وجود

... loading ...

وجود

جی20سربراہی اجلاس اورطاقت کاتوازن

هفته 09 ستمبر 2023 جی20سربراہی اجلاس اورطاقت کاتوازن

حمیداللہ بھٹی

بھارتی رہنما عرصہ سے ایک عالمی طاقت کی قیادت کہلوانے کو بے چین ہیں۔ مگرکوشش کے باوجود اُن کی آرزو پوری نہیں ہو رہی تھی۔ اُن کی خوش قسمتی اور جنوبی ایشیا کی بدقسمتی یہ ہے کہ امریکہ نے بھارت کو خطے میں چہیتا اتحادی بنالیاہے جس سے کسی حدتک بھارتی قیادت کی آرزو پوری ہونے کا امکان ہے۔ حالانکہ تنازعات بڑھانے سے سُپر طاقت کا درجہ نہیں ملتا بلکہ طاقت کا بے جااظہار کمزور بناتا ہے۔ روس مداخلت کرنے اور مملکتوں کو مطیع و فرمانبردار بنانے کی پالیسی سے ٹوٹ گیااور وسطی ایشیائی ریاستیںآزادی ہوئیں ۔اسی طرح امریکہ نے ماردھاڑ سے دنیاکے معدنی وسائل لوٹے۔ آج اُس کی معیشت بھی زوال پزیر ہے جس طرح بھاری بھرکم اور جدید ہتھیاروں سے لیس روسی فوج ملک کو متحد رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکی ۔اُسی طرح جدید اور مہلک ترین ہتھیاروں کے باوجود امریکی ا فواج ملکی معیشت کو چین کے مقابلے میں ہوتی شکست کوبے بسی سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ طاقت ملتے ہی دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرتا ہے ۔بھارت بھی آج کل اسی ڈگر پر گامزن ہے۔
امریکی تائیدو حمایت حاصل ہونے اور آسیان کے بعد جی 20 جیسی تنظیموں کے سہارے بھارتی کوشش ہے کہ عالمی طاقت تسلیم کرتے ہوئے اُسے حیثیت کے مطابق کردار دیا جائے ۔بھارت رقبے کے حوالے سے جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ملک اور آبادی ڈیڑھ ارب کے قریب ہے۔ اُس کی معیشت دنیا میں پانچویں نمبرپر ہے۔ جی ڈی پی کا حجم 3500 ارب ڈالر جبکہ زرِ مبادلہ کے ذخائرسات سوارب ڈالر ہیں۔علاوہ ازیں خطے کی بڑی بری ،بحری اور فضائی طاقت ہے، اُس کے پاس دنیا بھر سے خریدے ہتھیار وں کا بڑا ذخیرہ ہے لیکن ایک اور تلخ سچ یہ ہے کہ تمام ہمسایہ ممالک ناخوش ہیں۔ بنگلہ دیش سے پانی کا مسلہ حل طلب ہے۔ نیپال اور بھوٹان جیسے چھوٹے ممالک سے بھی سرحدی اور آبی مسائل ہیں۔ سری لنکا باربار مداخلت سے خفا ہے۔ چین سے تو وقتاً فوقتاً جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان سے تعلقات میں سخت کشیدگی ہے۔ مزیدیہ کہ بھارت میں دودرجن سے زائد علیحدگی کی تحریکیں سرگرم ہیں۔ اِس کے باوجود عالمی طاقت کہلوانے کے لیے بھارتی بے چینی ایسے ہی ہے، جیسے کالے اور بھدے نقوش پر میک اَپ تھوپ کر خوبصورت تسلیم کرنے کا مطالبہ کرنا ،بھارت کو آگے بڑھنا ہے تو اہداف کے تعین میں اعتدال اور حقیقت پسندی سے کام لیناہوگا۔
دوروزہ جی20 سربراہی اجلاس 9اور10ستمبر کو نئی دہلی میں ہورہا ہے جس کے لیے فول پروف انتظامات کرنے کے علاوہ مہمانوں سے غربت و افلاس چھپانے کے لیے نئی دہلی میں موجود کچی آبادیاں خالی کرالی گئی ہیں شاہراہوں کی لیپا پوتی سے شہر کی ناگفتہ بہ حالت کووقتی طورپر ڈھانپ دیا گیا ہے جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سے قبل ائیرپورٹ کے راستوں میں آنے والی کچی آبادیوں کے آگے دیواریں بنا کر چھپا دیا گیاتھا مگر سربراہی اجلاس سے قبل منی پورمیں جاری ہندو عیسائی فسادات میں ہونے والی اموات ،کشمیر اور مشرقی پنجاب میں جاری ظلم و ستم،جنوب مشرقی سات ریاستوں کی بے چینی کو دنیا سے چھپانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ امریکہ چین اقتصادی مخاصمت سے بھارتی اہمیت میں اضافہ ہوا مگر جب تک بھارت خطے پر رُعب جماکر طاقتورکہلوانے اور تنازعات سے بڑھانے کی روش ترک نہیں کرتا، اسے لاحق خطرات میں کمی نہیں آسکتی تنازعات سے دامن بچانے اور چین کی طرح تجارتی پالیسی اپنانے سے ہی علاقائی ممالک کا اعتمادحاصل ہو سکتاہے۔
روس اور چین کی طرف سے واضح اعلانات سامنے آچکے ہیں کہ اُن کے صدور ولادیمیرپوٹن اور شی جن پنگ نئی دہلی میں ہونے والے جی 20سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے روس کی نمائندگی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف جبکہ چین کی وزیرِ اعظم لی کیانگ کریں گے ۔دو بڑے ممالک کے سربراہوں کی عدم شرکت سے جی20سربراہی اجلاس کی اہمیت کم ہوئی ہے۔ بظاہر پوٹن نے روس و یوکرین جنگ سے بننے والے ماحول کی وجہ سے نئی دہلی آنے سے اجتناب کیا ہے۔ حالانکہ روسی تیل اور ہتھیاروں کا دنیا میں سب سے بڑا خریدار بھارت ہے مگر چین سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اُسے غیر اہم بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اسی لیے صدر شی نے آنے سے گریز کیاہے۔ کچھ حلقے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ روسی صدر نے بھی دراصل چینی خوشنودی کے لیے اپنادورہ منسوخ کیا کیونکہ چین کی حمایت اور تجارت اُس کی معیشت کے لیے بھارت سے زیادہ اہم ہے ۔بات یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ بھارت کو پے درپے دھچکے لگ رہے ہیں ۔سربراہی اجلاس سے قبل برطانوی وزیرِ اعظم رشی سونک نے مودی حکومت سے مکمل طورپر مایوسی کااظہارکرتے ہوئے کسی فوری تجارتی معاہدے کو خارج ازامکان قرار دیا ہے۔ کینیڈا کی طرف سے سربراہی اجلاس سے قبل تجارتی معاہدے کے لیے جاری بات چیت روکنے کا علان ہوچکا۔ اِس کا مطلب ہے کہ جنونی بھارتی قیادت خطے سمیت ایک عالمی طاقت ہونے کی دعویدار ضرورہے، مگر عالمی ماحول اِس کے لیے سازگارنہیں ۔
ظاہرہے امریکہ کی طرح بھارت ساری دنیا کے لیے اہم ترین نہیں ۔ گوبھارت ہرجگہ ٹانگ اڑانے کی کوشش میں ہے اور آجکل یونان پرکافی مہربان ہے۔ مگر بھارت و ترکیہ دوطرفہ تجارت کا دس بلین ڈالرسے تجاوز کرنا ثابت کرتا ہے کہ یہ دونوں بھی ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں۔ شاید اسی لیے پاکستان سے دوستی کے دعویدار طیب اردوان اِس کے باوجود سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے خاص طورپر نئی دہلی آرہے ہیں ،جب ایک ہفتہ قبل مودی یونان کے دورے کے دوران جامع دفاعی شراکت داری کا اعلان کرچکے ہیں بحیرہ روم میں موجود تیل و گیس کے ذخائر ترکیہ کی دسترس سے دوررکھنے کی کوششوں پر یونان ،یونانی قبرص اور اسرائیل میں کامل اتفاق تھا ۔ایسی کوششوں میںبھارتی شمولیت ترکیہ سے تجارت پراثر اندازہوسکتی ہے۔ بحیرہ روم جیسے اہم ترین حصے کی چھیالیس ہزار طویل پٹی پر 22 ممالک ہیں۔ ترکیہ کو محدود کرنے کی کوششوں کا حصہ بن کر بھارت یہاں بحری افواج رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے، مودی کے دورے سے قبل یونان کے ساتھ مشترکہ فضائی اور بحری مشقیں بحیرہ روم میں دلچسپی کی آئینہ دارہی توہیں تونہ صرف بھارت ترکیہ تعلقات پرمنفی اثرہوگا بلکہ اِس ساحلی پٹی پر آباداکثر ممالک چین کی طرف جانے کا امکان بڑھ جائے گا ۔
بھارتی کوشش ہے کہ معاشی مفادات کا تحفظ فوجی طاقت سے یقینی بنایا جائے، وہ بحیرہ ہندسے لیکر بحیرہ روم تک ایک ایساحصارقائم کرنا چاہتا ہے جس کی بدولت ہر قسم کی مداخلت سے بے نیاز ہوجائے یہی وجہ یونان اور اسرائیل سے قریب آنے کی ہے کیونکہ ایک سرے پر یونان تو دوسرے پر اسرائیل جیسا طاقتور ملک موجود ہے۔ خراب معیشت کے باوجود یونانی فضائیہ دنیا میں سولہویں جبکہ یورپی یونین میں شامل ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے جبکہ مضبوط بحیری بیڑااُس کی دفاعی اہمیت کو مزیداہم کرتا ہے لیکن یورپ جانے والی سمندری گزرگاہوں پر اجارہ داری قائم کرنے کی بھارتی کوششوں کو کیا چین نظر انداز کردے گا ؟ ایسا کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں چین کا (بی آرآئی )بیلٹ اینڈ روڈ اِنی شیٹومتاثر ہو سکتا ہے۔ بندرگاہیں حاصل کرنے کی بھارتی کوششوں پر بھی چین کی نظر ہے، اسی لیے صدر شی نے بھارت کی میزبانی میں ہونے والے جی20 جیسے اہم اجلاس میں شرکت نہیں کی تاکہ بھارت کو غیر اہم ہونے کا پیغام جائے ۔ رواں ماہ گیارہ ستمبرکو سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان بھی بھارت آرہے ہیں ۔یہ گزشتہ چار برس میں اُن کا دوسرا دورہ ہے۔ ممکن ہے 2000ء میں بل کلنٹن کی طرح چند گھنٹوں کے لیے وہ پاکستانیوں کو بھی اپنی صورت دکھادیں لیکن اُن کی نظر بھارت پرہے ۔دراصل ولی عہد اپنے ویژن2030 کے مطابق سعودی معیشت کا نحصار تیل کی پیداوارپرکم کرناچاہتے ہیں کیونکہ سعودیہ کے پاس تیل کے ذخائر محض 266ارب بیرل رہ گئے ہیں اور موجودہ رفتار سے پیداوارکی صورت میں یہ ذخائر ستربرس میںختم ہو جائیں گے۔ بھارت ہر ملک کو متاثر کرنے اور اپنی معیشت میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کی کوشش میں ہے۔ اُس کی نظریں سعودیہ کے ایک کھرب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری فنڈز پر ہے مگر سعودیہ اور ایران معاہدہ کرانے کی چال چل کر چین نے جو پہل کی ہے سرمایہ کاری حاصل کرنے کے باوجود اُس کے اثرات کم نہیں کیے جا سکتے اِس تناظر میںطاقت کے توازن پرجی 20سربراہی اجلاس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
قائد اعظم کی خوش لباسی و نفاست وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
قائد اعظم کی خوش لباسی و نفاست

بحران یا استحکام وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
بحران یا استحکام

اقبال:تصوروطنیت وقومیت وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
اقبال:تصوروطنیت وقومیت

آئینی ترمیم اور گدھوں کا کاروبار وجود منگل 17 ستمبر 2024
آئینی ترمیم اور گدھوں کا کاروبار

بھارت میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں سلب وجود منگل 17 ستمبر 2024
بھارت میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں سلب

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر