... loading ...
ریاض احمدچودھری
1953ء میںقادیانیوں کے خلاف جب تحریک شروع ہوئی تو مولاناسیدابو الاعلی مودودی ، امیر جماعت اسلامی پاکستان نے قادیانیت کے بارے میں ایک کتابچہ ‘قادیانی مسئلہ’ تحریر کیا۔جس کی پاداش میں مولاناسیدابو الاعلی مودودی کو فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی اور انہیں ایک ہفتے کے اندر اس حکم کے خلاف اپیل کرنے کی مہلت دی گئی۔ مولانا مودودی نے یہ کہتے ہوئے اپیل دائر کرنے سے انکار کر دیا کہ جس مسلمان کو قادیانیت کے خلاف جہاد کرنے سے شہادت نصیب ہو رہی ہوتو وہ اس شہادت کے خلاف اپیل کیسے کر سکتا ہے۔ مولانا مودودینے فرمایا کہ اگر اللہ نے انہیں زندگی دی ہے تو دنیا کی کوئی عدالت یا کوئی انسان اسے چھین نہیں سکتا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے دیرینہ ساتھی میاں طفیل محمد، سابق امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی کی گرفتاری کا احوال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” ہم دیوانی گھر وارڈ کے صحن میں مولانا مودودی صاحب کی اقتدا میں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے کہ دیوانی گھر وارڈ کا باہر کا دروازہ کھٹ سے کھلا اور چودہ، پندرہ فوجی، جیل افسر اور وارڈر احاطے میں داخل ہوئے۔ ہم نے باقی نماز مکمل کر لی تو ان میں سے بڑے فوجی افسر نے جو مارشل لا کورٹ کا صدر تھا’ اس نے پوچھا: ”مولانا مودودی صاحب کون ہیں؟” مولانا نے عرض کیا: ”میں ابوالاعلیٰ مودودی ہوں”، تو اس نے کہا: ”آپ کو قادیانی مسئلہ کتاب تصنیف کرنے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی ہے۔ آپ گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں”۔ مولانا نے بلاتوقف فرمایا: ”مجھے کسی سے کوئی رحم کی اپیل نہیں کرنی ہے۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں پر میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی”۔ اس کے بعد اسی افسر نے کہا:” آپ نے مارشل لا کے بارے میں روزنامہ تسنیم میں جو بیان دیا ہے اس پر آپ کو سات سال قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے”۔
کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ہیڈ وارڈن اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے وارڈر آئے اور انھوں نے کہا: ”مولانا مودودی صاحب تیار ہو جائیں’ وہ پھانسی گھر جائیں گے”۔ اس پر مولانا مودودی صاحب نے اطمینان سے اپنا کھلا پاجامہ تنگ پاجامے سے بدلا’ جو وہ گھر سے باہر جاتے وقت پہنا کرتے تھے۔ سر پر اپنی سیاہ قراقلی ٹوپی پہنی اور چپلی اتار کر سیاہ گر گابی جوتا پہنا اور اپنا قرآن مجید لے کر اور ہم سب سے گلے مل کر نہایت اطمینان سے پھانسی گھر روانہ ہو گئے۔مولانا مودودی صاحب کو پھا نسی کی سزا کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں احتجاج شروع ہو گیا۔مولانا مودودی کے انتہائی قریبی ساتھی محترم رضوان علی ندوی کہتے ہیں کہ جب مولانا کو سزائے موت سنائی گئی تو میں اس وقت مکہ مکرمہ میں تھا۔ شاہ سعود نے اس پر بھرپور احتجاج کیا اور پاکستانی حکومت کو سزا ختم کرنے بارے لکھا ۔ مصر کی اسلامی جماعت اخوان المسلمون کے رہنما علامہ حسن الہضیبی، کابل سے علامہ نور المشائخ المجددی، فلسطین کے مفتی اعظم الحاج محمد الحسینی کے علاوہ الجزائر اور انڈونیشیا کے علما نے حکومت پاکستان سے رابطہ کرکے سید مودودی کی سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ کیا ۔انڈونیشیا کی اسلامی پارٹی کے وزیر اعظم ڈاکٹر ناصر صاحب نے حکومت پاکستان سے کہا کہ: ”پاکستان کو مودودی صاحب کی ضرورت نہیں تو دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی ضرورت ہے۔ پاکستان ان کو انڈونیشیا بھجوا دے”۔ سعودی عرب نے اس سزا کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ بہت سے دوسرے ممالک کے مسلمانوں نے بھی، اور پاکستان میں تو ہرجگہ سے احتجاج ہوا۔ اس احتجاج کا نتیجہ یہ ہوا کہ تیسرے ہی روز حکومت پاکستان نے اعلان کر دیا کہ مولانا مودودی اور مولانا عبد الستار خاں نیازی کی سزاے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی ہے۔ چنانچہ مولانا مودودی کو پھانسی گھر سے جیل کے بی کلاس وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ممتاز صحافی و ادیب الطاف حسن قریشی لکھتے ہیں کہ سید ابو الاعلیٰ مودودی کی یہ عمر قید عملاً14 سال قید با مشقت کی تھی۔ اگر چہ یہ مارشل لا کورٹ کے تحت دی گئی تھی اور مارشل لا ختم ہو جانے کے بعد اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا’لیکن مارشل لا کے تحت سارے احکام اور سزاؤں کو انڈمنٹی ایکٹ کے تحت بر قرار رکھا گیاتھا ‘اس لیے یہ سزائیں مارشل لا اٹھ جانے کے باوجود بھی قائم اور جاری تھیں۔
جماعت اسلامی نے مولانا مودودی کی سزا کو کالعدم کرانے کے سلسلے میں لا ہور ہائی کورٹ میں میاں منظور قادر ایڈوو کیٹ کے ذریعے سے رٹ دائر کردی اور ہائی کورٹ نے رٹ منظور کرتے ہوئے سید ابو الاعلیٰ مودودی کو رہا کرنے کا حکم دے دیا’ چنانچہ مولانا 28 مئی 1955 کو ڈسٹرکٹ جیل ملتان سے رہا ہوکر گھرآ گئے۔یہ اکتوبر1963ء کی بات ہے جب جماعت اسلامی کا سالانہ اجتماع لاہور میں منعقد ہونے والا تھا۔ اس اجتماع کوناکام کرنے کے لیے صدر پاکستان ایوب خان ایڑی چوٹی کا زور لگارہے تھے۔ حکومت نے لاوؤڈ اسپیکر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ جماعت کے انتظامیہ نے مکبرین کا انتظام کرلیا۔ حکومت کے اشارے پر غنڈوں کوبھیجا گیا۔ جنہوں نے اجتماع گا ہ کے قناتوں کی رسیوں کوکاٹ ڈالا اوربہت اودھم مچایا۔ مولانا مودودی کھڑے ہوکر اس اجتماع میں تقریر کررہے تھے۔ مولانا سے درخواست کی گئی کہ وہ بیٹھ جائیں تومولانا نے تاریخی الفاظ کہے :” چودھری صاحب! اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کون کھڑا ہوگا۔”جماعت کا ایک نوجوان اللہ بخش جوسیکورٹی پر متعین تھا، گولی لگ کر شہید ہوگیا۔ جماعت کے ذمہ داران اوراللہ بخش شہید کے گھروالوں نے اس جانکا ہ حادثہ پر صبر کا دامن تھام لیا۔ ایسے تھے وہ جیالے لوگ اور ایسے تھے مولانا مودودی جماعت اسلامی کے درخشاں ستارے۔
7ستمبر1974 ء کو قومی اسمبلی نے مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کے لئے آئین میں ترمیم کر کے مسئلہ قادیانیت پاکستان میں ہمیشہ کے لئے حل کر دیا۔مسلم اور غیر مسلم کی تحریر بھی مولانا مرحوم کی تحریر سے ہی اخذ کی گئی اس طرح اللہ تعالیٰ نے مولانا مودودی کو بڑا منفرد مقام عطا کیا۔یہ ان کی بالغ نظری،ہنودویہود کی سازشوں اور عالمی استعماری ہتھکنڈوں پر گہری نظر کا ہی نتیجہ تھا۔ مولانا مودوی قوم کو بار بار متنبہ کرتے رہے کہ اسلامیان پاکستان کو اس غفلت اور غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہو جانا چاہیے کہ اب ہماری ذمہ داری ختم ہو گئی ہے اور قادیانی مسئلہ پورے کا پورا حل ہو گیا ہے۔ یہ پہلا قدم ہے جو صحیح سمت میں اٹھایا گیا ابھی قادیانیت اور اس کی پشت پر جاری سازشوں کے سد باب کے لئے بہت سے ضروری اقدامات کرنا ابھی باقی ہیں جن کے بغیر یہ قضیہ کسی نہ کسی شکل میں پھر سراٹھائے گا،اور زیادہ پیچیدگیوں کا باعث بنے گا اور اسلامیان پاکستان کی عقیدت ومحبت اور طویل قربانیوں کو بے ثمر کرنے کا ذریعہ بنے گا۔