... loading ...
سمیع اللہ ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانیہ کے لیگاٹم انسٹیوٹ نے اپنی تازہ سالانہ فہرست جاری کی ہے جس میں دنیاکے خوشحال ترین ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ اس درجہ بندی میں کسی ملک کی مالی حیثیت کے ساتھ ساتھ فی کس آمدنی،کام کرنے والے افرادکی تعدادکی شرح،روزمرہ میں کتنا آرام کرنے والے افرادسمیت104چیزوں کومدنظررکھاگیا۔ان تمام عناصرکو9حصوں میں تقسیم کیاگیاجن میں اقتصادی مساوات،کاروباری ماحول، طرزحکومت،صحت،تعلیم،تحفظ اورسیکیورٹی،ذاتی آزادی،قدرتی ماحول وغیرہ قابل ذکرہیں۔اس درجہ بندی میں دنیا کے167 ممالک کوشامل کیاگیا،جس میں پاکستان136ویں نمبرپرجبکہ بھارت103،چین54،افغانستان164،بنگلہ دیش 124 اور ایران 126 ویں نمبر پر رہا۔تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیاکاخوشحال ترین ملک امریکایاکوئی یورپی ملک نہیں،بلکہ اس فہرست میں گزشتہ7سال سرفہرست رہنے والاملک ناروے اپنے اس اعزاز سے محروم ہوکر دوسرے نمبرپرآگیاہے اوراس کی جگہ ڈنمارک پہلے اورسوئیڈن دوسرے نمبر پردنیاکے خوشحال ترین ممالک قرارپائے ہیں۔
فن لینڈخودکواسکینڈے نیویاکاحصہ تسلیم نہیں کرتامگروہ یہ ماننے سے گریزنہیں کرتاکہ وہ شمالی یورپ کی خوشحال ترین ریاست ہے، اس فہرست میں اسے دنیا میں سب بہترین طرز حکومت والاملک توقراردیا گیاہے اورسیاحوں کیلئے جنت سمجھا جانے والایورپی ملک سوئٹزرلینڈ اس فہرست میں5ویں مگراپنے تجارتی ریزروزمیں پہلے نمبرپرہے،تاہم سنگاپور انفراسٹرکچر،عالمی تجارتی منڈی،اکنامک کوالٹی اورتعلیم میں ہمیشہ سے سرفہرست رہنے والے ممالک برطانیہ اورامریکاکوپچھاڑکرآگے نکل گیاجبکہ طبی سہولیات کے شعبے میں تیسری پوزیشن ملی ہے۔ امریکاکاپڑوسی ملک کینیڈادنیاکی سپرپاورکے مقابلے میں زیادہ خوشحال قراردیاگیاہے جہاں ذاتی آزادی، کاروباری ماحول اور سماجی دولت کے شعبوں میں یہ دوسرے نمبرپرجبکہ مجموعی طورپر13واں نمبراس کے حصے میں آیا۔آسٹریلیا 2015میں ساتویں نمبرپرتھااوراگلے برس وہ اپنی پوزیشن ایک درجہ بہترکرکے چھٹانمبرتوحاصل کرلیا مگر اب وہ15ویں نمبرپرچلاگیا ہے۔اسی طرح یورپی ملک نیدرلینڈکے شہری رہن سہن کے لحاظ سے پہلے نمبر،تعلیم اوراقتصادی مساوات میں دوسرے نمبرپرمگر مجموعی خوشحالی میں دنیامیں چھٹے نمبرپرہیں۔
سوئیڈن جو اقتصادی مساوات میں دوسرے اورطرزحکومت کی درجہ بندی میں7ویں نمبرپرہے،تاہم مجموعی طورپر وہ دوسراخوشحال ترین ملک قرارپایاہے،حالانکہ گزشتہ برسوں میں 5ویں نمبرپررکھاگیاتھا۔اسکینڈے نیویاکاخطہ بہترین طرزِزندگی کیلئے شہرت رکھتا ہے اوراس خطے میں شامل ڈنمارک 9ویں نمبرسے پہلے نمبرپرآن پہنچاہے اوردلچسپ بات یہ ہے کہ صرف 8برس قبل اس خطے کاسب سے کم خوشحال ترین ملک قرار پایاتھا۔برطانیہ چارسال قبل اس فہرست میں15ویں نمبرپرتھامگریورپی یونین سے علیحدگی کیلئے ووٹ دینے کے باوجود وہ چھلانگ لگا کر10ویں نمبرپرپہنچ گیاجس کی وجہ وہاں کا بہترین کاروباری ماحول قراردیاگیاتھامگراب دودرجے تنزلی کے ساتھ 12ویں نمبرپرپہنچ گیاہے۔چاردہائیاں قبل برطانیہ کی پہچان دنیاکی سب سے بڑی فلاحی مملکت کے طورپرتسلیم کی جاتی تھی اوریہی وجہ تھی کہ مارگریٹ تھیچرنے اپنی انتخابی مہم میں یہ نعرہ لگایاتھاکہ اگر انتخابات میں اس کی جماعت شکست سے دوچارہوئی تویہ فلاحی ریاست کے حوالے سے دنیاکے دوسرے نمبرپرچلی جائے گی اوراپنے اسی نعرہ کی بدولت بھاری اکثریت سے انہوں نے انتخاب میں کامیابی حاصل کی اورملک میں بڑے بڑے اداروں کی نجکاری اورسخت ترین کامیاب اقتصادی تبدیلیوں کی وجہ سے آج انہیں”آئرن لیڈی”کے نام سے یادکیاجاتاہے۔
تاہم دنیابھرمیں کون سی قوم کتنی خوش اورکون کتنی ناخوش،اس کاتجزیہ ہرسال اورریٹنگ جاری کی جاتی ہے۔اسکینڈی نیوین ممالک (سوئیڈن،ڈنمارک،ناروے،فن لینڈ اورآئس لینڈ)اس فہرست میں عموماً بہت اوپرہیں۔ان ممالک میں سماجی بہبودکابہترین تصور اپنایا گیا ہے۔ سب کچھ حکومت نے اپنے ذمے لے رکھاہے اورعام تاثریہ ہے کہ ان ممالک کے رہنے والے انتہائی سکون اورمسرت کے ساتھ زندگی بسرکررہے ہیں۔مگرکیاواقعی ایساہے؟تمام بنیادی سہولتوں اوربہترزندگی بسرکرنے کے مواقع فراہم کردیے جانے سے زندگی کے تمام مسائل حل ہوجاتے ہیں؟باضابطہ تجزیوں اورجائزوں سے معلوم ہواہے کہ جنہیں انتہائی خوش وخرم ممالک یااقوام تصورکیاجاتاہے،ان میں لاکھوں ایسے ہیں جواب تک زندگی کے حوالے سے خودکوایڈجسٹ نہیں کرسکے اورخاصی پریشانی کی زندگی بسرکرنے پر مجبورہیں۔
2022کی ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ(Happyness Report)میں ڈنمارک،سویڈن،ناروے،فن لینڈ،سوئٹزرلینڈنے ٹاپ کیا،آئس لینڈبھی زیادہ پیچھے نہیں رہا۔وہ8 ویں نمبرپرہے۔ان تمام ممالک میں زندگی عمومی سطح پرانتہائی پرسکون اورپرکشش ہے۔ دنیا بھر کے لوگ ان ممالک میں زندگی بسرکرنے کے خواہش مندہیں۔کسی بھی پس ماندہ ملک سے ان ممالک میں قدم رکھنے والاواپس جانے کا نہیں سوچتا۔حقیقت یہ ہے کہ ان تمام ممالک کی حکومتیں اپنے شہریوں کووہ تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرتی ہیں،جن کے سہارے بہترزندگی بسرکرناممکن ہوتا ہے۔مگرکیاواقعی ایساہے کہ ان ممالک میں سبھی خوش ہیں؟دنیاکوتوایساہی دکھائی دیتاہے مگرحقیقت یہ ہے کہ ان پانچوں ممالک میں ایسے افرادکی کمی نہیں جواپنی زندگی سے کچھ زیادہ خوش نہیں۔نارڈک کونسل آف منسٹرزاورکوپن ہیگن(ڈنمارک)کے ہیپی نیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے حال ہی میں مل کرجائزہ لیاتواندازہ ہواکہ ان تمام ممالک میں12فیصدسے زائدافرادکسی نہ کسی حوالے سے مشکلات جھیل رہے ہیں اوران کی زندگی میں خلاساہے۔یہ لوگ کسی نہ کسی حوالے سے جدوجہدکی حالت میں ہیں ۔جن ممالک کی دنیا بھر میں مثال دی جاتی ہے،ان میں آبادی کاایک معتدبہ حصہ یوں پریشان ہویہ انکشاف انتہائی پریشان کن ہے۔
ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کاراوراِن دی شیڈوآف ہیپی نیس کے زیرعنوان شائع ہونے والی رپورٹ کے مصنف مائیکل برکجیئر کہتے ہیں کچھ نہ کچھ توہے جوآرکسٹراسے ہٹ کر یعنی بے سرایابے تال ہے۔نئی نسل کامعاملہ یہ ہے کہ یہ مسرت کے حوالے سے عدم مساوات کونقطہ عروج تک پہنچانے کیلئے بے تاب وبے قرارہے۔2018سے2022کے دوران نارڈک ممالک میں ایک ہمہ گیرسروے کے ذریعے لوگوں سے کہاگیا کہ وہ اپنی زندگی اورمسرت کے حوالے سے ایک سے دس تک کسی بھی مقام کاتعین کریں۔سات یا اس سے زائدپوائنٹس حاصل کرنے والوں کوخوش اورترقی کی طرف گامزن ظاہرکیاگیا۔پانچ یاچھ پوائنٹس والے جدوجہد کرتے بتائے گئے اورچاریا اس سے کم پوائنٹس لینے والوں کو مایوس ٹھہرایاگیا۔اکثریت نے سات تانوپوائنٹس حاصل کیے۔
