وجود

... loading ...

وجود

لائسنس ٹو احتساب

پیر 18 ستمبر 2023 لائسنس ٹو احتساب

راؤ محمد شاہد اقبال

سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطا بندیال نے انصاف کی کرسی پر متمکن ہوکر اپنے کیرئیر کے آخری چند ماہ میں جتنے بھی متنازعہ فیہ فیصلے دیئے ہیں ۔یقینا اُن میں سے کوئی ایک بھی فیصلہ ایسا نہیں ہے جسے آسانی کے ساتھ طاقِ نسیاں پر رکھ کر فراموش کر دیا جائے۔ مگر نئی نیب ترامیم کے قانون کو آئین سے متصادم قرار دے کر کالعدم قرار دینے کا اُن کا آخری فیصلہ جسے بعض حلقوں میں ”آخری گیند پر سکسر ” یا ” آخری الوداعی طمانچہ ”سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے ۔ اِسے فراموش کرپانا تو شاید پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف اور اُس کے جملہ کارکنان اِس فیصلے کو اپنی ایک بہت بڑی اور فاش ”قانونی غلطی ” کے طور پر ہمیشہ یاد رکھیں گے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے بحیثیت چیف جسٹس پاکستان اپنے آخری فیصلے میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے نے دو بمقابلہ ایک کی اکثریت سے نیب (ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2022 کے خلاف دائر کی گئی چیئرمین پی ٹی آئی کی آ ئینی درخواست پر مختصر فیصلے میںدرخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نیب (ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2022 کے ذریعے کی گئی10 ترامیم میں سے9 کو منسوخ کرنے کے فیصلہ سُنا کر گویا قومی احتساب بیورو( نیب )کے تنِ مردہ میں اپنے آخری فیصلے سے عمر عطا بندیال نے آئینی و قانونی روح پھونک دی ہے ۔شنید یہ ہی ہے کہ اَب یہ نیب ایک بار پھر سے زندہ ہوجانے کے بعد سب سے پہلے اپنی لامحدود احتسابی طاقت کا نشانہ صرف اور صرف پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو بنائے گا۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ عمرعطابندیال جاتے جاتے عمران خان کے مخالفین کے ہاتھوں میں ”لائسنس ٹو احتساب ” کا انتہائی مہلک ہتھیار دے گئے ہیں ۔
مثال کے طور پر نیب ترامیم کالعدم قرار دیئے جانے کے فیصلے کا سب سے زیادہ منفی اثر عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشری بیگم کے خلاف جاری القادر ٹرسٹ کیس پر پڑے گا۔یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلہ سے جہاں دیگر سیاستدانوں کیلئے مشکلات پیدا ہونے کے صرف موہوم سے امکانات پیدا ہوئے ہیں ۔وہاں آنے والے دنوں میں نیب ترامیم کو چیلنج کرنیوالے درخواست گزار چیئرمین پی ٹی آئی بذاتِ خود سب سے زیادہ اِس فیصلے سے متاثر ہونے جارہے ہیں۔کیونکہ جب نیب میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر القادر ٹرسٹ کی انوسٹی گیشن کا آغاز ہوا تھا تو اُس وقت چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے دفاع میں موقف اپنایا تھا کہ القادر ٹرسٹ کا فیصلہ کابینہ کا تھا اور نئی نیب ترامیم کے تحت کابینہ کے فیصلوں کو تحفظ حاصل ہے۔اَب جب کہ نئی نیب ترامیم کا قانون کالعدم قرار دیا جاچکا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ القادر ٹرسٹ کیس اَب دوبارہ سے نیب کے دائرہ اختیار میں آگیا ہے ۔
نیز نیب قوانین میں متنازع ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو 50 کروڑ روپے سے کم کے وائٹ
کالر جرائم میں ملوث سیاستدانوں اور بااثر شخصیات پر ہاتھ ڈالنے کا دوبارہ اختیار دے دیا ہے۔جس کے بعد اَب نیب عمران خان کے خلاف بے شمار ایسے مقدمے بنانے کے بھی قابل ہوگیا ہے ،جو وہ نیب ترمیمی قانون کی موجودگی میں نہیں بناسکتا تھے۔حدتو یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے نے نیب کو وہ اختیارات دے دیے ہیں جن سے وہ ترامیم کی وجہ سے محروم ہو گیا تھا۔ واضح رہے کہ نئی نیب ترامیم کے تحت نیب ملزم کو صرف 14 روزتک ہی بغیر کسی عدالت میں پیش کیے اپنے پاس حراست میں رکھ سکتی تھی ۔ لیکن مذکورہ قانون کالعدم قرار ہوجانے سے ایک بار پھر سے نیب 90 دنوں تک کسی بھی ملزم کو حراست میں رکھنے کا قانونی جواز حاصل ہوگیا۔ یعنی نیب نے اگر کسی بھی مقدمے میں عمران خان کو گرفتار کرلیا تو اُن کے ضمانت کے لئے کسی بھی عدالت سے رجوع نہیں کیا جاسکے گا ۔سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیا نئی نیب ترامیم کے خاتمہ کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے جملہ کارکنان اپنے محبوب قائد کو حاصل ہونے والے اِسی طرح کے متوقع فوائد کے حوالے سے سوشل میڈیا پر خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں ؟۔
دراصل چیئرمین تحریک انصاف نے جس وقت نئی نیب ترامیم کو چیلنج کیا تھا، اس وقت ملکی سیاست کے حالات کافی حد تک اُن کے موافق تھے ، مگر اَب ملک کی سیاسی فضا یکسر اُن کے خلاف ہوچکی ہے۔ جبکہ نیب کے بارے میں تو ہم جانتے ہی ہیں کہ اِس کے دانت زیرِ عتاب سیاسی جماعت کو چبانے کے لیئے اور ، صاحبِ اقتدار جماعت کو مسکرامسکرا کر دکھانے کے لیئے اور ہوتے ہیں ۔ ویسے بھی باخبر نیب ذرائع نے اپنے پرانے بہی مقدمے داروںکے دلی اطمینان کے لیئے آگاہ کیا ہے کہ نیب کی جانب سے پہلے ہی سے بند یا عدالتوں کی جانب سے نمٹائے گئے مقدمات کو دوبارہ نہیں کھولا جائے گا۔جبکہ کم و بیش 1800 کے قریب جن بند مقدمات کے کھلنے کا امکان ظاہر کیا جارہاہے ۔ اُنہیں بھی فی الحال نہیں چلایا جائے گا ۔اِس کا جواز یہ بتایا جارہا ہے کہ جب تک نیب میں ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کی 2 اہم آسامیوں پر تعیناتیاں نہیں ہوجاتیں،اُس وقت پرانے مقدمات کی باقاعدہ پیروی سے سے حتی المقدور فرار کی راہ ہی اختیار کی جائے گی۔
دوسری جانب سب سے اہم بات یہ کہ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے کیس کی سماعت کے دوران گزشتہ چند ماہ میں سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی جانب سے کیے گئے تمام مقدمات کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیتی ہے تونیب قانون میں پارلیمان کی جانب سے کی گئی تمام ترامیم اپنی اصل شکل میں بحال ہوجائیں گی اورسابق چیف جسٹس عطاعمر بندیال کا آخری فیصلہ صرف ایک ایسا سنسنی خیز پٹاخہ سے زیادہ کچھ ثابت نہیں ہوگا ، جس کے پھٹنے کا پوری پاکستانی قوم شدت کے ساتھ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر انتظار کررہی ہوگی اور وہ صرف پھس پھسی سی ایک آواز نکال کر رہ جائے۔”لائسنس ٹو احتساب ” کا پٹاخہ پھٹتا بھی ہے یا نہیں ، پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔
٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر