... loading ...
سمیع اللہ ملک
خوفزدہ،سہمے ہوئے،دولت اورآسائش سے پروردہ لوگو ں کی محفل ان دنوں دیدنی ہے۔ان کے تبصرے عین اس شخص کی صورت ہیں ، جس نے ایک خوبصورت،تما م ضروریات زندگی اورآسائشوں سے مزین ایک گھربنایاہو،ایک ایساگھرجس میں اس کی نسلوں تک قائم ودائم رہنے کی صلاحیت موجودہولیکن اچانک دورسے ایک طوفان اٹھتاہوادکھائی دے، سیلاب کاکوئی ریلااس کی جانب بڑھے یاآتش فشاں کے لاوے کی زد میں وہ گھرآتاہوادکھائی دے،ایسے میں اس شخص کی حالت دیدنی ہوتی ہے۔کبھی اس شخص کو کوس رہاہوتاہے جس نے اسے یہاں گھربنانے کامشورہ دیاتھا،کبھی نقشہ نویس کوگالیاں دیتاہے اورکبھی اس گھرپراتناسرمایہ خرچ کرنے پراپنے آپ کولعنت ملامت کررہاہوتاہے،جب اسے اس بات کایقین ہوجائے کہ اب گھرآفت کی زدمیں آکرخس وخا شاک ہوجائے گااوروہ بس اسے دیکھتاہی رہ جائے گا۔
ایسی حالت آج کل ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اس مملکت خداداد پا کستان کواپنے آرام،دولت کی ہوس،تعیش کی لت اوراقتدارکی طلب کیلئے منتخب کیاتھا۔جن کے تما م اثاثے تو ملک سے باہرہیں لیکن ان کی عزت وآبرواورپہچان اس ملک سے وابستہ ہے،یاپھروہ لوگ جنہوں نے دولت اورآسائش کی چادراپنے اردگردتان رکھی ہے اورانہیں کہیں بھوک، افلاس،غربت،بیماری اورنا دا ری نظرنہیں آتی۔ یہ ان دنوں عجیب وغریب تبصرہ کر تے ہیں۔ان کی زبا نیں لڑکھڑاتی ہیں اورغصے کے عا لم میں ان کے ہونٹ خشک ہوجا تے ہیں۔ کہیں گے دیکھوامریکاکتنی بڑی طا قت ہے،وہ تمہاراکچومرنکال دے گا۔یہ واحدسپرطاقت کازمانہ ہے۔کوئی تمہا ری مددکونہیں آئے گا۔اگرتم سمجھتے ہوکہ چین اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے جنگ میں پاکستان کے ساتھ کھڑاہوگاتویہ تمہاری بھول ہے،وہ تائیوان جس کواپناحصہ سمجھتا ہے، ہزاروں میل دوربیٹھے امریکاکی وجہ سے اس میں مداخلت کی جرأت نہیں کرتاتوبھلاتمہاری مددکوکیاآئے گا۔ کبھی ان لوگوں پربرس پڑتے ہیں کہ سب جہادی پاگل ہیں،یہ طالبان فرسودہ لوگ ہیں،انہوں نے ہمیں ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کوبدنام کرکے رکھ دیاہے،کہیں کا نہیں چھوڑا۔کبھی افغان جہادکولعنت ملامت کریں گے کہ ہزاروں میل دوربیٹھے امریکاکی محبت میں گرفتارہوکرہم نے 167بلین ڈالر کا جہاں نقصان کیا وہاں 87ہزارافرادکی قربانیاں دیکربھی امریکاکوخوش نہ کرسکے اورآج وہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ شیروشکرہے اورپاکستان کی سا لمیت اورخودمختاری کوسب سے بڑاخدشہ بھی امریکاکی ریشہ دوانیوں سے پہنچ رہاہے اورجن طالبان کے لیے ہم نے اتنی قربانیاں دیں،کئی برس سے ان کی میزبانی کررہے ہیں لیکن آج وہاں سے دشمن ممالک کے ایماء پر ارضِ وطن کوتاراج کرنے کیلئے آئے روز دہشت گردی ہورہی ہے اورافغان طالبان انہیں روکنے پرمائل دکھائی نہیں دیتے۔
سرپردوہتڑ پیٹ کرکہیں گے،کاش ہم اس میں حصہ نہ لیتے تویہ دن دیکھنانہ پڑتے۔ہم اس جنگ میں حصہ لینے کے بجائے شروع دن سے روس کے ساتھ دوستی کرلیتے،لیاقت علی سوویت یونین کے دورہ کی دعوت کوردکرکے امریکاکی وفاداری کادم نہ بھرتے توآج ہندوستان کے بجائے پاکستان اس کابہترین دوست ہوتااورکشمیرکامسئلہ بھی حل ہوجاتا۔اوروہ سوویت یونین کی شکل میں قائم رہ کرکم ازکم امریکاکے مقابلے ہماری پشت پرکھڑاہوتا۔اپنے نصیبوں کوروتے ہوئے یہ لوگ پا کستان کے وجود،اس کے قیام اوراس کے مقصد تک کولا یعنی گردانتے ہیں اورپھرمستقل تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بناہی اس لئے تھاکہ ٹوٹ جائے یاختم ہوجائے،کوئی آمریت کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے اورکوئی لولی لنگڑی جمہوریت کو۔پھرتان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ یہ معاشیات کی دنیاہے۔ابھی ملک دیوالیہ ہورہا تھا،دن رات آئی ایم ایف کے پاؤں پکڑنے سے بھی بات نہیں بن رہی تھی ،تمہارا سابقہ وزیرخزانہ اسحاق ڈارجوملک میں پاؤں رکھتے ہی آئی ایم ایف کوآنکھیں دکھارہاتھا،بالآخراسلام آبادمیں امریکی سفیرکے چرنوں کاہاتھ لگاکرمددکیلئے فریادکناں دکھائی دیا جس کے بعدناک کی لکیریں نکلوا کر 9 مہینے کیلئے اسٹینڈبائی قرضہ کے ساتھ ایسی شرائط منوائیں کہ اپنے ہی ملک کااسٹیٹ بینک اب ان کی شرائط پرعمل کرتے ہوئے نہ صرف ہماری نگرانی کرے گابلکہ تمام شرائط منوانے کاپابندبھی بنائے گا۔یہ ہے تمہاری اوقات اور چلے ہیں امریکاکوانکھیں دکھانے۔
پہلے اپنی غربت دیکھو،اپنی مفلسی اورناداری دیکھواورمقابلہ امریکاجیسی عالمی طاقت سے جس کی کمپنیاں پوری دنیاپرچھائی ہوئی ہیں۔ بابا یہ جدیدٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔تم فرسودہ لوگ،نہ علم رکھتے ہونہ ہی کوئی دولت کی ریل پیل اورنہ ہی جدیدٹیکنالوجی!تم کیامقابلہ کروگے؟بس خاموش رہو،چپ کرکے زند گی کے دن پورے کرو،کیوں خود بھی تباہ ہوتے ہو اورہمیں بھی غارت کرتے ہو۔ان لوگوں میں اہل علم بھی ہیں،اہل ثروت بھی اوراہل دانش بھی۔مفکربھی ہیں،کالم نگاربھی اورصحافی بھی۔سب طوفان کوا پنی جانب بڑھتادیکھ کرایک ہذیان میں مبتلا ہیں۔ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہونے والاہے لیکن دنیااوراس کے مال و آسائش سے وا بستہ بزدلی کچھ ہمت پکڑنے ہی نہیں دیتی۔ لیکن خوف کی دلدل میں ڈوبتے لوگوں کوتاریخ کایہ سبق کون پڑھائے کہ اگرمعاشی برتری کسی کوتحفظ دینے کے قابل ہوتی تو ہندوستان پرجب چاروں جانب سے مغربی طا قتیں بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑی تھیں تواس زما نے میں اس کوسونے کی چڑیا کہاجا تاتھا۔بقول لارڈ میکالے مجھے پورے ہندوستان میں کوئی فقیرنظرنہیں آیااورنہ کوئی چور،اور پھراسی برٹش ہندوستان میں امرء ا اورروساء کایہ حال تھاکہ دلی کے با زاروں میں گڈچلاتے تھے یاسامان اٹھاکرمزدوریاں کرتے تھے۔عام آدمی توپہلے بھی اسی طرح پسینہ بہاکر رزق کماتاتھا،اس کی بلاسے،نہ اس کی جائیدادتھی جوکوئی لوٹتااورنہ ہی عزت وتوقیرتھی جوکوئی چھینتا۔جوعلم اورٹیکنا لوجی کی با تیں کرتے ہیں،انہیں شایدعلم نہیں کہ تاریخ جنگ جیتنے کیلئے ان دونوں چیزوں کوکسی کھا تے میں نہیں ڈالتی۔
جب چنگیز خان نے غربت اورافلاس کے مارے ہوئے منگولوں کودنیافتح کرنے کیلئے اکٹھاکیاتھاتوان کے پاس دو وقت کی روٹی کھانے کے بھی وسائل نہیں تھے۔بس گھوڑے تھے اوراپنے کم علم لوہاروں کی بنائی ہوئی تلواریں۔جبکہ دوسری جانب بحری جہازوں، رسدگاہوں،دور تک مار کرنے والی منجنیقوں اوردورتک آگ کے گولے پھینکنے والی توپوںکاوافرذخیرہ موجود تھا۔ بغداد،بصرہ،استنبول اور قاہرہ کے کتب خانے،یونیورسٹیاں اورسا ئنسی تجربہ گا ہیں ،اپنے زمانے کی جدیدترین ٹیکنالوجی پڑھارہی تھیں بلکہ تخلیق کررہی تھیں لیکن چنگیزخان ان ممالک کویوں روندتاہواگزراکہ شہروں کے شہرکھائے ہوئے بھس اورجلے ہوئے شمشان گھاٹ کی طرح ہوگئے تھے۔
تا ریخ کی اوربہت سی گواہیاں ہیں لیکن جن کے تصورمیں مرنجامرنج زندگی اورصبح وشام کاسہ لیسی رچ بس گئی ہو،انہیں کون سمجھائے کہ کیاہم ویت نام سے بھی گئے گزرے ہیں جس کے زخم آج تک امر یکاچاٹ رہاہے۔ابھی کل ہی کی توبات ہے کہ امریکا اپنے تمام اتحادیوں سمیت اپنی منی ایٹم بموں کے ساتھ افغانستان کاتورابورابناکریہ دعوی کرتاتھاکہ اگلے چنددنوں میں افغانستان کے گلی کوچے بھی اگلی صدی تک امریکی کالونی کے طورپرسرنگوں رہیں گے اوراس کے تمام پڑوسی بشمول پاکستان اورایران ہماری مرضی کے مطابق ہماری گزرگاہوں کاکام سرانجام دیں گے تاکہ امریکاسوویت یونین سے الگ ہونے والی ریاستوں کاساراپٹرول اور افغانستان کی تمام معدنیات کواپنے تصرف میں لائے گا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے توافغانستان میں”تمام روایتی بموں کی ماں”نامی بم گرانے میں لمحہ پھرتاخیرنہیں کی جبکہ اس خوفناک بم کے اثرات ابھی تک گردوپیش کی آبادی بھگت رہی ہے لیکن ان سب غیرانسانی،غیرقانونی حربوں کے باوجودتاریخ میں یہ رقم ہوگیاکہ کون رسواہوااورکون فتح یاب ہوا۔
آج واشنگٹن میں کیپیٹل ہل کے سا منے گول سی سیاہ سنگ مرمرکی دیوارہے جس پران ہزاروں مرنے والوں امریکی فوجیوں کے نام درج ہیں۔انہیں کون بتائے کہ 1901سے امریکانے دنیاکے ملکوں پراپنے تسلط کاآغازکیااوراب تک32ممالک میں جارحیت کامرتکب ہوالیکن جس ملک میں گیاوہاں سے ذلت ونامرادی سے واپس لوٹابلکہ ویت نام سے توہیلی کاپٹروں سے لٹک کروہاں سے راہِ فرار اختیارکرناپڑی۔کیاہماری سکت جنوبی امریکاکے چھوٹے چھوٹے ملکوں،چلی،ہنڈوراس،نکاراگوا،بولیویااوروینزویلاسے بھی کم ہے،ہر گزنہیں!انہیں اندازہ نہیں کہ اگرامریکااس مملکت خداداپاکستان میں داخل ہواتویہ پھرمحاذجنگ ،یہ وارتھیٹرگلگت،بلتستان سے چترال کے دشوارگزارراستوں،پامیرکے پہا ڑوں،کابل کی وادیوں اورمزارشریف کے بازاروں سے نکل کربحیرہ عرب تک جاپھیلے گا۔ جسے ہم سرحد کہتے ہیں،وہ جہاں امریکیوں کیلئے ختم ہوگی وہاں اس سے لڑنے والوں کیلئے بھی ملیامیٹ ہوجائے گی اوردنیا کی کوئی فوج اتنے بڑے میدان جنگ میں،کوچوں،قریوں اورکھلیانوں میں لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ایک بڑے کوبرے سا نپ کی طرح ہر جگہ اپنی ریڑھ کی ہڈی تڑوائے گی۔
ظالم جب ظلم کرتاہے تواس کی آنکھوں پرپٹی بندھ جاتی ہے،عقل ماؤف ہوجاتی ہے کہ کبھی وہ بھی ظلم کوشکارہوسکتاہے۔مظلوم کی آہٹ سات آسمانوں سے اوپرعرش تک پہنچتی ہے توپھرربِ کریم اس کوعزت کالباس پہناکرذلت کے گڑھے میں پھینک دیتاہے۔پھراس کی سیدھی بھی الٹی پڑتی ہے۔آپ دو مثالیں ملاحظہ کریں۔
ابو مسلم خراسانی عرب دنیاکاچالاک عیارشخص تھا۔ بنوامیہ کابدترین اورازلی دشمن تھا۔اس نے بنوامیہ کی سلطنت پارہ پارہ کی،ان کا تخت الٹاکربنوعباس کواقتداردیا۔بنوامیہ کے بڑے بڑے نامورلوگوں کوقتل کیا،ان کی لاشوں پردسترخوان بچھاکرکھاناکھایا۔جو قبروں میں تھے ان کونکال کرکوڑے مارے،پھرسولی پرچڑھادیاگیا۔مکافات کی چکی سے بنو عباس بھی نہ بچ پائے۔ابوجعفرمنصورنے اقتدار سنبھالتے ہی ابومسلم خراسانی کودربارمیں بلایا۔پھراس کوقتل کیا،قالین میں لپیٹ کردریائے دجلہ کے حوالے کردیا۔وہ شخص جو سازشی تھا،آج خودسازش کاشکارہوگیا۔جس نے بنو امیہ کاخون چوسا،انتقام کی آگ بھڑکائی،بنوعباس کیلئے اقتدارکی راہ ہموارکی، لیکن آج اسی آگ میں جل کرراکھ ہوگیا۔نہ جنازہ نصیب ہوانہ کفن۔
