وجود

... loading ...

وجود

کلاس آرائیاں۔۔۔

اتوار 10 ستمبر 2023 کلاس آرائیاں۔۔۔

۔
عماد بزدار
۔۔۔۔۔۔۔

رؤف کلاسرا صاحب ہمارے سینئر کالم نگار اینکر اور دانشور ہیں۔معیشت، معاشرت، سیاست کرپشن پر ایکسپلوسوا سٹوریز کے ساتھ ساتھ
تاریخ پر بھی لکھتے رہتے ہیں۔ کچھ سال قبل کلاسرا صاحب نے”کشمیر کہانی” کے عنوان سے پچیس اقساط پر مبنی ایک سیریز لکھی تھی۔ وہ سیریز پڑھ کر میرا خیال تھا کلاسرا صاحب ایک آدھ کتاب پڑھ کر قطعیت کے ساتھ رائے قائم کرتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ مجھے اندازہ ہوا یہ بات بھی مشکوک ہے کہ ضروری نہیں جن کتابوں کا حوالہ اپنے کالمز میں کلاسرا صاحب دے رہے ہوتے ہیں، وہ مکمل پڑھی بھی ہیں کہ نہیں (اس کی وضاحت میں آگے جا کر کروں گا)۔
اپنی اس کشمیر سیریز میں کلاسرا صاحب نے ماؤنٹ بیٹن کو عظمت کا قطب مینار بنا کر پیش کرتے ہوئے حقائق کا گلا بے دردی سے گھونٹا۔
ظاہر ہے پچیس اقساط کا جواب لکھنے کے لئے پوری کتاب لکھنے کی ضرورت ہوگی۔ یہاں میں چند ایک آدھ غیر مستند بات کو جس طرح کلاسرا صاحب نے حقیقت بنا کر پیش کیا اس پر بات کرونگا۔
تقسیم کا پلان جس طرح بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماؤنٹ بیٹن نے نہرو کو دکھایا، اس پر کلاسرا صاحب لکھتے ہیں ”ماؤنٹ بیٹن کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ وہ وہ یہ پلان نہرو کو دکھادیں۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن عمر بھر اپنی اندرونی وجدان پر بھروسہ کرتا آیا تھا ، اور
اس کے خدشات ہمیشہ درست نکلتے تھے”۔
حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی وجدان نامی چیز کارفرما نہیں تھی یہ ایک سوچی سمجھی رائے اور صریح بد دیانتی تھی ۔ برطانوی سامراج کانگریس کی دیوی کو ہر حال میں خوش کرنا چاہتی تھی۔ تقسیم کے حوالے سے اب اتنا مواد سامنے آچکا کہ تشہیر کے شوقین اس استعماری چھچھورے کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی اور ہمارے کلاسرا صاحب ہیں کہ اس بددیانتی کو وجدان کا چولا پہنا کر ماؤنٹ بیٹن کو عظیم دکھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ جب تقسیم کے ابتدائی پلان پر نہرو نے ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسترد کیا تو اس پر کلاسرا صاحب لکھتے ہیں ”لیکن لارڈ مائونٹ بیٹن ایک عام انسان نہ تھا جو نہرو کے اس سخت خط کے بعد شدید مایوسی کا شکار ہو جاتا”۔
کلاسرا صاحب کے اس”غیر معمولی انسان” کے بارے میں مہاراشٹر کے ایڈوکیٹ جنرل ایچ ایم سیروائی لکھتے ہیں کہ ”سرکاری دستاویزات اور شائع شدہ ریکارڈ جسے ٹرانسفر آف پاور کے عنوان سے کئی جلدوں میں شائع کیا گیا ان کے مطالعے سے بلاشبہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم کے لیے منصوبہ بندی کرنی شروع کی تو اس نے انصاف کا وہ لبادہ اتار دیا جو اس نے اب تک مسلم لیگ اور کانگریس کے ضمن میں اوڑھ رکھا تھا۔ اس کے اس دعوے کا بھانڈا پھوٹ گیا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس سے یکساں سلوک کر رہا ہے ۔وہ حق دوستی ادا کرنے کے لیے اہم دستاویزات نہرو کو دکھاتا رہا۔ اس سے تجاویز لے کر ان دستاویزات میں تبدیلیاں کرتا رہا، لیکن اس نے جناح اور مسلم لیگ کو اندھیرے میں رکھا اور ان کا رد عمل جاننے کی کبھی زحمت گوارا نہ کی”۔
ہندوستانی مسلمان منصور احمد ،رضا خان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”وائسرائے کی دراصل بڑی خواہش تھی کہ پنڈت نہرو کی تائید ان کے پلان کو پہلے ہی حاصل ہو جائے، سچ تو یہ ہے کہ وائسرائے اپنی اس خواہش کو چھپا نہیں سکے کہ وہ کانگریس کو مطمئن اور خوش دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر لیگ کوئی عذر کھڑا کریں گے تو انہیں اس بات کا خوف دلایا جائے گا کہ اختیارات کانگریس کے ہاتھوں ایک واحد مرکزی حکومت کی شکل میں سونپ دیے جایئں گے”۔
پروفیسر مہدی حسن کے مطابق کلاسرا کا یہ ”غیر معمولی” نہرو اور پٹیل کی محفل میں جناح صاحب کا نام تک لینا گوارا نہیں کرتے تھے
بلکہ”میڈ مین” کہہ کر مذاق اڑایا کرتے تھے ۔نفسیاتی کے الفاظ توٹرانسفر آف پاؤر میں بھی موجود ہیں۔ لیری کولنز ہی کے مطابق اس
”غیر معمولی انسان”نے جناح صاحب کو شیطانی ذہانت کا مالک کہا،ساتھ گالی بھی دی۔حقیقت یہ ہے کشمیر کا فیصلہ بھی اسی وقت ہوچکا تھا جب شملہ میںبیٹھ کر نہرو اور ماؤنٹ بیٹن کی مرضی سے وی پی مینن نے تقسیم کا منصوبہ لکھا جسے کلاسرا صاحب نے وجدان کے غلاف میں لپیٹ کر ماؤنٹ بیٹن کی عظمت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ کلاسرا صاحب ریڈ کلف کے سیکریٹری کرسٹوفر بیوماؤنٹ کا اعتراف ہی پڑھتے تو
شاید کشمیر کہانی کے نام پر اپنا اور پڑھنے والوں کا اتنا وقت ضائع نہ کرتے ۔
کلاسرا صاحب کے مطابق کشمیر سیریز لکھنے کے لئے دوسری کتابوں کے ساتھ اس نے لیری کولنز کی کتاب ”فریڈم ایٹ مڈنائٹ”سے بھی مدد لی۔ لیکن جو کچھ انہوں نے اپنے 05 اپریل 2023کے کالم ”کنویں سے اب کون نکالے”میں لکھا اس سے نہیں لگتا کہ کلاسرا صاحب نے یہ پوری کتاب پڑھی ہے ۔ کیا لکھتے ہیں؟”ہندوستان کے وائسرائے نے جب اعلان کیا کہ چودہ اور پندرہ اگست
کی درمیانی رات برطانوی راج کا خاتمہ ہوگا اور اقتدار لوکل لیڈروں کو سونپ دیا جائے گا اور وہ ہندوستان اور پاکستان کی قیادت کریں گے
تو سب پنڈت اسی وقت زائچہ بنانے بیٹھ گئے تھے کہ اس دن ان دو ملکوں کا آزاد ہونا کیسا ہوگا۔ کیا یہ مناسب تاریخ ہوگی؟ اس روز جنم
لینے والے ممالک کا مستقبل کیا ہوگا؟
اس پنڈت نے دونوں ملکوں کا زائچہ بنایا تو اس کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں۔ اس کے حساب میں وہ نحس دن تھا اور اگر اس دن تقسیم پلان پر عمل کیا گیا تو بڑے پیمانے پر تباہی ہوگی۔ اس پنڈت کو کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو خط لکھنے کا
فیصلہ کیا کہ اسے خبردار کرسکے کہ وہ اس تاریخ کو چند دن آگے پیچھے کرے کیونکہ اس روز آسمان پر ستاروں کی چال بہت خطرناک ہوگی جس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے ۔
