... loading ...
سمیع اللہ ملک
اگلے عام انتخابات کیلئے قومی آپشن موجودہیں۔ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ان میں سے 2کی قیادت وہ رہنماکررہے ہیں جنہیں بالترتیب پاکستان کا دوسرااورتیسراامیرترین شخص سمجھاجاتاہے ۔ اپنی بیرونِ ملک موجودپوشیدہ دولت کے ساتھ یہ دونوں ڈالروں میں ارب پتی ہیں۔تیسرے آپشن کا نمائندہ وہ رہنماہے جوامیرترین ہونے کے قریب بھی نہیں۔یہ قابلِ قبول نہیں ہے کہ ملک کادوسرااور تیسراامیر ترین شخص اس ملک کی قیادت کرے ،جس کے عوام کوغریب اورجاہل رکھ کران سے منافع کمایاگیاہے ۔ان کی زبردست ذاتی دولت اعلیٰ ترین عوامی عہدوں پر رہتے ہوئے بنی۔ان تینوں کے علاوہ3دیگرووٹنگ آپشن بھی ہیں:ووٹ نہ ڈالیں:صرف مستحق آزادامیدواروں کوووٹ دیں یاان میں سے کوئی بھی نہیں پرنشان لگائیں۔یہ ووٹنگ آپشن ضرورہوناچاہیے ۔اس پرنشان لگانے والے ایک واضح سیاسی مؤقف کااظہارکریں گے کہ وہ کسی کوبھی اپنے ووٹ کاحقدارنہیں سمجھتے ۔
پاکستان میں چل رہے سیاسی ڈرامے میں فی الوقت کوئی بھی اچھانہیں ہے ،سوائے ظلم وستم کے شکارعوام کے ۔ ہیروزکی بات کی جائے توان کی اتنی قلت ہے کہ انہیں بناناپڑتاہے ۔نایاب،اصلی ہیروزوہ موتی ہیں جولوگوں کومتاثرکرتے ہیں،امیدفراہم کرتے ہیں اور مستقبل کے امکانات کاچہرہ ہوتے ہیں۔ انہیں شدیداورمسلسل نفرت اوربدکلامیوں کابھی سامناکرناپڑتا ہے .پاکستانی سیاست قابلِ رحم حالت سے گزررہی ہے ،جس میں صرف مشکوک اور بدنام سیاستدانوں کی بیان بازیاں ہیں،مسائل پرمعقول اوردیانتداربحث کی بجائے الزامات اورگالیاں دی جاتی ہیں،پارلیمنٹ ختم ہوکرنگراں حکومت قائم توہوچکی ہے لیکن غیرفعال ہے ،کن طاقت کے مراکز سے احکام جاری ہوتے ہیں،وہ سب کومعلوم ہے ۔تفریقی،انتہاپسنداورخصوصی مفادات کی پالیسیوں کیلئے مذہب کااستعمال کیاجاتاہے ، جہالت کوعلم قرار دیا جاتا ہے ، ناقابلِ فہم کرپشن اوردھوکادہی موجودہے ،الیکشن صرف مشکلات کے شکارلوگوں کیلئے تفریح ہیں،یا الیکشن میں کامیاب ہوکراپنی کرپشن کی کمائی ہوئی دولت کے مقدمات کوختم کرنااوراس میں مزیداضافہ مقصودہے ۔گمشدگیاں،تشدد اور لاشیں،جھوٹ،بدترین جھوٹ اور اعدادوشمار، اوراشرافیہ کے دلوں میں خوف کہ کہیں عام پاکستانی اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑے نہ ہوں۔