وجود

... loading ...

وجود

ختم نبوت پر ایمان ہر مسلمان پر فرض ہے

منگل 12 ستمبر 2023 ختم نبوت پر ایمان ہر مسلمان پر فرض ہے

ریاض احمدچودھری

عقیدہ ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے جس پر دین اسلام کی عمارت کھڑی ہے اور جس کے لیے شمع رسالت کے پروانوں نے ہمیشہ بیشمار قربانیاں دیں۔ اس بنیادی عقیدہ سے انکار پورے دین اسلام سے انکار ہے۔7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کی دونوں شاخوں کو غیر مسلم قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج کر دیا۔اس لئے ہر سال 7 ستمبر کو یوم ختم نبوت ۖ منایا جاتا ہے۔ حال ہی میں یوم ختم نبوت کے موقع پر محترم مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے خطاب میں فرمایا کہ ہمارے اکابرین نے پارلیمنٹ میں یہ جنگ لڑی اور قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا۔ ختم نبوت کیلئے ہر قربانی دینے کو ہر وقت تیار ہیں۔ توہین رسالت کے قانون سمیت تمام اسلامی قوانین کو ختم کرانے کی کوششیں دراصل قادیانی سازشوں کے اثرات ہیں۔ کلیدی عہدوں پر فائز قادیانیوں کو برطرف کیا جائے۔ختم نبوت ہمارا عقیدہ بھی ہے اور ہماری عقیدت بھی ہے۔ ختم نبوت ہمارا ایمان بھی ہے ، ہماری جان بھی ہے ۔ ختم نبوت ہمارا عشق بھی ہے ہماری محبت بھی ہے۔ ختم نبوت ہماری زندگی بھی ہے اور مقصد زندگی بھی ہے۔ ختم نبوت ہماری عبادت بھی ہے ہماری حیات بھی ہے۔ ہماری روح بھی ہے ۔ ختم نبوت ہمارا مشن بھی ہے ، ہماری منزل بھی ہے۔
عقیدہ ختم نبوت کی شان و عظمت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کریم نے قرآن پاک میں ایک سو آیات مبارکہ حضرت محمدۖ کی ختم نبوت کے بارے میں نازل فرمائیں حالانکہ کسی بات کو سمجھانے کیلئے ایک ہی آیت کا ہونا بھی کافی ہے لیکن خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید میں سو مرتبہ حضورۖ کی ختم نبوت کا اعلان فرمایا اور آپۖ کی دوسو دس احادیث دعویداروں کی پیش گوئی حضور ۖنے اپنی حیات طیبہ میں ہی فرما دی تھی۔ مثلاً ابوداؤد شریف میں حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول کریمۖ نے ارشاد فرمایا میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گئے ہر ایک یہی دعویٰ کرے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ” میںۖ آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا”۔امت محمدیہ کا جوسب سے پہلا اجماع ہوا وہ بھی مسئلہ ختم نبوت پر ہی ہوا تھا۔ منکر نبوت مسیلمہ کذاب نے سرکار دو عالم کے زمانے میں ہی نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا۔ جس پر اجماع کر کے تمام صحابہ کرام اس بات پر متفق ہوئے کہ اس کے خلاف جہاد کیا جائے۔مسیلمہ کذاب کے خلاف اس جہاد میں خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق تحفظ ختم نبوت کے اس سب سے پہلے معرکے کی خود قیادت کر رہے تھے۔دین ِ اسلام کی خاطر لڑی جانے والی ستائیس جنگوں میں شہید صحابہ کرام کی تعداد اڑھائی سو کے لگ بھگ رہی جبکہ منکر ختم نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی جانے والی اس ایک جنگ میں بارہ سو صحابہ کرام شہید ہوگئے۔ جن میں سے سات سو تو قرآن کے قاری ،عالم اور مفتی تھے۔ آپۖ کے وصال کے بعد جھوٹے نبیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
