات وکائنات کی وسعتوں کاشعوراورنسلِ انسانی کی عالمگیرمساوات کاپیغام ملا۔انسان انفرادی طورپرجس طرح مختلف مرحلوں سے گزرکرباشعورہونے کی منزل تک پہنچتاہے،نسلِ انسانی بھی مجموعی طورپرانہی مرحلوں سے گزری ہے۔ختم نبوت کااعلان پوری نسلِ انسانی کے باشعورہونے کااعلان بھی ہے،اسی لئے ہمارے حضورۖنے خطبہ حجتہ الوداع میں ساری نسل انسانی کومخاطب فرمایا۔
اس طرح پوری نسل انسانی کیلئے اللہ کی ہدایت حرفاًحرفاًمحفوظ ہوگئی اوراس کے مطابق پوری معاشرتی زندگی بسرکرنے کاایک مکمل عملی نمونہ سامنے آگیا۔آپ کی مثالی زندگی کو معاشرتی زندگی کی حقیقت بناکرپیش کردیاگیا،زندگی عملی نمونے میں ڈھل گئی۔انسان پریہ حقیقت واضح ہوگئی کہ کائنات کے نظام اورانسان کی انفرادی،اجتماعی زندگی اورسماجی زندگی سب اللہ کے قانون کی گرفت میں ہیں۔کائنات کے نظام میں اللہ کی حاکمیت براہِ راست ہے لیکن ارادے اوراختیارکی صفت کی وجہ سے انسانی زندگی پراللہ تعالی کی حاکمیت کانفاذانسانی ایمان واعمال کے وسیلے سے ہوتاہے۔کائنات کانظام حیرت انگیزنظم وضبط کے تحت چل رہاہے۔وہاں کسی نوعیت کاکوئی فسادممکن ہی نہیں،کیونکہ
فسادشرک سے پیدا ہوتاہے اورکائنات میں شرک ممکن نہیں ۔سور ہ الانبیامیں ارشادہواہے:اگرآسمان وزمین میں ایک اللہ کے سوادوسرے خدابھی ہوتے توزمین اورآسماندونوں کانظام بگڑجاتا۔
فساد شرک سے پیداہوتاہے،شرک ناقابل معافی گناہ اسی لیے ہے کہ اس سے احترامِ آدمیت کی نفی ہوجاتی ہے۔انسان کے مشرکانہ افکارواعمال سے اللہ کی ذات پرکوئی اثرنہیں پڑتا ۔ساری دنیاکے انسان بھی اگرمشرک ہوجائیں تواللہ اپنی ذات میں آپ محمودہے۔شرک سے انسانی فکرمیں، انسانی عمل میں اورانسانی معاشرے میں فسادپیداہوجاتاہے اور جہاں فسادہوتاہے وہاں امن وانصاف برقرارنہیں رہ سکتا۔انسانی معاشرے میں خیرو فلاح کیلئے اورہمہ جہت ارتقاکیلئے امن وانصاف قائم رہناضروری ہے۔حریت،مساوات، اخوت، امانت،دیانت،صداقت اورعدالت،یہ صفات جنہیں ہم اخلاقی قدریں کہتے ہیں،یہ قدریں درحقیقت وہ قوانین قدرت ہیں جن کے نفاذ سے انسانی معاشرے میں امن وانصاف کی ضمانت مہیاہوجاتی ہے۔
جس فردمیں جس حد تک یہ صفات زندہ وبیداراورمتحرک ہوں گی،وہ فرداسی نسبت سے خیروفلاح قائم کرنے کاباعث ہوگااوراورجس معاشرے میں ایسے صالح اعمال والے افراد کی کثرت ہوگی وہ معاشرہ امن وسلامتی اورانصاف کاگہوارہ بن جائے گا۔بیج کوکھلی فضاملے تو پوری طرح پھلتاپھولتاہے۔اس پرکوئی دباؤآجائے یاوہ کسی پتھرکے نیچے آجائے تووہ نشوونماسے محروم ہوجاتاہے۔سرکار دو عالمۖ نے اس اولین اسلامی معاشرے سے انسانی جذبات،مفادات،خواہشات اورتعصبات کے سارے پتھرسمیٹ لئے تھے چنانچہ انسانی معاشرت کاوہ باغ ایسا لہلہایا، ایسے پھل پھول لایاکہ انسانی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔اس اعتبارسے دیکھئے توسیرت سرکار دوعالمۖ کی مثال واقعی بے مثال ہے۔