دنیابھرمیں نئی نسل کوتعلیم،صحت اورملازمت یاکیریئرکے حوالے سے شدیددباؤکاسامناکرناپڑتاہے۔نارڈک ممالک میں یہ دباؤبرائے نام بھی نہیں کیونکہ تعلیم اورصحت پرکچھ بھی خرچ نہیں کرناپڑتا۔سب کچھ حکومت کی طرف سے فراہم کیاجاتاہے۔معاشرتی اورمعاشی ڈھانچا ایسا ہے کہ جوتعلیم مکمل کرتاہے،اسے جاب مل ہی جاتی ہے۔بیروزگاری الاؤنس بھی ہے اورجولوگ کام کرنے کے قابل نہیں رہتے انہیں بھی بہترزندگی بسرکرنے کابھرپورموقع فراہم کیاجاتاہے،پوراخیال رکھاجاتاہے۔یہ سب کچھ مثالی نوعیت کاہے۔ دنیا بھر میں نارڈک ریاستوں کی مثال دی جاتی ہے کہ فلاحی ڈھانچاہوتوایساہو۔حکومت بڑے پیمانے پرٹیکس وصول کرتی ہے مگرٹیکس اداکرنالوگوں کوبرا نہیں لگتا کیونکہ زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں اورآسائشوں کااہتمام حکومت ہی کرتی ہے۔
حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی سہولتوں اورپرمسرت زندگی کے اہتمام کے ساتھ کچھ نہ کچھ دباؤبھی ضرورآتاہے۔نارڈک اقوام کی نئی نسل پربہترکردکھانے کے حوالے سے دباؤبھی بڑھتاجارہاہے اورسچ تویہ ہے کہ جوکچھ ہے وہ اس قدرمثالی ہے کہ اسے محض برقرار رکھنابھی جوئے شیرلانے سے کم نہیں۔حکومت بہت کچھ دیتی ہے مگرپھربھی بہت کچھ ایساہے جولوگوں کوکرناہے،اوروہ اس حوالے سے غیرمعمولی ذہنی دباؤمحسوس کرتے ہیں۔عمومی صحت کامعیارتوبہت اچھاہے مگرذہنی صحت کامعاملہ تھوڑاساڈانواڈول ہے۔ خاص طورپرنئی نسل زیادہ دباؤمیں ہے۔تعلیم اورصحت کے مواقع کے حوالے سے تومعاملات درست ہیں مگرتعلیم کے بعدعملی زندگی شروع کرنے پرنئی نسل کوغیرمعمولی ذہنی دباؤ کا سامنا کرناپڑتاہے کیونکہ دوسروں سے بہترکچھ کردکھانے کی گنجائش پیداکرنادردِِسر ہے۔سوئیڈن میں10برس کے دوران ایسے لوگوں کی تعدادمیں20فیصداضافہ ہواہے،جوذہنی صحت کے حوالے سے مشکلات محسوس کر رہے ہیں اوران میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔وہ عملی زندگی کے حوالے سے مشکلات محسوس کررہے ہیں۔کچھ کردکھانے کیلئے انہیں غیر معمولی محنت کرناپڑرہی ہے۔ ڈنمارک کی ہیلتھ اتھارٹی نے ایک لاکھ 80ہزارافرادپرمشتمل سروے کے نتائج کی روشنی میں بتایاہے کہ16سے24سال تک کی عمرکے لڑکے او رلڑکیاں غیرمعمولی تنہائی محسوس کررہے ہیں،جیسے زندگی کاکوئی مقصدہی نہ ہو۔
”دی ہیپی نیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ” کے تجزیہ کارمائیکل برکجیئرکہتے ہیںایک طرف تومسابقت بڑھ رہی ہ،لوگوں کاموازنہ ان کی کارکردگی کی بنیادپرکیاجارہاہے،دوسری طرف سوشل میڈیاکابڑھتاہوااستعمال بھی نئی نسل کوتناؤکی طرف دھکیل رہاہے۔پسماندہ ممالک میں نئی نسل پرکچھ کرنے کیلئے بہت دباؤہوتاہے مگران کے پاس وسائل یامواقع نہیں ہوتے ۔نارڈک اقوام کی نئی نسل کامسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس وسائل بھی ہیں اورمواقع بھی مگراس کی سمجھ میں نہیں آتاکہ کیااورکیسے کریں،بہت کچھ ہے مگرجیسے کچھ بھی نہیں،زندگی کسی واضح مقصدسے محروم ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ حل کیسے کیاجائے۔سوشل میڈیاکے ہاتھوں پریشانیاں بڑھ رہی ہیں توکیا سوشل میڈیا پر پابندی لگادی جائے؟ اگرایسا کیا گیاتوکچھ اورآجائے گا،کچھ اورکرناپڑے گا۔
مائیکل برکجیئرمزیدکہتے ہیںلوگوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی خطرناک ہے۔اس کے شدیدمعاشی اورمعاشرتی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ڈیوٹی سے غائب رہنا،کارکردگی کے گراف کاگرنااورہیلتھ سروسزکازیادہ استعمال انتہائی خطرناک رجحان ہے،جوبالآخرقومی سطح پر شدید منفی اثرات مرتب کرکے دم لے گا۔ان رپورٹس کے بعدنجانے مجھے کیوں یورپی مؤرخ اورمشہورزمانہ مصنف مائیکل ہارٹ کی مشہور زمانہ ”سوبڑے آدمی”کتاب یادآگئی جس میں دلائل کے ساتھ یہ لکھنے پرمجبورہوگیاکہ”سب سے زیادہ مؤثرافرادکی فہرست کی قیادت کرنے کیلئے میراانتخاب دنیاکیلئے بعض قارئین کوحیران کن ہوگالیکن تاریخ میں محمدۖواحدشخص ہیں جوکامیابی کی بلندیوں پرسب سے پہلے اورسب سے بڑے رہنماہیں۔
عقل کی ابتدامیں محمدۖنے دنیاکے عظیم مذاہب میں سے ایک کوقائم کیااوران کوفروغ دیا اورایک انتہائی مؤثرسیاسی رہنمابن گئے اورآج ان کی وفات کے14صدیاں گزر جانے کے بعدان کااثراب بھی طاقتوراور وسیع ہے۔میں دوسرانمبرعمربن خطاب کودینے پراس لئے مجبورہوگیاہوں کہ وہ نہ صرف ہجری تقویم کے بانی ہیں بلکہ ان کے دورخلافت میں عراق،مصر، لیبیا،سرزمین شام،ایران،خراسان، مشرقی اناطولیہ،جنوبی آرمینی اورسجستان فتح ہو کرمملکت اسلامی میں شامل ہوئے اوران فتوحات کارقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار اورتیس (22,51,030)مربع میل پرپھیل گیا۔ان ہی کے دورخلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا،اس طرح ساسانی سلطنت کامکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کاتقریباتہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آگیا۔انتہائی مہارت،شجاعت اورعسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کودوسال سے بھی کم عرصہ میں زیرکرلیا،نیز اپنی سلطنت وحدودسلطنت کا انتظام،رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امورسلطنت کوجس خوش اسلوبی اورمہارت وذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے”۔ مجھے حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کاوہ سنہری دوریادآرہاہے جنہوں نے قرآن کی حکومت قائم کی اور آدھی دنیاپران کی خلافت کاپرچم لہراتارہا۔خوشحالی اورسکون کایہ عالم تھا کہ وہاں کوئی زکو ٰةلینے والاباقی نہیں رہااورسیکیورٹی اورعدل وانصاف کی لازوال مثالیں تاریخ میں موجودہیں۔قرآن کانظام توآج بھی مشکلات کاسب سے بڑاحل ہے لیکن صدافسوس تواس بات کاہے کہ کبھی پاکستانی قوم کو”نظام مصطفی”کے نام پرلوٹاگیااورکبھی ریاستِ مدینہ کے نام پردھوکا دیاگیا۔جوبھی مسنداقتدارپرقابض ہوتاہے توپہلے دن سے ہی اپنی فانی زندگی کیلئے سارے عمرکے حصول اقتدارکے پروگرام مرتب کرتے ہوئے اپنے سے پہلے حکمرانوں کوچور،ڈاکوکہہ کرقوم کواپنے دام فریب میں پھانس کواپنی تجوریاں بھرناشروع کر دیتاہے۔قوم یہ کہنے پرمجبورہوگئی ہے کہ
چمن کے رنگ وبونے اس قدردھوکہ دیامجھ کو
کہ میں نے شوقِ گل بوسی میں کانٹوں پرزبان رکھ دی