وہ لوگ جن پرتحفظ کی ذمہ داری ہے ، وہ بچوں،عورتوں اوراقلیتوں کوغیرت اورمذہب کے نام پرقتل کرنے والوں،انتہاپسندوں اور ریپ کرنے والوں سے بچانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔نہ ہی انہوں نے امداددینے والے ممالک کے ملکی خودمختاری کے خلاف مطالبوں سے پاکستان کے خودمختارمفادات کاتحفظ کیا ہے ۔ اس دوران میڈیاکوبھی اپنی اوقات میں رہنے کاکہہ دیاگیا ہے ۔ان بنیادوں پر جمہوریت قائم رکھنے کی کوشش کریں۔کوشش ہی مشکوک ہوگی۔ اشاروں یااشاروں کے بغیردہشت گردفیصلہ کرتے ہیں کہ کون بحفاظت مہم چلاسکتاہے اورکون نہیں۔اور 2013 اور2018میں جوآپشن ہمیں دستیاب تھے ،آج بھی تقریباوہی ہیں مگرحالات بدل چکے ہیں اورترجیحات بھی تبدیل ہوچکی ہوں گی۔ مگرسب سے بہترین راستہ اب بھی تبدیل نہیں ہواہے ۔ یعنی وہ بنیادی سطح کی تحریکیں جوپاکستان کے غریبوں،استحصال کی شکاراورمحروم اکثریت کی ترجیحات کوفروغ دینے کی تحریکیں ہیں دعوؤں کے باوجود یہ بات یقینی نہیں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت خودکوایسی تحریک کی معتبرنمائندہ قراردے سکتی ہے ۔
اشرافیہ کی ترجیحات مسلط کرنے کیلئے اشرافیہ کی مداخلت نے ملک کی سیاسی اوراقتصادی ترقی کوتہہ وبالاکردیاہے ۔اس طرح کی مداخلتوں نے جمہوری فقدان بڑھایاہے ،احساسِ عدم تحفظ کومزیدگہراکیاہے اورملک کوبے فائدہ کاموں میں الجھادیاہے ۔یہ بات سب کو معلوم ہے ۔کچھ قیمتی لوگوں کے علاوہ ہمارے زیادہ ترچیمپیئنزاس حقیقت کے ہاتھوں شکست کھاچکے ہیں۔نسبتا ًایماندارغیر ارب پتی رہنما کے پاس بظاہرانتخابات جیتنے کاسب سے بہترین موقع ہے ،بھلے ہی ان کی مقبولیت میں مبینہ طورپرکمی آرہی ہے ، خاص طورپرپڑھی لکھی نوجوان مڈل کلاس میں۔جیت سے اس لیڈرکونئے امکانات کے دروازے کھولنے کاموقع ملے گا۔یہ آسان کام نہیں ہوگا۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان پربے چہرہ فیصلہ سازوں کااثرہے ۔یہ فیصلہ سازانہیں اسکرپٹ سے ہٹنے نہیں دیں گے ۔وہ انہیں دورنکل جانے سے روکنے کیلئے اتحاداوردیگرحکمتِ عملیاں استعمال کریں گے ۔اس سے جلدیابدیر،وہ توقعات ٹوٹیں گی،جو لوگ ان سے وابستہ کربیٹھے ہیں۔اس دوران اگلے چندسال اپنی تمام تر مشکلات کے ساتھ ہمارے سرپرآن کھڑے ہوں گے اورہمارے پاس وہاں تک ٹھیک حالت میں پہنچنے کیلئے کوئی قومی توانائی بھی نہیں ہوگی۔ اگرایسی سیاست ہوتوآپ کودشمنوں کی ضرورت ہی کیا ہے ؟بلکہ جن کوآج ہم دشمن سمجھتے ہیں،انہی کی یہ پالیسی ہے کہ ہم خوداپنے ہاتھوں خودکشی کرلیں جس کی طرف ہم تیزی کے ساتھ بگٹٹ دوڑرہے ہیں۔
