... loading ...
سمیع اللہ ملک
رومی سلطنت(رومن ایمپائر)دنیاکی پہلی بڑی سلطنت تھی،تاریخ میں ایک ایساوقت بھی گزراتھاجب شمال سے جنوب اورمشرق سے مغرب تک پوری دنیارومی سلطنت کی باجگزار تھی ۔ روم کایہ عروج صرف طاقت،فوج اورسرمائے کی بدولت نہیں تھابلکہ رومی علم، آرٹ، کلچر، سائنس،روحانیت،تعمیرات اورسیاست میں بھی پوری دنیاسے آگے تھے،روم شہرکی آبادی103قبل مسیح میں10لاکھ تھی اور یہ دنیا کا پہلا شہر تھاجس کی آبادی نے10لاکھ کاہندسہ عبورکیاتھا۔پمپئی رومی سلطنت کاشہرتھا،یہ شہرحضرت داؤدکے دورمیں تعمیرہوا تھااور 87قبل مسیح میں آتش فشاں کے لاوے میں دفن ہوگیااوریہ دنیامیں عیاشوں کی پہلی جنت تھی۔اس شہرمیں زمانہ قبل مسیح میں شراب خانے، ریستوران، بیکریاں اورپبلک پارک ہوتے تھے اوراس شہرمیں مردکومرداورعورت کوعورت سے شادی کی اجازت تھی اورزیبراکراسنگ اورکریم کیک اس شہر میں ایجادہوئے تھے۔روم شہرمیں قبل مسیح میں800حمام تھے اورہرحمام میں1600لوگ بیک وقت غسل کرسکتے تھے اورزمانہ قبل مسیح میں رومی حکومت پورے شہرکوگرم پانی سپلائی کرتی تھی،رومیوں نے250قبل مسیح میں روم سے براستہ نیپلز جنوبی ساحلوں تک 765 میل لمبی پکی سڑک بنائی تھی،یہ دنیاکی پہلی طویل اورپکی سڑک تھی۔رومیوں نے 72میں روم شہرمیں عظیم الشان ایمپی تھیٹربنایاتھا۔یہ ایمپی تھیٹر کلوزیم کہلاتاتھااوراس میں80ہزارتماشائی بیک وقت گلیڈ ی ایٹرکے مقابلے دیکھ سکتے تھے۔
عظیم رومی سلطنت کی شان اس کے بادشاہ تھے جوسیزرکہلاتے تھے اوران کی عجیب روایات تھیں۔مثلاًرومی بادشاہ کے ہاں جب ولی عہد پیداہوتاتھاتویہ اپنی سلطنت میں سے انتہائی عالم فاضل،ذہین اورمدبرشخص کاچناؤکرتے تھے اوراسے ولی عہدکی تربیت کی ذمہ داری سونپ دیتے تھے۔یہ اتالیق ولی عہدکودنیاوی،روحانی اورعسکری علوم سکھاتاتھااور جب ولی عہدتخت نشین ہوجاتاتھاتویہ اتالیق ہمیشہ اس کے پیچھے کھڑارہتاتھااورجب بھی بادشاہ کے لہجے میں غرورآتاتھایاوہ گردن تان کرکوئی غلط حکم صادرکرتایاپھروہ کبھی عہدہ کے گھمنڈ میں مبتلا ہوجاتاتویہ اتالیق اپناہاتھ بادشاہ کے کندھے پررکھتااوربادشاہ کے کان پرجھک کرنرم آوازمیں کہتا”سیزرآفٹر آل یوآراے ہیومن بئینگ” بادشاہ سلامت بالآخر آپ بھی انسان ہیں،بادشاہ کوفورااپنی غلطی کااحساس ہوجاتاتھااوروہ اپنے حکم پرنظر ثانی کرلیتاتھا۔مؤرخین کامتفقہ فیصلہ ہے جب تک رومی بادشاہوں کے کندھوں پرایسے اساتذہ کے ہاتھ آتے رہے،اس وقت تک رومن ایمپائرقائم رہی لیکن جب باجوہ،فیض حمیداوراسحق ڈارجیسے افرادنے اتالیق کی جگہ لے لی تودنیاکی یہ عظیم سلطنت اپنے ہی پاؤں میں گرکر ریزہ ریزہ ہوگئی اورآج جب روم کے شہری اپنے پرانے مکان ڈھاتے ہیں توانہیں بنیادسے کسی نہ کسی ناگزیرشخص کی ہڈیاں،میڈلزاوروردی ملتی ہے اورشام تک یہ ساری اشیاء روم کے عجائب گھرمیں رکھ دی جاتی ہیں۔
مجھے یقین ہے اگرآج صاحبِ اقتداراپنے آپ کوچندلمحے دے دیں توانہیں ان چہروں تک پہنچتے دیرنہیں لگے گی جنہوں نے عمران، باجوہ اورفیض حمیدکی”رومن ایمپائر”کوتباہی کے دہانے پرلاکھڑاکیاتھا۔مجھے یقین ہے اگرمشرف سے لیکرآج تک کی تاریخ پرایک نظرڈال لیں، اوراسی تناظرمیں اپنے آپ کوایک لمحہ دے دیں توآج انہیں معلوم ہوجائے گا کہ ایوان اقتدار،وردیاں،میڈل اورفوجیں لیڈروں کی طاقت نہیں ہوتیں،دنیامیں لیڈروں کی اصل طاقت ان کاکریکٹرہوتاہے۔قائداعظم محمدعلی جناح کے پاس کوئی وردی تھی اور نہ ہی فوج لیکن ان کے پاس کریکٹرتھااورانہوں نے کریکٹرکی اس طاقت سے دنیاکی سب سے بڑی اسلامی سٹیٹ بنالی تھی۔اگرآج مقتدر اپنے آپ کوچندلمحے دے دیں تو انہیں معلوم ہوجائے گاکہ لیڈروں کی سب سے بڑی طاقت عوامی محبت ہوتی ہے اورجب عوام کسی لیڈرسے محبت کرتے ہیں تووہ اپنے لیڈرکی آوازبن جاتے ہیں اوراگرآج یہی صاحبِ اقتدارجان جائیں کہ قوموں کی اصل طاقت ان کا رول آف لاء اورآئین ہوتاہے جبکہ آج اس ملک میں نہ آئین نظرآتاہے اورنہ ہی رول آف لائ۔
اگرآج ایوانِ اقتدارمیں براجمان اپنے آپ کوچندلمحے دیں توانہیں معلوم ہوجائے گا،وقت آج پکارپکارکرکہہ رہاہے”سیزرآفٹرآل یوآر ہیومن بئینگ”اوردنیاکاکوئی ہیومن بئینگ ناگزیرنہیں ہوتااوراس کے ساتھ ساتھ ان تمام سیاستدانوں کوبھی خبرہوکہ اچانک ان کواس قدر شدت سے جلدانتخابات کابخارکیوں ہوگیاہے،شائداس کی وجہ ان کے وہ خدشات ہیں جس نے ان کے دنوں کاچین اورراتوں کی نیندیں حرام کررکھی ہیں۔انہیں صاف دکھائی دے رہاہے کہ اقتدارتواڑھائی فٹ کی اس چھوٹی سی چھڑی میں ہے جس کو خودآپ نے اپنے ہاتھوں سے پیش کیاتھااوریہ بات بھی حقیقت ہے کہ جس شخص کے ہاتھ میں یہ چھڑی ہووہی سیزرہوتاہے اوراس ملک کاسیزر بدل چکاہے اوروہ دیکھ رہے ہیں کہ جواپنے اقتدارکودوام دینے کیلئے سیزرکودس مرتبہ یونیفارم میں منتخب کرانے کی قسم کھاتے تھے،آج وہ کس حال میں ہیں؟اس وقت توسیریزکے کندھے پربھی رسائی نہیں کہ ان کے کان میں کوئی سرگوشی کی جاسکے بلکہ اس کے وسیع پیمانے پراحتساب کے عمل سے معاملہ کسی اورطرف جاتادکھائی دے رہاہے لیکن……!
وہ تری گلی کی قیامتیں کہ لحدسے مردے نکل پڑے
یہ مری جبین نیازتھی کہ جہاں دھری تھی دھری رہی
اگرآپ کویادہوتوجس دن جنرل عاصم منیرصاحب نے آئینی اورقانونی اڑھائی فٹ کی چھڑی تھام کراس ادارے کی کمان سنبھالی تھی تومیں نے اپنے ایک غیرملکی ٹی وی چینل پروگرام میں ان کومخلصانہ مشورہ دیاتھاکہ باجوہ ڈاکٹرائن نے ادارے کوجونقصان پہنچایا ہے،اس کی تلافی کیلئے ضروری ہے کہ آپ اس کی اعلیٰ سطح پرانکوائری کاحکم دیں تاکہ عوام اور فوج کے درمیان جوغلط فہمیاں بڑھ رہی ہیں،ان کابروقت تدارک ہو سکے کیونکہ یہ ملک ہے توہم سب ہیں۔جنرل باجوہ کے عمران خان کے ساتھ اختلافات کی خبر آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کے وقت سامنے آئی جس نے سارے ادارہ کوہلاکررکھ دیاتھا۔بعدازاں اپنی رخصتی سے پہلے باجوہ نے جنرل فیض حمیدکے بارے میں جوانکشافات کئے تو میرا کہناتھاکہ اگرجنرل فیض نے فوجی ڈسپلن توڑاہے اورآرمی چیف کودھوکہ دیاہے توبھرپورکاروائی کی جائے وگرنہ جیسے باجوہ اپنے دستِ راست فیض کادفاع کرتے تھے ویسے ہی اگر آپ نے بھی باجوہ اور فیض کا دفاع کیاتوقوم آپ سے بھی مایوس ہوجائے گی جوکہ ایک انتہائی خطرناک تباہی کاعمل ہوگاکیونکہ کسی بھی ملک کی فوج اپنی عوام کی تائیدکے بغیرسروائیو نہیں کرسکتی۔
اگرآپ نے اورآپ کے تمام ساتھیوں نے کڑے احتساب کافیصلہ کرلیاہے تویہ اس وقت تک عوام کی نظروں میں مقبول ومعتبرنہیں ٹھہرے گاجب تک بلاتخصیص سب کواس بے رحمانہ احتساب میں کھڑانہ کیاجائے۔موجودہ جاری سیاسی تناظرمیں یہ ضروری ہوگیاہے کہ اپنے پیشروکوبچانے کے بدنام زمانہ مشترکہ مفاداتی سسٹم کوختم کرناہوگاجس نے اس ادارے کوشدیدنقصان پہنچایاہے۔قوم کویہ جاننے کاحق ہے کہ آخرباجوہ کن خاص وجوہات اورذاتی مفادات کی خاطرجنرل فیض کے دفاع کیلئے ہروقت کمربستہ رہتے تھے؟ماضی کے تمام سیاسی واقعات کوذہن میں رکھتے ہوئے اب اگرآگے بڑھنے کافیصلہ کرلیاگیاہے توسوچ سمجھ کرہر قدم اٹھاناپڑے گا۔اس میں شک نہیں کہ ملکی معاشی حالات کے ساتھ ہماراسب کچھ جڑاہواہے،دورنہ جائیں کہ ہمارے پڑوس کی سابقہ سپرپاورسوویت یونین بھی افغانستان کی جنگ کی وجہ سے اپنے معاشی حالات کوبربادکربیٹھی جس کے نتیجے میں اس کی ایٹمی طاقت بھی اس کونہ بچاسکی۔
اب یہ آپ پرمنحصرہے کہ چندجنرلزکے ذاتی فائدے کیلئے کیے گئے ماضی کے جرائم کادفاع کرناہے یاایسی کالی بھیڑوں کے خلاف قانونی کارروائی کرکے وردی کی عزت اورپاک فوج کی ساکھ بحال کرنی ہے۔چیف صاحب!آج آپ طاقتور ہیں،مالک ہیں جو چاہیں فیصلہ کریں۔آئین اورقانون کے راستے پرچل کرانصاف کریں گے،مجرموں کوکٹہرے میں لائیں گے،وردی پہن کرکی جانے والی زیادتیوں اورظلم کاراستہ بندکریں گے تویہ قوم آپ کو اچھے الفاظ میں یادکرے گی،اورقدرت مزید نوازے گی۔ لیکن اگرآپ اپنے سے پہلے آنے والوں کے راستے پرچلے توفیض کے مشہورِزمانہ اشعارتوآپ نے سن رکھے ہیں:
ہم دیکھیں گے،ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم وستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہاں دعویٰ نہیں عمل ثابت کرتاہے۔لاکھ دعوے کریں لیکن عمل اس کی گواہی نہ دے تووہ بس پھلجھڑی کی طرح روشن ہوکربکھرجاتا ہے بس چندلمحوں ہی میں۔اندرکی صداقت کوعمل ثابت کرتاہے،دعویٰ توجھوٹابھی ہوتاہے اگرعمل اس کے خلاف ہو۔یہ کوئی فلسفہ نہیں،سیدھی سادی سی بات ہے۔جمہوریت،اعتدال،برداشت،روشن خیالی،ترقی پسندی اوراس طرح کے سارے الفاظ بس دعویٰ ہیں۔اگر عمل اس کے برعکس ہوتب آپ اسے کیاکہیں گے؟جھوٹ،خودپسندی اورمنافقت کے سوااسے کیانام دے سکتے ہیں ہم کوئی اورنام!ہاں حکمت نہیں جناب یہ حکمت کہاں سے ہوگئی!فراست ،فہم اورتدبر نہیں جناب،یہ صرف خودپسندی ہے۔اپنی اناکے حصارمیںقیدایک شخص کی خود پسندی ، ایسا اناپرست اورخود پسندکہ ایک پورامنظم گروہ اس کی پشت پرکھڑاہے۔
ریاست مدینہ بنانے کادعویٰ،بدعنوانوں سے پاک پاکستان،آزادعدلیہ،آزادنیب،آزادصحافت،خواتین کی نمائندگی،انسانی حقوق کی پاسداری،میرٹ،تحفظ پاکستان کیلئے جان لڑادینے کاعزم،کشمیریوں کے وکیل ہونے کاجھوٹادعویٰ ورنجانے کیا کیا دعوے، اور پھر عملاً کیا ہوا۔دورنہ جائیں،مشرف کے زمانے میں کیاہوا؟سب سے پہلے پاکستان”سب سے پہلے میں،میں بدل گیا،بدعنوانوں سے پاک پاکستان،بدعنوانوں سے ڈیل کیلئے خود جنرل کیانی کی معیت میں دبئی جاکرمعاہدے کی نوک پلک سنواری گئی،آزادعدلیہ کوسولی پر چڑھا دیا گیااوربعدازاں اپنے بیان میں تسلیم کیاکہ مجھے ایک سازش کے تحت اس گڑھے میں دھکادیاگیااوراشارہ اپنے ہی ایک بہت ہی قریبی ساتھی کی طرف تھاجس کواپنے ہی ہاتھوں یہ طاقت کی چھڑی حوالے کی تھی جبکہ وہ تووردی کواپنے جسم کی کھال گردانتاتھا،آزادصحافت کے گلے پرچھری پھیردی گئی……!
جمہوریت کاراگ الاپنے سے جمہوریت نہیں آتی۔کوئی کسی کے روشن خیال کہنے سے روشن خیال کب بناہے!پاک سرزمین پریہ کارہائے نمایاں کن ادوارمیں ہوئے،آخران کا احتساب کون کرے گا؟آخر یہ کس کی حکمرانی ہے کہ پاکستان لہولہان ہے،منتشر ہے، راندہ درگاہ ہے،بے چین ہے،انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں۔بس چندلوگ حکمرانی کے نشے میں ڈوبے ہوئے چلارہے ہیں:جلدانتخابات جمہوریت کیلئے ضروری ہیں اورجلدانتخابات کیلئے اپنے والدسے بغاوت کاعندیہ دیکرخودکوجمہوریت پسندظاہرکرکے کس کودھوکہ دیاجا رہا ہے؟ بس جبرہے ہر طرف جابرزباں بند،قلم بند،جیلیں بھرتی چلی جاتی ہیں۔کوئی پرنہیں مارسکتا۔صرف نعرے لگانے سے کیا ہوتاہے!کچھ نہیں۔ انقلاب خون طلب کرتاہے اورہمیں انقلاب سے کیالینادینا۔بس دم سادھے رہیے۔بس نعرے لگائیے۔سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ نہیں جناب ایسے کیسے ٹھیک ہوسکتاہے،کبھی نہیں!انقلاب خون سے جنم لیتاہے اور ہم صرف سانس کی آمدورفت کوزندگی کہتے ہیں۔
ہاں میں نے سنا تھاسب کچھ۔ بالکل بجاکہاتھاواصف صاحب نے”جس دورمیں انسان کوحقوق کے حصول کیلئے جہادکرناپڑے اسے جبر کادورکہتے ہیں اوراگرحقوق کے حصول کیلئے صرف دعاکاسہاراہی رہ جائے تواسے ظلم کازمانہ کہتے ہیں،اوروہ زمانہ جس میں کچھ لوگ حق سے محروم ہوں اورکچھ لوگ حق سے زیادہ حاصل کریں اسے افراتفری کازمانہ کہتے ہیں، جہاں ہرشے،ہرجنس ایک ہی دام فروخت ہونے لگے اسے اندھیرنگری کہاجائے گا”۔
سندھ کراچی سے ایک بڑاسیاسی کریک ڈان شروع ہوچکاہے،بلوچستان،پنجاب اورکے پی کے جس میں سیاستدانوں کے ساتھ کئی بیوریوکریٹس کے ناموں کی فہرست فائنل کرلی گئی ہے۔اسی طرح پنجاب،بلوچستان اورکے پی کے میں دوڑیں لگ چکی ہیں،بڑے پیمانے پرفہرستیں تیارہوچکی ہیں۔اس سنیاریوکوناکام کرنے کیلئے درپردہ سازشیں بھی شروع ہوچکی ہیں جس کیلئے ایک مرتبہ پھروکلا کوسڑکوں پرلانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔وکلاکی اس تحریک کوکامیاب کرنے کیلئے یہ تمام گروہ شامل ہوں گے جن کے خلاف کارروائی ہونے جارہی ہے۔شوگرکارٹل نے چینی کی بوریوں کے منہ بھی کھول دیے ہیں،بس یہ دھیان رہے کہ ایک مرتبہ پھردشمن بھیڑیئے جمہوریت کی بھیڑکے لبادے میں میدان میں ہوں گے!
فکرِسودوغمِ زیاں سے نکال،میرے مولا،مجھے گماں سے نکال
یامجھے زیبِ داستاں کردے ،یامرا ذکرداستاں سے نکال