... loading ...
حمیداللہ بھٹی
بھارت کی میزبانی میں ایک زمین ،ایک خاندان ،ایک مستقبل کے سلوگن سے جی20کااٹھارواں سالانہ سربراہی اجلاس دس ستمبرکونئی دہلی میںاختتام پزیرہوتے ہی گروپ کی آئندہ سربراہی برازیل کے حصے میں آگئی ہے۔ نیا سربراہ دسمبر میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالے گا۔ حالیہ انعقادپزیر اجلاس سے ویسے بھی دنیا کو کچھ زیادہ توقعات نہیں تھیں حالانکہ کم آمدنی والے ممالک پر قرضوں کا بوجھ،موسمیاتی تبدیلیاں اوریوکرین روس جنگ کی وجہ سے بڑھنے والے افراطِ زرجیسے مسائل تشویشناک ہوچکے ہیں لیکن اصل مسائل کی بجائے اِس گروپ کے ممبر ممالک کی ترجیحات اورنظرآئیں ۔ اٹلی کے دارالحکومت روم میں 2021 کے سربراہی اجلاس میں گلوبل ورامنگ کے خلاف موثر اقدامات کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھامگر 2022میں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس میںنہ صرف سرمایہ کاری بڑھی۔ بلکہ رواں برس مزید دس فیصد اضافے سے 150بلین ڈالرتک پہنچنے کا خدشہ ہے جبکہ جی 20کے سائنسدان متفق ہیں کہ گلوبل وارمنگ کم کرنے کے لیے کوئلے کا استعمال روکنا ضروری ہے۔ موجودہ اجلاس میں تو روس اور چین جیسے بڑے ممالک کے صدور کی عدم شرکت اور محض نمائندگی سے عملدرآمد کی شرح مزید گرنے کا امکان ہے۔ حالیہ اجلاس میں قابلِ تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے لیے سالانہ چالیس کھرب ڈالر کی ضرورت کی نشاندہی کرتے ہوئے کوئلے سے بجلی کی پیداوار مرحلہ وار کم کرنے کی کوششیں تیزکرنے پر اتفاق ہوا لیکن عملاًکسی بھی نتیجہ خیز اقدام سے پہلو تہی کی گئی۔ اِس کے باجود یہ اجلاس اِس بناپر اہم ہے کیونکہ یہ دنیا کی بیس ایسی بڑی اقتصادی قوتوں کا گروپ ہے جس کے رُکن ممالک میں دنیا کی کُل آبادی کا ساٹھ فیصد آبادہے۔ اِس کے پاس دنیا کی جی ڈی پی کا اسی فیصدجبکہ برآمدات میں حصہ 75فیصدہے۔ اسی بناپر دنیا کی ترقی کے انجن کا نام دے سکتے ہیں ۔ اِس گروپ کا قیام ایشیائی معاشی بحران کے بعد 1999کے دوران عمل میں لایا گیا۔ آغاز میں رُکن ممالک کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے گورنرز شرکت کرتے رہے، مگر 2007کے معاشی بحران کے بعد2008 سے ہرممبرملک میں سربراہی اجلاس منعقد ہورہاہے۔ موجودہ اجلاس کاقابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ افریقی یونین کو مستقل رُکنیت کی دعوت دی گئی مزیدخوش آئند پہلو یہ ہے کہ براعظم افریقہ کی 1.4بلین آبادی کو جی20 جیسے اہم عالمی فورم میں نمائندگی مل گئی ہے۔
اجلاس کے دوران امریکہ اوریورپی ممالک نے کوشش کی کہ افتتاحی دن کے مشترکہ اعلامیے میں یوکرین کے خلاف جارحیت پرروس کانام لے کر مذمت کی جائے لیکن ایسی کاوشوں پر اُس وقت اوس پڑ گئی جب اکثر ممبر ممالک نے جغرافیائی سیاسی مسائل میں الجھنے سے گریز کرتے ہوئے اقتصادی ترقی کی طرف جامع پیش رفت پر اکتفاکیا ۔ البتہ روس کا نام لیے بغیر مطالبہ کیا گیا کہ طاقت کے استعمال سے گریز کیاجائے۔ روس کا نام لیے بغیرہی جوہری ہتھیاروں کا استعمال یا ایسی کسی دھمکی کو بھی ناقابل قبول کہا گیا۔ حالانکہ انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں منعقدہ سربراہی اجلاس کے اعلامیے میں نہ صرف روس کانام لے کر اُس کی یوکرین کے خلاف جارحیت کی مذمت کی گئی بلکہ جارح فوج سے غیرمشروط طورپر یوکرین کی سرزمین فوری خالی کرنے کا مطالبہ سامنے آیالیکن دہلی اعلامیے میں ایسی کسی بات سے اجتناب پر یوکرین نے بھی تنقید کی ہے۔ اعلامیے میں روس ویوکرین سے غذائی اجناس اور کھاد کی محفوظ ترسیل کے لیے بحیرہ اسود کے راستے کی بحالی پر زور دیا گیا۔ بالی اجلاس میں یوکرین کو دعوت دے کر بلایاگیا لیکن نئی دہلی میں تو مدعوتک نہیں کیاگیاجو امن پسند حلقوں کے لیے کافی پریشان کُن ہے ۔ ماہرین اِس اجتناب کی وجہ امریکہ کی طرف سے ڈالر کی اجارہ داری کو دیگر مسائل پر فوقیت دینا قراردیتے ہیں۔ اِس میں ابہام نہیں کہ عالمی امور پر امریکی گرفت کمزورہونے سے ڈالرکے علاوہ دیگر کرنسیوںیوآن،یورواورروپے وغیرہ میں تجارت کا حصہ بڑھتا جا رہا ہے جس سے پریشان امریکہ بڑے اقتصادی ممالک کو منظم کرنے میں مصروف ہے ۔حالانکہ امریکی و چین بڑھتی مسابقت اور یوکرین جنگ کے تناظر میں حالیہ اجلاس تصفیے کے لیے نہایت اہم تھا مگر امریکہ نے اپنے طرزِ عمل سے ثابت کردیاہے کہ اصل مسائل کی بجائے چین کے بڑھتے عالمی کردار کومحدود کرنااُس کی اولیں ترجیح ہے۔ حالانکہ صدر بائیڈن کا دعویٰ ہے کہ وہ چین کو تنہا کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔
نئی اقتصادی راہداری بنانے اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو ریل سے جوڑنے اور بعدمیں بندرگاہ کے زریعے اِن کا بھارت سے رابطہ قائم کرنے کا خیال نیانہیں پراناہے نیز خلیج اور یورپ تک توانائی اور تجارت کے تبادلے کو عملی جامہ پہنانے کی تجویز بھی نئی نہیں اِس اقتصادی راہداری میں بجلی اور ہائیڈروجن کی پائپ لائنیں شامل ہیں۔ حالیہ اجلاس کے دوران اِس حوالے سے معاہدے کی مفاہمتی یاداشت پر سعودی عرب ،امارات،امریکہ ،بھارت،یورپی یونین اور دیگر شراکت داروں نے دستخط کردیے ہیں جسے عالمی منظر نامے پر چینی کردارکو محدود کرنے اور متبادل منصوبے شروع کرنے کی کوششوںکے حصے کے طورپر دیکھاجارہا ہے۔ امریکی صدر معاہدے بارے کہتے ہیں کہ یہ حقیقت میں ایک بڑا سودا ہے جو دو براعظموں کی بندرگاہوں کو جوڑنے میں پل کاکردار ادا کرے گا۔سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان نے اِس معاہدے کو باہمی انحصار مضبوط بنانے اور مشترکہ مفادات کے حصول میں مدد دگار بننے والامنصوبہ جبکہ میزبان مودی نے آنے والی نسلوں کے لیے بڑے خوابوں کے بیج بونے سے تعبیر کیاہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے لیے اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ،ٹروجن ہارس ،کی حثیت رکھتا ہے اسی لیے وہ جی 20 فورم کو بھی جلد سازشوں کا محوربنتا دیکھ رہے ہیں۔