ان حالات میں جمہوریت کامطلب کیاہوسکتاہے ؟جمہوریت کے حامیوں کے درمیان راستے اورمقصدکے بارے میں اختلافات موجود ہیں۔جمہوریت کامقصدراستے پرمنحصرہے مگریہ خودایک راستہ نہیں ہے ۔جمہوریت ایک سیاسی حالت ہے جبکہ اس تک پہنچنے کا راستہ ایک سیاسی تحریک ہے ۔جمہوریت اچھی حکمرانی اورتمام طبقات کوساتھ لے کرچلنے والے سیاسی مرحلوں سے حاصل ہوتی ہے ۔اس طرح کی تحریکوں کے بغیرجمہوریت کی کوششیں اور انتخابات صرف جمہوریت کودرپیش مشکلات میں سے ایک کاانتخاب کرنے کے برابرہیں۔یہ کوئی سیکھنے کا عمل نہیں ہے ۔حقیقت میں یہ ایک دھوکاہے جوہمیں ٹھوس ترقی اورمستحکم جمہوریت کی جانب جانے سے روکتاہے ۔
روایتی معاشروں میں جدیدجمہوریت بعدمیں آتی ہے ،اوراس سے پہلے کثیرالسطحی جدوجہداورانسانی ترقی کے ذریعے سماجی و سیاسی تبدیلیاں آتی ہیں۔ ہندوستان جزوی طورپرمستثنٰی ہوسکتاہے کیونکہون ورلڈپروگرام کے تخلیق کاروں کواپنی کامیابی کیلئے اس خطے میں اس کی ضرورت ہے مگر زیادہ امکان یہ بھی ہے کہ فریقین ایک دوسرے کواپنے مقاصدکیلئے استعمال کررہے ہیں جوفوری ترقی کاایک ٹیکنالوجیکل مرحلہ واردھوکہ ہے ،یہ سیاسی اور سماجی مرحلوں کامتبادل نہیں ہوسکتا۔آپ ایک ہدایت نامہ یا بلیوپرنٹ چراسکتے ہیں مگرسیاسی تجربہ،سماجی تاریخ اوردانا قیادت نہیں چراسکتے ۔سماجی وسیاسی جدوجہدکے بغیرٹیکنالوجیکل ترقی صرف معاشی ناہمواریوں اورسماجی تفریق کوبڑھاتی ہے۔اسی طرح سے جمہوریت کی نقل کرنااورانتخابات کاپردہ فراہم کرنے سے سیاسی نظام نہیں فروغ پاسکتااورعوام کوطویل عرصے سے گھیری ہوئی محرومیوں کاازالہ نہیں ہوسکتا۔انتخابی اونچ نیچ کے باوجوداس طرح کے انتخابات صرف موجودہ استحصالی نظام کومضبوط کرتے ہیں،جس
سے پاکستان سیاسی طورپر ناخوشگوار ملک بن چکاہے ۔کمزورریاستوں کواس طرح کے سچ سے نفرت ہوتی ہے ۔جمہوریت چاہے جھوٹی ہویانہیں،ان کیلئے مقدس گائے ہی سمجھی جاتی ہے ۔جمہوریت رولزرائس گاڑی کی طرح ہے ۔اگر آپ اس کاخرچ برداشت کرسکتے ہیں تویہ سڑک پرموجودسب سے بہترین گاڑی ہے ورنہ یہ بدترین سرمایہ کاری ہے ۔
پاکستان کے جمہوری رہنمااپنی رولزرائس چلاتے ہیں جبکہ عوام اس کاپٹرول اورٹول ٹیکس اداکرتے ہیں۔سیاسی گہماگہمی چاہے جتنی بھی ہو،مگرپاکستان میں انتخابات کاتب تک کوئی مطلب نہیں جب تک کہ وہ ان تحریکوں کے ساتھ مجتمع نہیں ہوجاتے جو انتخابات ہوتے ہی ختم نہ ہوجائیں۔انتخابات صرف اعلی عہدوں کیلئے ہوتے ہیں۔تحریکیں پاکستان کیلئے ہوتی ہیں۔