... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو،کچھ لوگ اتنے معصوم ہوتے ہیں کہ وہ آدھے خالی گلاس کو آدھا بھرا ہوا گلاس کہتے ہیں، ہر حکومت بھی ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتی ہے، حکمرانوں کا کہنا ہوتا ہے کہ پاکستان کا مثبت چہرہ اجاگر کریں، اچھی اچھی باتیں کریں، دنیا کے دیگر ممالک میں لوگ کبھی اپنے ملک کی برائی نہیں کرتے ہمیشہ مثبت باتیں کرتے ہیں۔اب حکمرانوں سے کوئی جاکر پوچھے، آپ ”سلیکٹڈ” ہوتے ہیں عوام پھر بھی آپ کو حکمران تسلیم کرتے ہیں، آپ کے لیے کس طرح آرٹی ایس بٹھا دیا جاتا ہے، پھر بھی لوگ آپ کی تعریف کرتے ہیں۔آپ کے لیے رات بارہ بجے عدالتیں کھلوادی جاتی ہیں ، لوگ پھر بھی آپ کو قبول کرلیتے ہیں۔ آپ کو پچاس والے بانڈپر علاج کے لیے چار ہفتے کیلئے جانے کی اجازت دی جاتی ہے جہاں آپ چار سال رک جاتے ہیں، عوام پھر بھی مثبت بات ہی کرتے ہیں۔ آپ سولہ ماہ حکومت کرتے ہیں ایک دن کے لیے بیمار نہیں ہوتے، جس طرح کرسی سے اترتے ہیں، اگلی فلائٹ لندن کی پکڑ لیتے ہیں، لوگ پھر بھی مثبت بات ہی کرتے ہیں۔
ڈالر پکڑا بھی جا رہا ہے، ڈالر کی قیمت بھی مارکیٹ میں نیچے آرہی ہے۔۔ چینی پکڑی بھی جا رہی ہے ،کرپشن بھی پکڑی جا رہی ہے، کرپشن نیچے بھی آگئی۔ اسمگلنگ بھی روک دی گئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا پھر پیٹرول بھی تو اسی ڈالر سے خریدا جاتا ہے۔ پیٹرول کی قیمت ڈیزل کی قیمت کیوں بڑھ گئی؟کہتے ہیں،چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر۔۔ کٹنا خربوزے کو ہی پڑے گا، پاکستانی قوم اس وقت خربوزہ اور حکمران چھری ہیں۔آپ نگرانوں کی کمال معیشت سازی دیکھیں۔۔ڈالر 333 سے کھینچ کے 305 اور پٹرول 305 سے کھینچ کے 333کردیا۔۔پٹرول مہنگا ہوگیا ،اتنا قیام پاکستان سے لے کر آج تک مہنگا نہیں ہوا، پیٹرول کے نرخوں میں اضافے کے باوجود عوام نے اسے مثبت لیا ہے۔ ۔عوام کا ماننا ہے کہ پیٹرول مہنگا ہونے سے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پایا جاسکے گا۔۔لوگ زیادہ وقت گھر پر رہیں گے جس سے آپس میں محبت بڑھے گی۔۔لوگ جب آناجانا کم کریں گے تو غیبت جیسے گناہ سے بچیں گے۔۔جب ایک دوسرے کی برائی نہیں کریں گے تو نفرتیں کم ہوں گی۔۔ زیادہ وقت گھر پر رہنے کی وجہ سے اسٹریٹ کرائم میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔۔ لوگ قناعت پسندی اور میانہ روی کا مظاہرہ کریں گے ۔۔جب پیٹرول کا استعمال کم ہو جائے گا تو لوگ سائیکل پر سفر کریں گے جس سے صحت بھی اچھی رہے گی۔
مثبت خبروں کے حوالے سے یہ دلچسپ واقعہ بھی پڑھیں، ہمارے پیارے دوست نے ہمیں واٹس ایپ کیا ہے۔۔ لکھتے ہیں۔۔میں رکشے سے اس حسینہ کے گھر کے باہر اترا، گھر کیا تھا ایک محل تھا ،ڈیفنس کراچی میں۔ مین گیٹ کھلا تھا میں اندر داخل ہو گیا۔ تقریبا 250 میٹر کا ڈرائیو وے تھے جس کے اردگرد خوبصورت لان تھے۔ جن میں بہت سے خوبصورت پھول مہک رہے تھے۔ مجھے یوں لگا میں کسی بادشاہ کے دربار میں چل رہا ہوں۔ میں گھر پر پہنچا تو ایک نوکر نے مجھے ریسیو کیا اور ڈرائنگ روم تک لے گیا۔ جتنے ایریا میں یہ ڈرائنگ روم تھا اتنی جگہ پر دس فیملیز کا گھر بنا لیتے تھے ہم۔ قالین اتنی دبیز اور نرم تھی کہ یوں لگتا تھا میں ہواؤں میں چل رہا ہوں۔ ایک خوبصورت سے صوفے پر بیٹھ گیا میں ۔۔رکشے پر آنے کی وجہ سے میرے کپڑوں کی استری شدید خراب ہو چکی تھی اور یہ شان و شوکت دیکھ کر میرے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔تھوڑی دیر میں کمرے میں ایک ملازمہ جوس کا گلاس لیکر داخل ہوئی۔۔ وہ اتنی خوبصورت تھی کہ میری نظریں اس کے جسم پر گڑ گئی۔ اس نے چست لباس پہنا تھا۔۔ ہاتھوں میں تھاما جوس کا گلاس میرے سامنے ٹیبل پر رکھا اور کہا۔۔میڈم آ رہی ہیں کچھ دیر میں۔۔یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔وہ واپس جاتے ہوئے اور بھی خوبصورت لگی۔میں نے جوس کی کچھ چسکیاں لیں۔ بہت لذیذ جوس تھا لیکن مجھے یہ نہ پتہ چلا کس پھل کا ہے۔ شاہد وہ پھل میں نے زندگی میں کبھی کھایا بھی نہ تھا۔تھوڑی دیر بعد وہ حسینہ کمرے میں داخل ہوئی ۔ اس نے سلیپنگ سوٹ پہنا تھا۔ اس کے چہرے پر بیزاری تھی۔ مگر وہ بلا کی خوبصورت لگ رہی تھی۔ ریشمی سا لباس اس کے سڈول جسم پر پھسل رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نیند کی خماری تھی شائد۔ اور چال بھی ایسی تھی جیسے تین بوتل ووڈکا پی چکی ہے۔ وہ میرے سامنے بیٹھی اور کہا ۔۔ تم نے میری زندگی عذاب کر دی۔ ہر وقت میرے پیچھے پڑے رہتے ہو۔ اسی لیے تمھیں گھر بلایا۔ میرے امی ابو سے بات کر لو۔ وہ تمھیں سیدھا کر دیں گے اور میری جان تم جیسے ٹھرکی آدمی سے چھوٹ جاے گی۔۔ وہ غرور سے اٹے لہجے میں بات کر رہی تھی۔ میرے چہرے پر شرمندگی ہی شرمندگی تھی۔ اسی وقت اس کے امی ابو کمرے میں داخل ہوئے۔ انکل آنٹی کی پرسنلٹی گریس فل تھی۔ مگر ان کے چہرے پر بھی دبا دبا غصہ تھا۔وہ میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھے۔انکل نے بولنا شروع کیا جب کہ آنٹی مسلسل مجھے گھور رہی تھیں۔۔ بیٹا، غریب تو آپ شکل سے ہی لگتے ہو اس لیے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ ہم آپ کے ساتھrude بھی نہیں ہونا چاہتے۔ مگر اپنی اوقات تو دیکھ لیتے۔ لنڈے کے کپڑے اور جوتے پہن کر ہمارے گھر آ گئے ہو۔ ہماری بیٹی نے کراچی سے MBBS کیا پھر اب امریکہ سے اسپیشلائزیشن کرکے واپس آئی ہے۔ مہینے کا چھ سات لاکھ کماتی ہے اور اتنی ہی ہم اسے پاکٹ منی دیتے تب جا کر اس کا گزارہ ہوتا۔ تم نے اس کا رشتہ مانگنے کا کیسے سوچ لیا؟؟۔۔اگر آپ اس وقت میرے جسم کو کاٹتے تو خون کی ایک بوند نہ نکلتی کیوں کہ شرمندگی سے میرا خون خشک ہو گیا تھا۔ میرے چہرے پر ایسی شرمندگی تھی جیسے میں کوئی اچھوت ہوں۔۔میں نے ہکلاتے ہوئے لرزتی آواز میں بات شروع کی۔۔انکل میری اوقات تو کچھ نہیں، میں تو بس کے الیکٹرک میں میٹر ریڈر ہوں،، اتنا سننا تھا کہ انکل نے فوری میری بات کاٹی اور آگے بڑھ کر مجھے گلے لگاتے ہوے کہا۔۔بیٹا نکاح آج شام ہی کر لو بارات کل لے آنا۔۔(کتاب،کے الیکٹرک کے کرشمے ننگیاں تاراں آکڑے کھمبے۔۔ سے اقتباس)۔۔
ڈارون کہتا تھا کہ انسان پہلے بندر تھا۔۔ کسی نے فیصل آبادی سے سوال کیا ،اگر پہلے انسان بندر تھے تو اب والے بندر کیوں انسان نہیں بن رہے؟فیصل آبادی نے گہری خاموشی کے بعد جواب دیا ۔۔ پائن ہن او خوراکاں نئیں رہیاں ۔۔ہمارے بھائی لئیق احمد ہائیکورٹ کے وکیل ہیں، ایک دن ہمیں بتانے لگے ۔۔کل صبح ایک محترمہ نے شکایت کی کہ ان کے شوہر کا رویہ ان کے ساتھ ٹھیک نہیں تو مشورہ دیں کیا کروں۔ میں نے کہا،گزارہ کر لیا کریں۔اگر تو گزارہ نہیں ہورہا تو پھر خلع لے لیں اور نئی زندگی شروع کریں۔۔ رات کو اس نے اپنی اور اپنے شوہر کی تصویر کے ساتھ ا سٹیٹس لگایا۔۔کوئی بھی مکار کمینہ ہمیں کبھی جدا نہیں کر سکتا ۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔سفر شروع کرتے وقت بیوی نے شوہرسے پوچھا سنیے، کیا آپ کو دعا یاد ہے؟ شوہرجواپنی سوچوں میں گم تھابول پڑا۔۔ ہاں ہاں،وہی پتلی سی، کالی آنکھوں والی، لمبے بالوں والی، خوبصورت سی، 41 نمبر فلیٹ میں رہتی ہے۔ وہی ناں؟ شوہر کے لیے دعاؤں کی درخواست ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