دوسری مثال ہندوستان میں پیش آئی۔شاہ عالم ثانی نے ضابطہ خان کے غوث گڑھ پرحملہ کیا۔ضابطہ خان اوراس کے بیوی بچوں کوقید کیا،اس کے بیٹے غلام قادرروہیلہ کوزنانہ کپڑے پہناکرنچوایاکرتاتھا۔پھراس کی مردانگی تک ختم کردی گئی۔شاہ عالم یہ بھول گیاتھاکہ جس کے ساتھ وہ ظلم کررہاہے وہ اسی شخص کاپوتاہے جس نے مصیبت کی ساعات میں مددکا ہاتھ بڑھایاتھا۔حالات نے پانسا پلٹا،غلام قادرنے دہلی پرقبضہ کیا۔پھراپناانتقام یوں لیاکہ شاہ عالم کی بیٹیوں کودہلی کے چوک میں سرِبازارنچوایا،ساتھ بوڑھے باپ کوبٹھاکریہ منظردکھایاگیاتاکہ وہ اپنے ماضی کویادکرے۔اس کاانتقام یہاں رکانہیں بلکہ اس کی آنکھیں نکالیں،آنکھ نکالتے وقت شاہ عالم بولا،ان آنکھوں کوچھوڑدیتے،اس سے میں نے چالیس سال کلام اللہ پڑھاہے لیکن اس نے ایک نہ سنی۔
وقت اپناآپ دہراتاہے۔آج کاظالم کل کامظلوم بن سکتاہے۔آج کاقاتل کل مقتول کی صف میں کھڑاہوسکتاہے لیکن انسان اقتداراورمال کے نشے میں اپناکل بھول جاتاہے۔مکافاتِ عمل کی چکی چلتی آہستہ ہے لیکن پیس کرپاوڈربنادیتی ہے کیوںکہ جوبوتاہے وہ کاٹتابھی ضرور ہے۔شاید اسی دن کاانتظاروہ سب لوگ کررہے ہیں جن کی آنکھیں آسمانوں کی طرف نصرت الٰہی کیلئے لگی ہوئی ہیں۔ہاتھ بدست دعاہیں اوردل میں ان بشارتوں کی شمعیں روشن ہیں جو اہل نظرسالوں سے اس ملک کے با شندوں کودیتے آئے ہیں۔مولاناروم کی حکایت کے مطابق ایک بھیڑگلے سے الگ ہوگئی توایک بھیڑیے نے اسے جالیا۔بھاگتی ہوئی ایک دلدل میں جاگری،بھیڑیاپیچھے آیاتووہ بھی پھنس گیا۔لگاہاتھ پاؤں مارنے لیکن دیکھاکہ بھیڑبڑی مطمئن ہے۔پوچھاکہ تم باہرنکلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتی۔اس نے انتہائی مطمئن اندازمیں جواب دیاکہ میں ایک گلے سے ہوں،میرامالک گنتی کرے گاتومجھے نہ پاکرمیری تلاش شروع کردے گا،مجھے ڈھونڈ نکالے گااورمجھے باہربھی نکال لے گالیکن تمہاراتوکوئی مالک نہیں۔تم نے اسی دلدل میں ڈوبناہے۔دلدل بھی تیارہے اورمیرامالک بھی آتاہوگا۔بھیڑیے نے حملہ کرنے کیلئے اپنے خونخوارتیزپنجے جوحملے کیلئے استعمال کرنے تھے،وہ اب اس دلدل میں اس بات سے فکر مندہورہاتھاکہ اس بھیڑکامالک اسے بھی صحیح سلامت نکال لے گااورمجھے اسی دلدل میں غرق ہونے کیلئے چھوڑجائے گا۔ایسے میں وہ جن کاایمان کامل ہے اورجواپنے ا للہ کواس ملک کاگلہ بان سمجھتے ہیں،ان کے حوصلے دیکھنے کے لائق ہیں۔نصرت کے فیصلے میرارب کرتاہے۔اگریہودیوں کاچیف ربی یہ کہتاہے کہ امریکاکی حفاظت پر یہودیوں کی ہزاروں روحانی طاقتیں دن رات پہرہ دے رہی ہیں تواس مملکت خدادادپاکستان کی پیشانی پرتومیرے رب کانام جگمگ کررہاہے۔ پیش گوئیوں،شہادتوں اورفیصلوں کے دن قریب آرہے ہیں۔اہل نظرکی آنکھیں آسمان کی سمت اوردل کی دھڑکنیں دعابنی ہوئی ہیں۔
ایک چراغ اورایک دعاکاجب سے پل پل ساتھ رہاہے
دھوپ میں سایہ،حبس میں پرواہ،پیاس میں ساون ساتھ رہاہے