... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو،بڑھتی مہنگائی اور تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے سے مختلف اداروں میں کام کرنے والے ملازمین مایوسی کا شکار ہونے لگے۔برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں گیلپ سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب ملازمین کا خیال نہیں رکھا جاتا تو کام سے ان کا لگاؤ بھی ختم ہوجاتا ہے اور وہ بددل ہوجاتے ہیں۔گیلپ سروے کے مطابق تنخواہ وہ پہلی چیز ہوتی ہے جس سے کوئی اپنے کام سے خوش یا ناخوش ہوتا ہے۔ ناخوش ملازمین مارکیٹ میں نئی اسامیوں کی قلت کے باعث نوکری تو نہیں چھوڑتے تاہم خاموشی سے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔سروے میں مزید کہا گیا ہے کہ کم کام کرنے اور جن کا دل کام میں نہیں لگتا ان ملازمین کی شرح 59 فیصد ہے۔ ملازمین کی جانب سے کام میں کمی کے رجحان میں اضافے کا ذمہ دار کمپنی ملازمین کا رویہ ہے۔ کچھ کمپنیاں اور مالکان یہ سمجھتے ہیں کہ لیبر مارکیٹ میں ملازمتوں کے کم مواقعوں کے باعث کنٹرول ان کے پاس ہے، ملازمین کے پاس کہیں اور جانے کا موقع نہیں اسی لیے وہ ملازمین کو مراعات نہیں دیتے جس سے ملازمین میں بد دلی بڑھتی ہے۔
گزشتہ دنوں جب ایک مذہبی جماعت نے مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کی کال دی تو ہمارے نگراں وزیراعظم نے انتہائی بھولپن سے کہا، مہنگائی تو ہے لیکن اس میں ہڑتال کرنے والی کیا بات ہے؟ اس پر باباجی نے ہمیں ایک واقعہ سنایا۔ایک قریبی عزیز کے گھر سے زیور چوری ہو گیا۔ انہوں نے ایک پیر صاحب کو حساب کتاب کے لیے گھر بلایا۔ میں گیارہ/بارہ برس کا تھا۔ پیر صاحب نے کہا، کوئی معصوم بچہ جو اڑوس پڑوس اور خاندان کے بندوں کی پہچان بھی رکھتا ہو، اس کو بلا لیں۔ قرعہ میرے نام نکلا۔ میں پیر صاحب کے سامنے حاضر، دوزانو ہو کہ بیٹھ گیا۔ پیر صاحب نے اپنے سامنے رکھے ایک طشت، جس میں ایک ا سٹیل کا گلاس، ایک پلیٹ میں کچھ گھی، کچھ کاغذ کے ٹکڑے، تعویز وغیرہ رکھے تھے، ان پہ کچھ لمبا چوڑا عمل اور پڑھائی شروع کر دی۔ کمرے میں ہم دو ہی فرد تھے۔ لائٹ بند تھی، صرف کھڑکی سے روشنی آ رہی تھی۔ میں کچھ کچھ ڈرا ہوا بھی تھا۔ گمان تھا ،شاید کوئی روح حاضر ہو گی اور ہمیں چور کے بارے میں بتائے گی۔ قریب بیس منٹ بڑبڑاہٹ کے انداز میں پڑھائی کے بعد پیر صاحب باآواز بلند کچھ پڑھنا شروع ہوگئے۔ میں ذہنی طور پہ آمادہ کہ بس اب کوئی روح قریب پہنچ چکی ہے۔ پیر صاحب نے پڑھائی روک کے ا سٹیل کے گلاس میں قریباً ایک گھونٹ پانی ڈالا اور مجھے حکم دیا کہ اپنی نظر گلاس کے پانی پہ رکھنی ہے۔ اس میں کوئی مرد یا عورت (چور) نظر آئے گا۔ اس کو پہچان لینا۔ میں چوکس ہو گیا کہ چلو کوئی روح نہیں آنے والی، بس چور کا عکس ہی نظر آئے گا پانی میں۔ پیر صاحب نے پھر سے پڑھنا شروع کیا۔ میں اپنی نظر پانی گاڑے بیٹھا رہا۔ پیر صاحب بولے، کوئی بندہ نظر آیا؟ مجھے تو کچھ نظر نہ آیا تھا۔ میں نے کہا،نہیں۔ پیر صاحب نے پھر سے بغور نظر جمانے کا حکم دے کر کچھ پڑھا اور پوچھا اب کون نظر آ رہا ہے پانی میں؟ میں نے کہا کوئی نہیں۔ پیر صاحب تھوڑے جھنجلائے اور پھر سے عمل شروع کیا۔ پھر پوچھا، بیٹا دیکھو، کوئی مرد ہے یا عورت؟ مجھے تو پانی میں اسٹیل گلاس کا پیندا ہی نظر آ رہا تھا۔ میں نے کہا کوئی نہیں ہے۔ پیر صاحب نے ٹھنڈی سانس بھر کے عمل روک دیا اور متاثرہ گھر والوں کو اندر بلایا جو بیچارے بڑی بے چینی سے چور کی شناخت ظاہر ہونے کے منتظر تھے۔ ان کو اندر بلا کے پیر صاحب نے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا۔۔۔ اے بچہ معصوم نہیں ہے۔
باباجی نے یہ واقعہ کس کی طرف اشارے کرتے ہوئے سنایا، اگر آپ پوچھیں گے تو ہم پھر بھی نہیں بتائیں گے۔۔بالکل اسی طرح جیسے ۔۔کہتے ہیں کہ ایک نہایت خوبصورت اور معصوم لڑکی ایک ہوٹل میں گئی، اور کمرہ نمبر انتالیس کی چابی طلب کرلی مگر ہوٹل کے مالک نے کہا کہ وہ کمرہ توبک ہوگیا ہے آپ کوئی اور کمرہ بک کروا لیں۔ لڑکی نے اصرار کیا کہ وہی کمرہ مجھے چاہیے، کیونکہ اس کمرے کی کھڑکی سے باہر کی تازہ ہوا لگنے کے ساتھ ساتھ باہر کی سیر وتفریح بھی ہوسکتی ہے، لیکن ہوٹل مالک نہیں مان رہا تھا اور لڑکی بھی بہت ضدی تھی۔ آخر کار ہوٹل کا مالک ہار گیا اور لڑکی جیت گئی تو کمرے کی چابی لڑکی کے حوالے کردی ۔اب لڑکی نے کہا کہ، مجھے ایک عدد بڑی چھری اور ایک سفید رنگ کے کپڑے کا تھان بھی بھجوا دیں، ہوٹل کامالک حیران ہوا مگر کچھ پوچھے بغیر اس نے یہ سب سامان بجھوا دیا۔ جب رات آئی تو رات کو لڑکی کے کمرے سے عجیب و غریب آوازیں آرہی تھیں جیسے برتن ٹوٹنے یا گرنے کی آوازیں ہوں۔ مالک بڑا پریشان ہوا ۔۔صبح لڑکی آئی کمرے کی چابی اور کرایہ دیا، مالک نے کہا ۔۔ایسے نہیں جاؤگی، پہلے مجھے کمرہ دکھاؤ۔ لڑکی نے کمرہ دکھایا تو سب کچھ ٹھیک تھا، حتی کہ چھری اور کپڑے کا تھان بھی ٹھیک تھا۔ مالک حیران ہوا مگر کچھ نہ بولا۔ مالک روز یہی سوچتا کہ آخر کیا ماجرا تھا اور پھر ہوا کچھ یوں کہ ٹھیک ایک سال بعد پھر وہی لڑکی آئی اور کمرہ نمبر انتالیس کی چابی طلب کی جو مالک نے دے دی تو لڑکی نے پھر کہا کہ مجھے ایک عدد بڑی چھری اور ایک سفید رنگ کے کپڑے کا تھان بھی بھجوا دیں۔ مالک نے کچھ پوچھے بغیر جلدی سے ایک بڑی چھری اور کپڑے کا تھان بجھوا دیا۔ جب رات آئی تو رات کو پھر ایسی ہی آوازیں آنے لگیں جو ایک سال پہلے آرہی تھی ۔صبح لڑکی آئی، کمرے کی چابی اور کرایہ دیا۔ مالک نے کہا ،ایسے نہیں جاؤ گی پہلے مجھے راز بتادو کہ یہ آوازیں کیسی تھیں؟؟ لڑکی نے کہا ،ٹھیک ہے بتا دوں گی لیکن وعدہ کرو کسی کو نہیں بتاؤگے۔۔ مالک پہلے تو بہت پریشان ہوا لیکن پھر مالک نے وعدہ کیا کہ ٹھیک ہے کسی کو نہیں بتاؤنگا۔ لڑکی نے مالک کو وہ بات بتائی اورمالک نے آج تک کسی کو نہیں بتایا۔
پوتا اور دادی صوفے پر بیٹھے آپس میں باتیں کررہے تھے، پوتا یہی کوئی دس یا بارہ سال کا ہوگا۔ پوتے نے اچانک کہا۔۔ دادی کیا ہم ہمیشہ پانچ ہی رہیں گے آپ، ابو، امی، میں اور بہن؟ دادی نے مسکرا کر پوتے کے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔ کیوں بیٹا جب تیری دلہن آئے گی تو ہم چھ ہو جائیں گے۔۔پوتے نے کہا۔۔پھر بہن کی شادی ہوجائے گی، ہم پھر پانچ ہو جائیں گے۔دادی نے پوتے کے گال پہ چٹکی کاٹتے ہوئے کہا کہ پھر تیرے گھر کاکا پیدا ہوگا ہم پھر چھ ہو جائینگے۔پوتے نے بھولپن سے کہا، پھر آپ مر جائیں گی ہم پھر پانچ رہ جائیں گے۔دادی نے پوتے کو چپل رسید کرتے ہوئے کہا۔ لخ دی لعنت تیرے حساب تے کھوتیا دفع ہو پرے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جب تعلیم کا بنیادی مقصد نوکری کا حصول ہو تو معاشرے میں نوکر ہی پیدا ہوتے ہیں،لیڈر نہیں۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