... loading ...
معصوم مرادآبادی
خبروں کا بازار یوں تو ہمیشہ ہی گرم رہتا ہے ، لیکن گزشتہ ہفتہ دوایسی خبریں آئیں جنھوں نے قومی سیاست میں ہلچل مچادی ۔پہلی خبر تھی ‘ون نیشن ، ون الیکشن ‘سے متعلق اور دوسری تھی ‘انڈیا کانام بھارت’ کرنے کی۔ یہ دونوں ہی خبریں اتنی گرم تھیں کہ ان پر ردعمل ظاہرکرنے میں میڈیا کو اضافی جگہ درکار تھی۔ یوں بھی چونکانے والی خبریں جاری کرنا مودی سرکار کا محبوب مشغلہ ہے ، خواہ اس کے اثرات کتنے ہی مضر کیوں نہ ہوں اور جمہوریت کو ان کی کتنی ہی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے ۔ملک گیر سطح پر ایک ہی وقت میں لوک سبھا اور اسمبلیوں کے چناؤ ایک ساتھ کرانے کا شگوفہ اور ‘انڈیا ‘کو ‘بھارت ‘ میں بدلنے کی کوشش اس ملک کے بنیادی ڈھانچے سے تعلق رکھتی ہیں اور اس کے لیے پورے ملک کی رضا مندی بے حد ضروری ہے ۔ جمہوری نظام کا تقاضا بھی یہی ہے ، لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ پارلیمنٹ میں حاصل واضح اکثریت کے گھمنڈ نے جمہوریت کو قصہ پارینہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔یوں بھی جب سے اپوزیشن نے’ انڈیا’ کے نام سے اپنا مضبوط اتحاد قایم کیا ہے تب سے حکمراں جماعت کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مودی سرکار ملک میں قبل ازوقت انتخابات کی تیاریاں کررہی ہے ۔ گیس سیلنڈر میں دوسوروپے کی اچانک کمی ،پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کا بلاوا ،ایک ملک ایک چناؤ’کے لیے کمیٹی کی تشکیل اورانڈیا کوبھارت میںبدلنے کی کوشش، یکے بعد دیگر ے ایسے اقدامات ہیں ، جن سے حکمراں بی جے پی کی گھبراہٹ کا پتہ چلتا ہے ۔ مودی سرکار کی دوسری مدت کار آئندہ سال مئی میں پوری ہوگی ، لیکن اس سے پہلے پانچ اہم اسمبلیوں کے چناؤہونے ہیں ، جن کا جیتنا بی جے پی کو بھاری لگ رہا ہے ، اس لیے وہ چاہتی ہے کہ ان کے ساتھ ہی قبل از وقت عام انتخابات بھی ہوجائیں تاکہ اسے مودی سرکار کی ‘حصولیابیوں ‘ کا فائدہ پہنچ سکے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب سے ‘انڈیا اتحاد’نے اپنی سرگرمیاں شروع کی ہیں تب سے ‘انڈیا ‘ کا لفظ بی جے پی کو کھٹکنے لگا ہے اورحکمراں جماعت کے لوگ اسے نشانہ بنارہے ہیں ، لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کی طاقت میں اضافہ ہورہا ہے ، جس کا تازہ ثبوت ممبئی کا کامیاب اجلاس ہے جس میں 28پارٹیوں نے شریک ہوکر مودی سرکار کو اکھاڑپھینکنے کا عزم کیاہے ۔ ان میں بیشتر پارٹیاں وہ ہیں ، جن کا وجود ختم کرنے کے لیے حکمراں جماعت نے سرکاری ایجنسیوں کا بے دریغ استعمال کیا ہے ۔اس سے قبل کہ ہم ‘ون نیشن، ون الیکشن ‘ کے شگوفہ پر اظہار خیال کریں ‘ آئیے ایک نظر’انڈیا’ کو ‘بھارت’ میں بدلنے کی کوششوں پر غور کرتے ہیں ، جو کہ اس وقت سب سے بڑا موضوع ہے ۔جی 20 اجلاس کے دوران صدر جمہوریہ کی طرف سے عشائیہ کا جو دعوت نامہ جاری کیا گیا ہے ، ا س میںحسب دستور ‘پریزیڈنٹ آف انڈیا ‘ لکھنے کی بجائے ‘پریزیڈنٹ آف بھارت’لکھا گیا ہے اور یہی وہ اختراع ہے جس نے اپوزیشن کو سراپا احتجاج بنادیا ہے ۔ انڈیا کو بھارت میں بدلنے کے پیچھے اصل سبب اپوزیشن اتحادکا نام بتایا جارہا ہے ۔جب سے اپوزیشن نے اپنے اتحاد کا نام ‘انڈیا ‘رکھا ہے تب سے حکمراں طبقہ میں زبردست بے چینی پھیلی ہوئی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں نے جس وقت بنگلور اجلاس میں اپنانام ‘انڈیا ‘رکھا تھا ، اسی وقت سے اس کے خلاف بیان بازی کی جارہی ہے ۔ آسام کے بڑبولے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے تو صاف طورپر کہا تھا ‘انڈیا ‘ کا نام تبدیل کرکے اسے بھارت کردیا جائے ۔اس کے بعد گزشتہ یکم ستمبر کو آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے گوہاٹی میں یہ بیان دیا تھا کہ صدیوں سے ہمارے ملک کا نام ‘بھارت’ ہے ‘انڈیا ‘ نہیں۔انھوں نے لوگوں سے ملک کا قدیم نام استعمال کرنے کی اپیل کی تھی۔انھوں نے یہ لن ترانی بھی کی تھی کہ آج دنیا کو ہماری ضرورت ہے ۔ہم دنیا کے بغیر رہ سکتے ہیں ، لیکن دنیا ہمارے بغیر نہیں رہ سکتی۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان کوغیرممالک میں صرف اور صرف ‘انڈیا ‘کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ ہرسرکاری دستاویز یہاں تک کہ پاسپورٹ پر بھی ‘ری پبلک آف انڈیا’ لکھا ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسا نام ہے جو ہرجگہ معروف ہے ، لیکن محض سیاسی انتقام کی بنائپر ملک کا نام بدلنا کسی کے بھی گلے نہیں اتررہا ہے ۔ جس وقت اپوزیشن اتحاد نے اپنا نام ‘انڈیا ‘ رکھا تھا تو اسی وقت اس پر اعتراضات کی بارش ہونے لگی تھی ۔ یہاں تک کہ ‘انڈیا ‘ کے نام کا استعمال روکنے کے لیے عدالت سے بھی رجوع کیا گیا تھا، مگر اس میں کامیابی نہیں ملی۔ لہٰذا اب اس کا نام ہی مٹانے کی کوشش شروع ہوگئی ہے ۔مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا ہے کہ ‘پوری دنیا ہمیں انڈیا کے نام سے جانتی ہے ، اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ دیش کا نام بدلنے کی ضرورت آن پڑی؟’دہلی کے وزیراعلیٰ کجریوال نے سوال اٹھایا ہے کہ’ ‘یہ ملک عوام کا ہے ، کسی سیاسی پارٹی کا نہیں ۔اتحاد نے اگر اپنا نام بھارت رکھ لیا تو کیا اسے بھی بدل دیا جائے گا؟کانگریس جنرل سیکریٹری وینو گوپال کا کہنا ہے کہ بی جے پی صرف یہی سوچ سکتی ہے کہ آخر لوگوں کو کیسے بانٹا جائے ۔انھوں نے کہا کہ ایک بار پھر وہ انڈین اور بھارتیوں کے بیچ دراڑ پیدا کررہے ہیں۔
حکومت کے جس دوسرے اقدام کی اپوزیشن اتحاد کی طرف سے سب سے زیادہ مخالفت ہورہی ہے ، وہ ‘ون نیشن ، ون الیکشن ‘ کے لیے تشکیل دی کمیٹی ہے ، جس کی صدارت سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو سونپی گئی ہے ، جبکہ اس کمیٹی میں دوسرے نمبر پر وزیرداخلہ امت شاہ ہیں۔ اس کمیٹی میں آٹے میں نمک کی مقدار کے برابر اپوزیشن کو بھی شامل کیا گیا تھا ، لیکن کانگریس لیڈر اندھیر رنجن چودھری نے اس میں شامل ہونے سے انکار کردیا ہے ۔ اس طرح یہ کمیٹی حکومت کے چہیتے لوگوں پر ہی مشتمل رہ گئی ہے ۔اپوزیشن کا خیال ہے کہ کمیٹی کی تشکیل اور اس کی میٹنگیں محض رسم ادائیگی ہوں گی ، کیونکہ حکومت پہلے ہی اس کا خاکہ بناچکی ہے ، جسے منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔کانگریس نے اسے پوری طرح مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صرف آئین میں ترامیم کے بعد ہی ممکن ہے ۔ پارٹی لیڈر جے رام رمیش کا کہنا ہے کہ ون نیشن ون الیکشن کے لیے آٹھ رکنی کمیٹی کی تشکیل سے واضح ہے کہ اپوزیشن اتحاد ‘انڈیا ‘ کے کامیاب اجلاس کی وجہ سے بی جے پی میں مکمل گھبراہٹ ہے ۔
‘ون نیشن ون الیکشن ‘ کی پہل کو جمہوریت کے خاتمہ کی کوشش سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔اپوزیشن نے اسے ملک کے وفاقی ڈھانچے پر زوردار حملہ قراردیاہے ۔’ون نیشن ، ون الیکشن ‘ درحقیقت وزیراعظم نریندر مودی کی دماغی اپج ہے ، کیونکہ وہی ہر معاملے میں ‘ون ‘یعنی ‘میں ‘پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر آپ ان کے 9 سال سے زیادہ کے دور اقتدار کو دیکھیں تو پائیں گے کہ انھوں نے یہاں صرف اپنی ہی چلائی ہے اور
جمہوریت کو قصہ پارینہ بناکر چھوڑ دیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں ان پر مسلسل جمہوریت کی جگہ آمریت کو فروغ دینے کا الزام لگاتی رہی ہیں۔کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے کا کہنا ہے کہ حکمراں جماعت جمہوریت کو آہستہ آہستہ آمریت میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ ‘ون نیشن ون الیکشن’ پر کمیٹی بنانے کی یہ چال ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے اٹھایا گیا قدم ہے ۔قابل غور بات یہ ہے کہ اس کے لیے دستور ہند میں کم ازکم پانچ ترامیم کی ضرورت ہوگی ۔عوامی نمائندگی ایکٹ مجریہ1951میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی جائے گی ۔منتخب لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلیوں کی معیاد کو ختم کرنے کے لیے آئینی ترامیم کی ضرورت ہوگی ۔ سوال یہ بھی ہے کہ آیا مجوزہ کمیٹی ہندوستان کے انتخابی عمل میں سب سے سنگین الٹ پھیر کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کے لیے موزوں ہے ؟ کیا قومی سطح پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بغیر یہ بڑی مشق یک طرفہ طورپر کی جانی چاہئے ۔واضح رہے کہ اس سے قبل ماضی میں کم ازکم تین کمیٹیاں وسیع پیمانے پر غورو خوض کے بعد اس خیال کو مسترد کرچکی ہیں۔ جہاں تک ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کرانے کے پیچھے اخراجات میں کمی کی منطق کا سوال ہے ، تو 2014-19کے درمیان انتخابات پر صرف 5500 کروڑ روپے خرچ ہوئے جو سرکاری بجٹ کی معمولی رقم ہے ۔ اس لیے یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ‘ون نیشن ،ون الیکشن ‘ کا تصور پوری طرح حکمراں جماعت کی گھبراہٹ کا نتیجہ ہے اور یہ ملک کو درپیش سنگین مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی دانستہ کوشش ہے ۔