حضرت مولانا امداد اللہ مہاجر مکی پر اللہ کریم نے کشف فرمایا تھا کہ ہندوستان میں عنقریب ایک فتنہ پیدا ہونے والا ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنے مرید حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی کو اس کی بیخ کنی کیلئے مکہ مکرمہ سے ہندوستان بھیجا۔ حضرت پیر صاحب آج سے 113سو برس قبل 25اگست 1900ء کوبادشاہی مسجد لاہور داخل ہوئے۔ برصغیر میں سید انور شاہ کشمیری ، علامہ محمد اقبال ، عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا حسن مرتضےٰ، مولانا ثناء اللہ اور مولانا محمد حسین بٹالوی جیسے جید علماء و قائدین نے اسی طرح ختم نبوت کا علم اٹھائے اس قافلے میں سرگرم رہے۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد 1953ء سے ہی قادیانیوں کے خلاف تحریک تحفظ ختم نبوت جاری ہو چکی تھی۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کو سزائے موت سنائے جانے سمیت دیگر علمائے کرام کو طویل قید و بند کی سزائیں سنا دی گئیں۔ پھر سابق وزیراعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت کا واقعہ ہے کہ 22 مئی 1974ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ چناب نگر کے راستے پشاور کے تفریحی سفر پر جا رہے تھے کہ ربوہ ریلوے سٹیشن پر قادیانیوں نے لٹریچر تقسیم کرنے کی کوشش کی۔جس پر طلبہ نے مشتعل ہو کر ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے۔ واپسی پر 29 مئی کو طلبہ کی گاڑی خلافِ ضابطہ ربوہ ریلوے سٹیشن پر روک لی گئی اور مرزا طاہرقادیانی کی قیادت میں سینکڑوں مسلح افرادنے لاٹھیوں’ سریوں اور برچھیوں کے ساتھ حملہ کر کے 30 نہتے طلبہ کو شدید زخمی دیا۔ اِس واقعہ کا پورے ملک میں زبردست ردِعمل ہوا۔ دینی جماعتوں کی اپیل پر پاکستان کے مختلف شہروں میں ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دیا جائے۔ واقعہ کے رد عمل میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں پر مشتمل مجلس عمل تشکیل دے دی گئی۔ اس وقت مولانا شاہ احمد نورانی’ مفتی محمود ، پروفیسرغفور احمد ، نوابزادہ نصر اللہ خان اور مولانا عبدالمصطفیٰ اظہری جیسے علماء اور سیاسی اکابرین قومی اسمبلی میںموجود تھے۔30 جون 1974ء کو قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دینے کے لئے مولانا شاہ احمد نورانی کی جانب سے متفقہ طور پر ایک قرارداد پیش کی گئی جبکہ 44 ممبران قومی اسمبلی کے دستخطوں سے پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دینے کا بل بھی پیش کر دیا گیا۔ قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دے کر بل پر بحث شروع ہوئی تو قادیانی رہنماء مرزا ناصر اور مرزا صدر الدین وغیرہ کو بلا کر یحییٰ بختیار کے ذریعے اْن پر جرح کی گئی۔ ایوان میں طویل بحث کے بعدآخر کار 7 ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کیلئے متفقہ طور پر وزیر قانون عبدالحفیظ پیر زادہ کے ذریعے آئینی ترمیم پیش کی گئی۔ 4 بجے اس کا فیصلہ کن اَجلاس ہوا اور 4 بجکر 35 منٹ پر ملک کے منتخب ادارے کی طرف سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔
آئین کی دفعہ 102 شق 3 میں ترمیم کے مطابق قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کے احمدی اشخاص کے الفاط درج کر کے آئین کی دفعہ 260 شق (2) کے بعد حسب ذیل نئی شق میں وضاحت کی گئی کہ جو شخص حضرت محمد ۖ جو آخری نبی ہیں کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو حضرت محمد ۖکے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے وہ آئین اور قانون کی نظر میں مسلمان نہیں ہے۔قومی اسمبلی اور سینٹ نے اس ترمیم کو منظورکیا۔ اس ترمیم کے بعد 50ہزار قادیانی مسلمان ہوئے تھے۔ 26 اپریل 1984ء کو صدرپاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے قادیانیوں کی خلاف اسلام دشمن سرگرمیوں کو روکنے کے لئے ”امتناع قادیانیت آرڈینس” جاری کیا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر