... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گارڈ آف آنر اور پروٹوکول نہ لیکر غریب ملک اور مجبور قوم پر احسان کیا بلکہ ایک ہی دن میں تین کیسوں کا فیصلہ سنا کر یہ بھی بتا دیا کہ وہ کس ا سپیڈ سے کام کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ٹیلی ویژن پر جو سما ں باندھا وہ بھی لائق تحسین ہے۔ بلا شبہ پوری قوم نے پہلی بار دیکھا تھا کہ فل کورٹ کیا ہے اور ججز کیسے اس میںکیس سنتے اور پھر فیصلہ سناتے ہیں ۔ہماری سپریم کورٹ عام انسان سے لیکر بڑے سے بڑے سیاستدان تک سب کے لیے امید کی کرن ہے۔ جسے ملک بھر سے انصاف نہ ملتا ہو، وہ سپریم کورٹ سے ضرور کامیاب ہوجاتا ہے۔ ہماری سپریم کورٹ کے ججز باقی سب کے لیے بھی ایک مثال ہیں جو بے دھڑک اور بلا خوف و خطرہ فیصلہ سناتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی بہت سے قابل ذکر فیصلے دیے اور جاتے جاتے جو انہوں نے نیب قوانین میںترمیم ختم کی وہ بھی ایک عمدہ اور تاریخی فیصلہ تھا کہ اب ملک لوٹنے والے یہ نہیں کہیں گے کہ ہم نیب کی دسترس میں نہیں آتے ۔یہاں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے لوٹ کر بھی کوئی پریشانی محسوس نہیں کرتا ۔بلکہ سینہ چوڑا کرکے فخر محسوس کرتا ہے۔ ہمارا عدالتی نظام باقی دنیا سے مختلف اور پیچھے اس لیے ہے کہ ججز کی تعداد کم ہے ۔ہمارے ہاں عدالتوں کے دو طبقات ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ اور ماتحت یا زیریں عدلیہ ۔ اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ آف پاکستان، فیڈرل شریعت کورٹ اور پانچ ہائی کورٹس پر مشتمل ہے جس میں سپریم کورٹ سب سے اوپر ہے۔ چاروں صوبوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کے لیے ایک ہائی کورٹ ہے۔ پاکستان کا آئین اعلیٰ عدلیہ کو آئین کے تحفظ اور اس کے دفاع کی ذمہ داری سونپتا ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے متنازع علاقوں میں الگ عدالتی نظام موجود ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے علاوہ ایسے علاقے بھی ہیں جو اب تک پاکستان کے آئینی حصے نہیں ہیں ۔ان میں گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر ہیں چونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا گلگت بلتستان پر دائرہ اختیار نہیں ہے ۔اس طرح سپریم کورٹ آف پاکستان کے نامزد اختیارات کے ساتھ گلگت بلتستان کے لیے سپریم اپیلٹ کورٹ کے نام سے APEX کورٹ موجود ہے جس نے بھی ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے گلگت بلتستان میںہونے والے الیکشن کا نتیجہ روکنے کے خلاف کیس فارخ کردیا۔ اس الیکشن میں پی ٹی آئی کے خورشید خان ن لیگ سے جیت گئے تھے لیکن الیکشن کمیشن نے نتیجہ روک رکھا تھا۔ خیر یہ تو ہماری سیاست کا حصہ ہے کہ ہم مخالفین کو برداشت نہیں کرتے بلکہ انہیں اگلا گھر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت کے خاتمہ سے لیکر اب تک کتنے ورکر پکڑے گئے کتنے ابھی جیلوں میںہیں اور کتنوں کو ابھی بھی تنگ کیا جارہا ہے۔ میاں عباد فاروق کا بیٹا بھی اسی چکر میںجان سے چلا گیا ۔خیر سیاست کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ واپس آتے ہیں عدالتی نظام کی طرف ہمارے ہاں عدلیہ کی آزادی وقت کے ساتھ تبدیل ہوئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت ہماری عدلیہ کے فیصلے آئین اور قانون کے مطابق ہیںتو غلط نہیں ہوگا۔ اعلیٰ عدلیہ کے بعد ماتحت عدلیہ کا کام بھی لوگوں کو انصاف پہنچانا ہے۔ ماتحت عدلیہ میں سول اور فوجداری ضلعی عدالتیں اور متعدد خصوصی عدالتیں شامل ہیں جو بینکنگ، انشورنس، کسٹم اور ایکسائز، اسمگلنگ، منشیات، دہشت گردی، ٹیکسیشن، ماحولیات، صارفین کے تحفظ اور بدعنوانی کا احاطہ کرتی ہیں۔ فوجداری عدالتیں کرمنل پروسیجر کوڈ 1898 کے تحت بنائی گئی تھیں اور دیوانی عدالتیں ویسٹ پاکستان سول کورٹ آرڈیننس 1962 کے ذریعے قائم کی گئی تھیں ۔یہاں ریونیو عدالتیں بھی ہیں جو ویسٹ پاکستان لینڈ ریونیو ایکٹ 1967 کے تحت کام کرتی ہیں۔ حکومت انتظامی عدالتیں بھی قائم کر سکتی ہے اور مخصوص معاملات میں خصوصی دائرہ اختیار استعمال کرنے کے لیے ٹربیونلز۔ 2017 تک پاکستان کی عدلیہ 20 لاکھ مقدمات کے بیک لاگ کا شکار تھی جن کے حل ہونے میں اوسطاً دس سال لگتے ہیں۔ ان میں تقریبا 90فیصد دیوانی مقدمات میں زمین کے تنازعات شامل ہیں جس کی بنیادی وجہ پاکستان میں زمین کا مناسب رجسٹر نہ ہونابھی شامل ہے ۔
بات سپریم کورٹ سے شروع ہوئی تھی تو یہ بھی جان لیں کہ ہماری سپریم کورٹ 1956 میں قائم ہوئی تھی جو قانونی اور آئینی تنازعات کا حتمی ثالث ہے۔ عدالت ایک چیف جسٹس اور سولہ دیگر ججوں پر مشتمل ہے۔ عدالت میں قائم مقام ججوں کے ساتھ ساتھ ایڈہاک ججوں کی تقرری کا بھی انتظام ہے۔ اسلام آباد میں اس کی مستقل نشست کے ساتھ ساتھ لاہور، پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں برانچ رجسٹریاں ہیں۔ سپریم کورٹ کے پاس متعدد ڈی جیور اختیارات ہیں جو آئین میں بیان کیے گئے ہیں جن میں بشمول اپیل اور آئینی دائرہ اختیار اور انسانی حقوق کے معاملات کو آزمانے کے لیے از خود اختیار۔ جبکہ سپریم کورٹ کے ججوں کی نگرانی سپریم جوڈیشل کونسل کرتی ہے اسی طرح پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت 1980 میں تمام پاکستانی قوانین کی جانچ پڑتال اور یہ تعین کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی کہ آیا وہ “قرآن و سنت میں بیان کردہ اسلامی اقدار” کے مطابق ہیں یا نہیں اگر کوئی قانون ناپسندیدہ پایا جاتا ہے تو عدالت اپنے فیصلے کی وجوہات بتاتے ہوئے متعلقہ حکومت کو مطلع کرتی ہے۔ عدالت کے پاس اسلامی قانون کے تحت پیدا ہونے والی سزاؤں (حدود) پر اپیل کا دائرہ اختیار بھی ہے۔ اس عدالت کے فیصلے اعلیٰ عدالتوں کے ساتھ ساتھ ماتحت عدلیہ پر بھی پابند ہیں۔ عدالت اپنا عملہ خود مقرر کرتی ہے اور طریقہ کار کے بھی اپنے اصول بناتی ہے۔ یہ عدالت آٹھ مسلم ججوں پر مشتمل ہے جنہیں صدر پاکستان سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹسں کی عدالتی کمیٹی کے مشورے پر مقرر کرتے ہیں ۔کمیٹی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ ججوں میں سے یا ہائی کورٹ کے ججوں کی اہلیت رکھنے والے افراد میں سے انتخاب کرتی ہے۔ آٹھ ججوں میں سے تین کا اسلامی اسکالر/علماء ہونا ضروری ہے جو اسلامی قانون میں مہارت رکھتے ہوں ۔یہ جج صاحبان تین سال کی مدت ملازمت کے لیے آتے ہیں اور ملک وقوم کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔ ہمارا عدالتی نظام اپنے چیف جسٹس کی مکمل پیروی کرتا ہے۔ امید ہے کہ وہ بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پیروی کرتے ہوئے کیسوں کو جلد سے جلد میرٹ پر اپنے انجام تک پہنچاکر مظلوموں کو انصاف فراہم کریگا۔