بظاہر مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو جوڑنے کے لیے ایک کثیر الملکی ریل اور بندرگاہوں کے وسیع تر معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ اِس سے کم اور درمیانی آمدنی کے حامل ممالک کو فائدہ ملے گا نیز مشرق ِ وسطیٰ کا عالمی تجارت میں کردار مزید اہم ہو گا لیکن یہ بات اتنی سادہ نہیں جیسے بیان کی جارہی ہے ریل اور بندرگاہوں کے معاہدے پر دستخط ہونا اہم پیش رفت ضرورہے لیکن یہ معاہدہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا توڑ ہے اسی لیے ماہرین اِس معاہدے کی تکمیل کے حوالے سے زیادہ خوش گمانی نہیں رکھتے کیونکہ بھارت کے پاس سرمایہ کاری کے لیے چین کی طرح نہ تو وافر سرمایہ ہے اور نہ ہی تکنیکی مہارت ہے اِس حوالے سے اُسے امریکہ پر انحصارکرنا ہوگا۔ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ معاہدہ قابلِ عمل اور سرمایہ کاری کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا توسعودیہ کی فلسطین کے حوالے سے اسرائیل پربے اعتباری جیسے مسائل نظراندازنہیں کیے جا سکتے۔ اِن مسائل کو معاہدے سے قبل حل کرناضروری تھالیکن کرنے والے اصل کام نظر انداز کرتے ہوئے لمبی چھلانگ لگا دی گئی۔
معاشی نظام کے مختلف پہلوئوں پر غور کرنے اور درپیش مسائل حل کرنے کے ساتھ جی 20 میں پائیدارترقی ،ماحولیاتی تبدیلی ، بدعنوانی، زراعت ،صحت اور توانائی جیسے مسائل کا جائزہ لے لیکر حل کے لیے رُکن ممالک میں اتفاقِ رائے پیداکرنے کاعزم تو کیاجاتاہے لیکن عمل کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ وجہ امریکہ و چین مسابقت کے ساتھ روس کا عدمِ تعاون ہے موجودہ اجلاس میںتو امریکی اور روسی وفود میں ملاقات تک نہیں ہو سکی۔ ایسی نااتفاقیاں تنظیم کی طرف سے پاس کی جانے والے قراردادوں پر عملدرآمد کی شرح کم کرتی ہیں۔ چین جیسی دنیا کی سب سے زیادہ ترقی کرتی معیشت سرمایہ دارانہ نظام کو للکارنے کی پوزیشن میں ہے اور وہ چاہے ابھی محدودپیمانے پر ہی سہی ڈالرکے متبادل کرنسیوں میں تجارت کی حوصلہ افزائی کرتاہے جسے روکنے اور ڈالر کی بالادستی قائم رکھنے کے لیے امریکہ نے بھارت کو میدان میں اُتارتو دیاہے لیکن حقائق یہ ہیں کہ تیز رفتار ترقی کے باوجودبھارت اور چین کا موازنہ نہیں کیا جاسکتاکیونکہ چین اُس سے بہت آگے ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیوگوتریس نے خبردار کیا ہے کہ آپسی جھگڑوں سے باہمی کشمکش بڑھ سکتی ہے جس سے عوامی اعتماد میں کمی آ سکتی ہے۔ جی 20اعلامیے میں شرکاء نے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے قرض کے خطرات کو جامع اور منظم انداز میں حل کرنے پر اتفاق کیا تااہم اِس حوالے سے کوئی طریقہ کار نہیں بنایا ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ جی 20 گروپ ڈالرکی بالادستی قائم رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں کیونکہ بھارت کی نظر اپنے نفع پر ہوگی اوروہ روس کے بعد اب امریکی دھڑے کا حصہ بن کر ثمرات حاصل کرنے کے چکر میں ہے وہ کسی عالمی طاقت کے مفاد کے تحفظ میںاپنے فوائدکو ہرگزدائو پر نہیں لگاسکتا۔