... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو، بالی وڈ میں کافی عرصہ پہلے ایک فلم ریلیز ہوئی تھی ” چینی کم”۔۔ ہم اگر بالی وڈ کے اس گیانی لکھاری کا اشارہ اسی وقت سمجھ لیتے تو آج ملک میں چینی اتنی مہنگی نہ ہوتی۔ چینی کم استعمال ہوگی تو ڈیمانڈ کم ہوگی، جب کسی چیز کی ڈیمانڈ کم ہوتو وہ چیز سستے نرخوں پر دستیاب ہوتی ہے۔ ایک خبر کے مطابق چینی، دودھ اور پتی کی ہوشربا قیمتوں کے باعث عوام کے لیے ایک کپ چائے پینا بھی محال ہوگیا ہے، مہنگائی نے چائے کے ہوٹلوں کی رونق بھی کم کردی۔مہنگائی نے عام اور خاص سبھی پاکستانیوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور ضروریات زندگی کا حصول بھی ان کے لیے مشکل ترین ہوتا جارہا ہے، دودھ، پتی اور چینی کی بڑھتی قیمتوں نے عوام سے چائے پینے کی استطاعت بھی چھین لی ہے۔چائے کے ہوٹلوں پر جہاں پہلے عوام کا ہجوم ہوتا تھا اب لوگوں کی تعداد کافی کم نظر آتی ہے، مزدور طبقہ چھوٹے ہوٹلوں اور ڈھابوں پر چائے پینے کے لیے موجود ہوتا تھا مگر اب یہ بھی تعیشات میں شامل ہوتا جارہا ہے۔اس حوالے سے ہوٹل مالکان نے بتایا کہ چینی اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ جو چائے کا کپ پہلے 60 روپے میں ملتا تھا اب وہ 70 روپے کا ہوگیا ہے، چینی، دودھ اور پتی کے علاوہ بجلی اور گیس مہنگی ہونے کی وجہ سے بھی چائے کی قیمت بڑھی ہے۔عوام کا کہنا ہے کہ چائے پینا اکثر لوگوں کی عادت ہوتی ہے جسے چھوڑنا مشکل ہے اس لیے اب کم دودھ اور کم چینی ڈال کر گزارہ کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں چینی 220 سے لے کر 230 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔
جب ہمارے پیارے دوست نے باباجی کو کہا کہ میری چائے میں ایک مکھی ہے۔۔باباجی مسکرا کر برجستہ بولے۔۔”یار! دل چھوٹا نہ کرو ایک مکھی زیادہ سے زیادہ کتنی چائے پی لے گی؟”۔جب باباجی کی زوجہ ماجدہ نے ان سے کہا۔اجی سُنو، چائے بنا لاؤں تمھارے لیے یا کافی، اور رات کو وہ تمھاری پسند کے مٹر قیمہ بنا لوں آج۔باباجی جلدی سے بولے۔۔یا اللہ خیر، کتنے چاہئیں؟۔۔(یعنی کتنے پیسے مانگنے کا ارادہ ہے)کیوں کہ باباجی کو اس بات کا اچھی طرح سے ادراک ہے کہ جب بھی زوجہ ماجدہ ”ایکسٹرا کیئر” کرنا شروع کردے تو لازمی کوئی نہ کوئی فرمائشی پروگرام ضرور چلتا ہے۔۔ایک بار باباجی اپنے فضول دوستوکے ساتھ ڈرائنگ روم میں گپ شپ کررہے تھے، اور ساتھ ہی یہ سوچ رہے تھے کہ انہیں خالی پیٹ ہی ٹرخانا ہے، زوجہ ماجدہ سمجھیں کہ پرانے سنگتی ہیں انہوں نے اسی غلط فہمی میں بیٹھک جس کو اوطاق بھی کہتے ہیں کے دروازے پر دستک دی اور بولی جی چائے کے ساتھ اور بھی کچھ بنا لاؤں اور آپ کے دوست اگر رات بھی یہی گزاریں گے تو آپ کی پسند کی بریانی اور قورمہ بنا دوں ؟؟اگر دوستو کی کوئی فرمائش ہوتو وہ بھی بھی پوچھ لیں۔۔باباجی نے جب زوجہ ماجدہ کے ارادے سنے تو لپک کر ڈرائنگ روم کے دروازے تک پہنچے اور فوراً سے پہلے دروازے کو کھول کر بولے ۔۔۔ میرے کول ہن 5تاریخ تک کوئی پیسا نہیں۔۔(باباجی جب شدیدغصے میں ہوں تو پنجابی بولنا شروع کردیتے ہیں)۔۔شوہر نے جب بیوی سے کہا۔۔چائے گرم ہی دینا تو بیوی جل کر بولی۔۔منہ میں ہی چھان دوں کیا؟؟ استاد نے شاگرد سے پوچھا۔۔بتاؤ دودھ کے دانتوں کے بعد کون سے دانت نکلتے ہیں؟؟ شاگرد کہنے لگا۔۔ جناب چائے کے دانت۔۔لڑکی نے اپنی والدہ سے پوچھا، امی مہمانوں کے لیے چائے بناؤں یا شربت؟ماں بولی۔۔ پہلے تم بنا لو پھر جو بھی بنے گا اس کو بعد میں نام دے دیں گے۔۔۔ہم نے باباجی سے سوال کیا۔۔ چائے کی پتی اور پتی (شوہر) میں کیا چیز مشترکہ ہے؟ باباجی کہنے لگے۔۔ دونوں کی زندگی میں جلنا اور ابلنا لکھا ہے وہ بھی عورت کے ہاتھوں۔
ایک صاحب نے ملازمہ سے دودھ منگوایا،وہ گلاس میں لے کر آئی تو دونوں ہاتھوں سے گلاس کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور کانپ رہی تھی، صاحب نے اسے کہا ۔۔آئندہ ٹرے میں لانا، اگلے روز ملازمہ ٹرے میں دودھ لائی۔۔اور پوچھنے لگی، صاحب جی چمچہ لے آؤں یا ایسے ہی چاٹ لیں گے۔۔باباجی نے ایک بار اپنی بیٹھک میں جمی محفل کے درمیان اچانک یہ قصہ سنایا کہ ان کی شادی اپنی زوجہ ماجدہ سے کیسے ہوئی، کہنے لگے۔۔ میں ڈائریکٹ انکل(یعنی سسر) کے پاس گیا اور بولا، انکل میں ایک لڑکی سے پیار کرتا ہوں۔ انکل نے کہا۔۔ تو اس کے باپ کو کافی پلانے لے جاؤ اور شادی کی بات کرلو۔۔ میں نے برجستہ جواب دیا۔۔ چلیں پھر انکل باقی باتیں کافی پینے کے دوران کرلیتے ہیں۔ہم تمام حاضرین اور سامعین کے منہ سے بے ساختہ قہقہہ نکل گیا۔۔ لیکن باباجی نے اپنا دایاں ہاتھ فضا میں بلند کرکے بالکل ٹک ٹاک والے بابے کی طرح کہا۔۔ ٹھہرو،رکو ذرا۔۔ ہم نے سوالیہ نگاہوں سے باباجی کی طرف دیکھا۔۔ انہوں نے کہا۔۔ پھر ہماری شادی زوجہ ماجدہ سے طے ہوگئی۔۔ جب بارات والے دن ہماری زوجہ ماجدہ کو رخصت کیا جارہا تھا تو ہماری زوجہ ماجدہ کی ایک خاتون رشتہ دار نے اسے نصیحت کی۔۔ بیٹی ایویں ایویں تھوڑا سا تو رو لو۔۔۔ جس پر وہ ماڈرن دلہن چلائی اور بولی۔۔۔ روئے وہ جو مجھے لے کر جارہے ہیں۔۔
بات ہورہی تھی چائے کی۔۔ جب ہم اور باباجی چھوٹی مارکیٹ میں چھوٹے چھوٹے شیشے کے گلاسوں میں چائے پی رہے تھے تو اچانک باباجی نے چیخ کر کہا۔۔یہ دیکھو چائے میں مکھی تیررہی ہے۔ ۔ہم نے اچک کر گلاس کے اندر جھانکا اور بولے۔۔ باباجی ،یہ بھی تو دیکھیں کتنی خوب صورتی سے تیررہی ہے۔۔ باباجی نے ویٹرکو بلاکر کہا۔۔یہ دیکھو میری چائے میں ایک مکھی ہے۔۔ ویٹر نے بڑے معصومانہ انداز میں پوچھا۔۔ اور لادوں سرجی؟؟باباجی نے غصے سے دانت پیستے ہوئے ویٹر کو گھورا اور دہاڑتے ہوئے کہا۔۔ میری چائے میں مکھی ہے۔۔ویٹرنے سر نیچے کرکے باباجی کے کان کے پاس اپنا منہ لاکر سرگوشیانہ انداز میں کہا۔۔۔سر، آہستہ بولیں، باقی گاہک بھی فرمائش کرنے لگیں گے۔۔باباجی نے اس ویٹر کو بھگایا جو شاید جگت پہ جگت کررہا تھااور کاؤنٹر پر کھڑے شخص کے پاس اپنا چائے کا گلاس لے کر چل پڑے، ہم نے بھی باباجی کا ساتھ دیا۔۔ باباجی اس کے پاس جاکر بولے۔۔یہ دیکھو چائے میں مکھی ہے۔۔وہ کہنے لگا۔۔اب اتنے چھوٹے سے گلاس میں چائے کے اندر سے مکھی ہی نکلے گی، ہاتھی تو نکلنے سے رہا۔۔ باباجی نے ہونقوں کی طرح اسے دیکھا اور دوبارہ اپنی بات دہرائی۔۔ میں یہ کہہ رہا ہوں، چائے میں مکھی گرگئی ہے۔۔ اس شخص نے برجستہ کہا۔۔اب چائے میں مکھی ہی گرسکتی ہے، جہاز تو گرنے سے رہا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ڈالر کے درجات اس لیے بلند ہو رہے ہیں، کیونکہ اس نے متعدد بار جہاد میں حصہ لیا ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