حضوراکرمۖسب سے زیادہ بااختیارتھے اورسب سے زیادہ قانون کے پابندتھے۔حضوراکرمۖکے تصرف میںہرشے آسکتی تھی لیکن حضوراکرمۖنے سب سے زیادہ سادہ زندگی بسرفرمائی۔ حضور اکرمۖکاہرفرمان قانون تھا اور حضوراکرم ۖنے سب سے زیادہ خوداحتسابی کی زندگی بسرفرمائی۔اس اعتبارسے اسلامی معاشرے کی خصوصیات بڑی منفرد ہیں۔ اسلامی معاشرے میں تکریم کاواحدمعیار شخصی کردارہے۔
اسلامی معاشرے میں دشمن اقوام کے افرادسے بھی انصاف کیاجائے گااورغلطی اورجرم کرنے والاسب سے پہلے خودہی اپنے جرم کا اعتراف کرے گا۔اسلامی نظام میں انسانوں کی انسانوں پرحکومت کاکوئی تصورنہیں بلکہ معاشرتی زندگی میں معاملات اوراشیاکاانتظام کرنے والاہر وقت ہرشخص کے سامنے اپنے اعمال اورطرزِانتظام کیلئے جوابدہ رہے گااور ایسے نظام کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ خودانسان کی اپنی خواہشات نفسانی بن جاتی ہیں۔سورہ فرقان میں ارشادہے:تم نے اس شخص کوبھی دیکھاجس نے اپنی خواہشات نفسانی کواپنا الہٰ بنالیاہے،اب ایسے شخص کوتم راہِ راست پرکیسے لاسکتے ہو؟یہی خواہشاتِ نفسانی معاشرتی امن وانصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پیداکرتی ہیں۔
معاشرتی زندگی میں انصاف سے محرومی سے فتنہ وفسادپیدا ہوتاہے اورفتنہ وفسادکی کیفیت لوگوں کے جذبات اورتعصبات کومسلسل ابھارتی رہتی ہے۔جبر کے ذریعے لوگوں کووقتی طور پرخاموش رکھاجاسکتاہے لیکن جبرکی خاموشی پھربغاوت کاطوفان بن کرنمایاں ہوتی ہے۔انسانی
زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ وہ فانی نہیں ہے۔انسانی وجودکو،انسانی ذات کوموت کے بعدبھی باقی رہناہے،انسان کیلئے آنے والی زندگی ناگزیرہیاور اس آنے والی دائمی زندگی میں کامیابی یاناکامی کی بنیاداس دنیامیں ایمانی شعورکے تحت اختیاری عمل ہوں گے۔ آخرت پر ایمان انسان میں خوداحتسابی کی صفت پیداکرتاہے۔انسانی معاشرت کے تعمیری اورتخریبی دونوں پہلونسلوں،علاقوں یاملکوں تک محدودنہیں رہتے۔ گزشتہ 1445برسوں میں عالمگیرسطح پرجتنی بھی مثبت تبدیلیاں ہوئی ہیں،انسانی حقوق کاجتناشعوربھی بیدار ہوا ہے، قوموں کواعلیٰ انسانی اقدارکے مطابق اپنانظام مرتب کرنے پرراغب کرنے کیلئے بین الاقوامی تنظیموں کے قیام کی جوکوششیں بھی ہوئی ہیں،ان ساری کوششوں کا حقیقی محورمرکزسرکاردوعالمۖکادورسعادت آثارہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ توحید پرایمان سازی نسل انسانی کیلئے خیروفلاح کی راہیں کشادہ کرتا ہے۔لیکن نسل انسانی کی وحدت اوراس کی فلاح وخیرکی راہ میں رکاوٹیں بھی مسلسل آتی رہتی ہیں اورحق وباطل اورخیروشرکے درمیان یہ آویزش انسانی معاشرے کی امتیازی صفت ہے چنانچہ امن وانصاف کی فضاکوفتنہ وفسادپیداکرنے والی طاقتیں برابرمکدرکرتی رہتی ہیں اورطرفہ تماشہ یہ کہ فسادپھیلانے والے بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اصلاح کرنے والے ہیں۔فتنہ وفسادکی صورتیں مختلف ہوتی ہیں۔قرآن پاک میں فتنہ پردازی کوانسانی قتل سے بھی زیادہ بڑاگناہ قراردیاگیاہے۔فرعون کومفسدکہاگیاہے اورفسادکی شدت کوانسانی بداعمالیوں کانتیجہ بتایاگیاہے۔تاریخ قوموں کاحافظہ اورواقعات کی ریاضی ہے۔تاریخ اپنے آپ کودہراتی رہتی ہے اوراس طرح ہم پریہ حقیقت واضح ہوتی رہتی ہے کہ اللہ کا قانون بدلانہیں کرتا۔حیات وکائنات کانظام انسانی معاشرے کے مختلف اجزاپرمشتمل ہے،ان میں منقسم نہیں ہے،ہم نے عملااسے منقسم کردیاہے۔
عبادات الگ،معاملات زندگی الگ اورہم اس ارشادِقرآنی کوبھول جاتے ہیں کہ ایک سے زیادہ الہ ہوں گے توفسادہوگا۔ہمارے ہادی برحقۖنے خطبہ حجتہ الوداع میں ہم اہل ایمان پریہ ذمہ داری ڈالی تھی کہ جووہاں موجودتھے وہ اس پیغام کوان لوگوں تک پہنچائیں جو وہاں موجودنہیں تھے۔یہ ایک عالمگیرذمہ داری تھی۔اس کے ساتھ قرآنِ کریم نے ہم پراجتماعی طورپر”خیرامت”اور”امتِ وسط”ہونے کی ذمہ داری بھی ڈالی ہے۔ (مومنو)جتنی امتیں(یعنی قومیں)لوگوں میں پیداہوئیں،تم ان سب سے بہترہوکہ نیک کام کرنے کوکہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہواوراللہ پرایمان رکھتے ہو۔ایک اور جگہ سورہ انفال میں ارشادہوا:حق کی منکرقوتیں ایک دوسرے کا ساتھ دعوت دیتی ہیں،تم اگرایسانہیں کروگے توبڑافسادبرپاہوجائے گا۔
ایمان کی توانائی فردمیں اورقوم میں ،دونوں میں خوداحتسابی کی صفت پیداکرتی ہے۔ہم اس صفت سے ایک طویل عرصے سے عالمگیر سطح پر محروم ہیں اوراس محرومی نے ہمیں اس توانائی سے بھی محروم کردیاہے جسے اقبال نے مومن کی فراست کی اصطلاح سے تعبیرکیاہے اس کے باوجودعالمی سطح پرامن وانصاف کے قیام کیلئے ہماراملی کردارکلیدی اہمیت رکھتاہے ۔ جب تک وہ کرداراداکرنے کے قابل نہیں ہوں گے ، عالمگیرسطح پرامن وانصاف قائم نہیں ہوسکتااوراپنی اس بے بسی کیلئے ہم اللہ کے حضورجوابدہ بھی ہوں گے اوراس کردارکی ادائیگی کی راہ صرف جذبہ حب رسول ۖسے ہی منورہوسکتی ہے کیونکہ حضوراکرمۖ کی ذات ہی حاصلِ حیات وکائنات ہے ۔
درحقیقت عیدمیلادالنبی کاحقیقی پیغام یہی ہے جس کوسمجھنے اورعمل کرنے کی ضرورت ہے اوریہی وقت کااہم تقاضا ہے۔اللہ تعالی ہمیں ان جملہ امورپرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے کہ ہم نبی اکرمۖکے مشن کی عالمی سطح پرتکمیل کیلئے راست سمت میں پیش قدمی کرسکیں ۔ثم آمین