... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے 28 ویں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال اپنی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہوگئے۔ آپ ایک محب وطن پاکستانی قانون دان ہیں۔ ان کا ایک جملہ بڑا مشہور ہوا گڈ ٹو سی یو اور یہی جملہ انہوں نے اپنی کورٹ میں آخری کیس کے دوران کہا ۔بندیال صاحب نے وکالت سے لیکر چیف جسٹس تک بھر پور زندگی گزاری۔ ہنس مکھ اور خوش اخلاق عمر عطا بندیال کے خلاف پی ڈی ایم نے مہم بھی چلائی ۔ ان پر تنقید بھی بے شمار ہوئی۔ جلسوں میں انکی تصویریں بھی لگائی گئی ۔لیکن انہوں نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر کسی کو گڈ ٹو سی یو ہی کہا۔ اپنے آخری روز بھی چیف جسٹس نے میڈیا کے ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ خاص کر اللہ کا شکرگزار ہوں کہ جس نے مجھ سے ملک اور انصاف کے لیے خدمت لی۔ اللہ کے لیے اپنا فریضہ ادا کیااور میڈیا نے مجھے مستعد رکھا۔ میڈیا کی تنقید کو ویلکم کرتا ہوں۔ میڈیا فیصلوں پر تنقید ضرور کرے لیکن ججز پر نا کرے کیونکہ تنقید کے جواب میں ججز اپنا دفاع نہیں کر سکتے اور جج پر تنقید سے پہلے یہ ضرور دیکھیں کہ تنقید سچ پر مبنی ہے یا قیاس آرائیوں پر۔ ججز پر تنقید جھوٹ کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے ۔
عمر عطا بندیال 17 ستمبر 1958 میں لاہور میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ 1973ء میں عمر عطا بندیال نے سینٹ میری اکیڈمی راولپنڈی سے اپنا سینئر کیمبرج سرٹیفکیٹ حاصل کیا اس کے بعد انہوں نے ایچی سن کالج لاہور میں اپنے اعلیٰ سینئر کیمبرج سرٹیفکیٹ کے لیے داخلہ لیا جو انہوں نے 1975 میں حاصل کیا۔ اس کے بعد انہوں نے 1979 میں کولمبیا یونیورسٹی سے معاشیات میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور پھر 1981 میں یونیورسٹی آف کیمبرج سے لاء ٹریپوس کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے لنکنز ان لندن سے بیرسٹر ایٹ لاء کے طور پربھی کوالیفائی کیا۔ عمر عطا بندیال نے 1983 میں لاہور ہائی کورٹ میں بطور وکیل شمولیت اختیار کی ۔ انہوں نے 1987 تک پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں ٹارٹس لاء اور کنٹریکٹ لاء بھی پڑھایا جس کے بعد انہوں نے اس کی گریجویٹ اسٹڈیز کمیٹی میں خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد انہیں 4 دسمبر 2004 کو لاہور ہائی کورٹ کا جج بنا دیا گیا۔لاہور ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے انہوں نے آئینی حقوق، دیوانی اور تجارتی تنازعات اور مفاد عامہ سے متعلق مقدمات کی صدارت کی۔ یکم جون 2012 ء کو انہیں لاہور ہائی کورٹ کا 41 ویں چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ انہوں نے 16 جون 2014ء کو سپریم کورٹ کے جج کے طور پر اپنی تقرری تک اس عہدے پر کام کیا ۔ بطور چیف جسٹس ان کی تقرری کی منظوری صدر عارف علوی نے 13 جنوری 2022 کو دی جس کے بعد انہوں نے 2 فروری 2022 کو اپنا عہدہ سنبھالا۔ عمر عطا بندیال 17 جون 2014 سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس ہیں سپریم کورٹ میں تقرری سے قبل انہوں نے یکم جون 2012 سے 16 جون 2014 تک لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کے طور پر خدمات انجام دیں ۔ عمر عطا بندیال 2فروری 2022 سے 16 ستمبر 2023 کو ریٹائر ہونے تک ایک سال6 ماہ اور 25 دن تک چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر کام کرتے رہے۔ عمر عطا بندیال کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان (CJP) تقرری کی منظوری صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے 13 جنوری 2022ء کو دی تھی۔ یوں انہوںنے 2 فروری 2022 ء کو ایوان صدر میں ایک تقریب میں حلف اٹھایا۔ اپنے پہلے مہینے میں انہوں نے سپریم کورٹ کے مختلف اداروں بشمول کیس مینجمنٹ سسٹم میں اصلاحات کا آغاز کیا تاکہ فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے ان اداروں کو دوبارہ منظم کیا جو انتظامی اور عدالتی اختیارات سے نمٹتے ہیں۔ بشمول بلڈنگ کمیٹی، ریکارڈ انرولمنٹ کمیٹی، سپریم کورٹ ریسرچ افیئرز برانچ، اور لاء کلرک پروگرام انہوں نے قاضی فائز عیسیٰ، سردار طارق مسعود، اعجاز الاحسن، مظہر عالم اور سجاد علی شاہ کو بالترتیب بلوچستان، اسلام آباد، پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ کی صوبائی انسداد دہشت گردی عدالتوں کے مانیٹرنگ جج مقرر کیا۔
چیف جسٹس کی حیثیت سے جسٹس بندیال سپریم جوڈیشل کونسل، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے چیئرمین منتخب ہوئے ان تینوں اداروں کی ساخت مکمل طور پر تبدیل ہو گئی تھی۔ بطورچیف جسٹس پہلے مہینے ہی انہوں نے سپریم کورٹ التوا کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش میں ریکارڈ 1,761 مقدمات کا فیصلہ کیا ۔ 2022 میں ان کا نام ٹائم کے 100 سب سے زیادہ بااثر لوگوں میں شامل تھا۔ ان کے دور میں عدلیہ کے ججز بھی تقسیم نظر آئے، ایک وقت آیا کہ جسٹس مندوخیل نے بینچ کے ارکان سے اختلاف کی وجہ سے چیف جسٹس اور بینچ کے دیگر ارکان کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سپریم کورٹ کے طرز عمل پر افسوس کا اظہار کیااور اسے سیاسی حکمت عملیوں کو آگے بڑھانے کے مترادف قرار دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ جو عدالت عظمیٰ کے ان ججوں میں شامل ہیں جنہوں نے خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی جانب سے لیے گئے ازخود نوٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ درخواستوں اور ازخود نوٹس کو قبول کرنے سے عدالت دو صوبائی ہائی کورٹس کی آزادی کو بلاجواز طور پر مجروح کرے گی ۔چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ میں تقسیم کو ختم کرنے کے لیے اپنے ساتھی ججوں سے رابطہ کیا ہے کیونکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں انتخابات میں تاخیر کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق تنازع تھا۔ 28 مارچ 2023 کو اس وقت کی حکومت نے متفقہ طور پر عدلیہ کے خلاف ایک متنازع قرارداد منظور کی۔ قرارداد وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پیش کی تھی کہ قانون سازی کے عمل میں عدلیہ کی مداخلت کو مسترد کرتے ہیں اور پھر 6 اپریل 2023 کو، قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ (SC) کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو مسترد کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی جس نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کو ملک میں اسنیپ پولز کرانے کی ہدایت کی تھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان بار کونسل (پی بی سی) وکلاء کی سب سے بڑی باقاعدہ تنظیم نے جمعہ کو سپریم کورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (SJC) میں بدتمیزی کی شکایت درج کرائی اور پھرسپریم کورٹ کے دو ججوں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے سپریم جوڈیشل کونسل (SJC) کو خط لکھا ہے جس میں اعلیٰ عدالتی ادارے پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے خلاف مبینہ “بدانتظامی اور مالی بے ضابطگی” کی شکایات پر کارروائی شروع کرے لیکن سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس چیف جسٹس عمر عطا بندیال نہ بلا سکے۔ اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نئے چیف جسٹس آف پاکستان بن چکے ہیں ۔امید ہے وہ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے مفید اور بہتر ثابت ہونگے مجبور اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والی قوم دونوں چیف صاحبان کو گڈ تو سی یو کہتی ہے ۔