اس خط کا تذکرہ تقسیم ہندوستان پر لکھی گئی بہت خوبصورت کتاب ”فریڈم ایٹ مڈ نائٹ” میں تفصیل سے دیا گیا۔ اب یہ نہیں پتہ وہ خط ماؤنٹ بیٹن تک پہنچا یا نہیں لیکن برسوں بعد اس کتاب کے دو مصنفین نے اس خط کی تفصیلات ڈھوند نکالیں۔
ویسے اگر یہ خط زائچے سمیت لارڈ ماؤنٹ بیٹن تک پہنچ بھی جاتا تو اس نے کون سا اسے سنجیدہ لے کر تاریخ بدلنی تھی۔ سات سمندر پار سے جنگ عظیم دوم میں برطانیہ کی طرف سے لڑنے والا ماؤنٹ بیٹن ان باتوں پر بھلا کب یقین کرتا۔ وہ ایک عملی اور جدید دنیا کا بندہ تھا۔ جہاں ان چیزوں کی گنجائش نہیں کہ ایک مندر کا پنڈت بتائے کہ اس نے کس تاریخ کو برطانیہ کا تاج ہندوستان کے سر پر رکھنا ہے”۔
اب ” فریڈم ایٹ مڈ نائٹ”کے صفحہ 246 میں جو تفصیل لکھی ہے وہ کچھ اس طرح ہے
۔
Most vexing problem of all was that posed by
Mountbatten”s impetuous selection of 15 August as
the date for Indian independence. A congeries of
astrologers finally advised India’s politicians that,
though 15 August was a wholly inauspicious day on
which to begin their nation”s modern history, 14
August represented a considerably more favourable
conjuncture of the stars. A relieved Viceroy accepted
the compromise the India politicians proposed to
propitiate the celestial bodies: India and Pakistan
would become independent dominions on the stroke
of midnight, 14 August 1947.
(ماؤنٹ بیٹن کا ہندوستان کی آزادی کے لئے پندرہ اگست کی تاریخ کا جلد بازی میں کیا گیا اعلان
سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ تھا۔بالآخر جوتشیوں نے ہندوستانی سیاستدانوں کو مشورہ دیا کہ اگرچہ پندرہ
تاریخ ہندوستان کے نئے آغاز کے لیے انتہائی منحوس ہے مگرچودہ اگست کو ستاروں کی چال ہندوستان کے
لیے خوش بختی کا پتہ دے رہی ہے ۔وائسرائے نے ہندوستانی سیاست دانوں کی تاریخ کی اس تبدیلی کی تجویز
کو خوشدلی سے قبول کرلیا جو انہوں نے آسمانی طاقتوں کو مطمئن کر نے کے لئے پیش کی تھی ۔اس کے نتیجے میں
بھارت اور پاکستان 14 اگست کو آدھی رات کے وقت دو خودمختار ریاستیں بن کردنیا کے نقشے میں ابھریں )۔
بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کلاسرا صاحب کے جنگ عظیم دوم لڑنے والے عملی اور جدید دنیا کے ماؤنٹ بیٹن نے اپنے پریس اتاشی کیمبل جونسن کو ایک نئی ذمہ داری بھی سونپ دی۔ وہ کیا؟ فریدم ایٹ مڈ نائٹ سے ہی پڑھتے ہیں:۔
he assigned his able young press attache, Alan
Campbell Johnson, the additional responsibilities of
viceregal astrologer
ان تمام باتوں کی روشنی میں کلاسرا صاحب کی خدمت میں دست بستہ گزارش ہے تاریخ جیسے حساس موضوع کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے بہتر ہے اپنے صلاحیتوں کو ”دیوتا ”ٹائپ سیریز لکھنے میں صرف کریں تو ان کا اس قوم پر احسان ہوگا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر