... loading ...
ریاض احمدچودھری
علامہ اقبال نے اطاعت و فرمانبرداری کو دین کا جز و لازم سمجھ کر اس یقین کے ساتھ کہ اللہ کو پانے کے لیے حْب رسولۖ شرطِ اوّل ہے اپنی زندگی کا یہی مقصد بنالیا۔ اور ان کے اشعار میں جابجا سپردگی کی وہ کیفیت درآئی جس سے ان کے راسخ العقیدہ اور غلام مصطفی ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
عالمی مجلس بیداری فکر اقبال کی ادبی علمی نشست میں”یہ جہاں چیزہے کیالوح و قلم تیرے ہیں” کے عنوان پر محترمہ افشین شہریارنے کہاکہ یہ مصرعہ علامہ کی نظمیں “شکوہ”کاجواب اور “جواب شکوہ”کالب لباب ہے۔ “ہم”سے مراد اللہ تعالی ہے اور محسن انسانیتۖسے وفاکامطلب کامطلب اطاعت رسولۖہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجیدمیں قلم کی قسم کھائی ہے اورپہلی وحی بھی پڑھنے کے حکم کے ساتھ نازل ہوئی۔لوح کے بارے میں انہوں نے متعددروایات بیان کرتے ہوئے بتایاکہ اس سے مرادتختی ہے جوعصری زمانے میں کاغذاور موبائل وغیرہ کی سکرین کی شکل اختیارکرچکی ہے اورلوح و قلم سے مراد تقدیرہے اور وفائے رسولۖسے ہم اپنی تقدیرکے خودمالک بن سکتے ہیں۔لوح و قلم سے مراداللہ تعالی کے فیصلے ہیں اوروفاسے مراد نظام نبویۖکا نفاذہے۔ ہماری تباہی کاذمہ داروہ طبقہ ہے جو نسل درنسل ہماری گردنوں پرمسلط ہے۔ خودی میں ڈوب کرانسان روحانیت کی اعلی منازل طے کرتا چلاجاتاہے۔ علامہ نے کم ازکم امت کو مایوسیوں کے اندھیرے سے نکال کرامیدکی روشنیوں سے آشکارکیاہے۔ کسی بھی پیش رفت کے لیے ہمیں بحیثیت قوم خودکوتبدیل کرنے کاارادہ کرناہوگا۔
کلام اقبال کلام اللہ سے ماخوذہے۔ لوح و قلم بہت قیمتی متاع ہے جووفائے رسولۖسے حاصل ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں امت مسلمہ اس زندگی کی تقدیراپنی مرضی کے مطابق لکھ سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ انسان تو برابرترقی کررہاہے لیکن مسلمان کااس ترقی میں کتناحصہ ہے؟
علامہ اقبال عشق رسول میں اس قدر ڈوبے تھے جس کا انکشاف ان کی موت کے بعد لوگوں کو ہوا۔ وہ سادہ زندگی گزارتے تھے ان کے بارے میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے مولانا مودودی رقم طراز ہیں۔”پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورہ کے لیے اقبال، سر فضل حسین مرحوم اور ایک دو اور مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا اور اپنی شان دار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر اور اپنے نیچے نرم اور قیمتی بستر پا کر معاً ان کے دل میں خیال آیا کہ جس رسول پاکۖ کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے نصیب ہوئے ہیں۔ اس نے بوریے پر سو سو کر زندگی گزاری تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی اور بستر پر لیٹنا ان کے لیے ناممکن ہوگیا۔ اْٹھے ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور مسلسل رونا شروع کردیا۔ جب ذرا دل کو قرار ہوا تو اپنے ملازم کو بلا کر اپنا بستر کھلوادیا اور ایک چار پائی اس غسل خانے میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہے غسل خانے میں سوتے رہے”۔یہ وفات سے کچھ برس پہلے کا واقعہ ہے جب باہر کی دنیا اس کو سوٹ بوٹ میں دیکھا کرتی تھی کسی کو خبر نہ تھی کہ اس سوٹ کے اندر جو شخص چھپا ہے اس کی اصلی حیثیت کیا ہے۔
علامہ اقبال نے مغربی تہذیب و تمدن کو محض ساحل پر کھڑے ہو کر نہیں دیکھا بلکہ وہ غوطہ زن ہو کر تہہ تک گئے اور اس کے بعد ان میں جو استحکام بیدار ہوا وہ ان کے پختہ العقیدہ ہونے کا بین ثبوت ہے۔ بلکہ بقول سید ابوالاعلیٰ مودودی اس شخص کا یہ حال تھا کہ ”مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا جتنا اس کی گہرائیوں میں اْترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا یہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دْنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہوچکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا۔”
حْب رسول کے حوالے سے ان کی شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ ذکر رسولۖ ہوتا اور ان کی طبیعت میں سوز و گداز درآتا اور اکثر تو وہ آبدیدہ ہو جاتے کیوں کہ عشقِ رسولۖ سے انہوں نے وہ سرمدی روشنی حاصل کی تھی جو انہیں اور ان کے کلام کو لازوال بنا گئی۔ اس کے لیے انہوں نے کامل سپردگی کی وہ منزل حاصل کی جو اپنی خواہشات اور ذات کی نفی کے بعد پیدا ہوتی ہے اور جسے حاصل کیے بغیر عشق رسولۖ کا دعویٰ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ اقبال کا حضور اکرمۖ سے محبت و عقیدت کا والہانہ انداز اپنی جگہ لیکن غلامی رسول کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حضورۖ کا نام نامی لیا جانا یا ان کے واقعات کا اظہار ان کی شخصیت پر اس قدر اثر انداز ہوتا تھا کہ وہ ملول و افسردہ سر جھکائے نمدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