... loading ...
ایم سرور صدیقی
بلاشبہ کہ قرآن حکیم دانائی و حکمت کا بیش قیمت خزانہ ہے یقینا اس میں غور وقکرکرنے والوںکے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ آخری الہامی کتاب نازل ہوئی تو اہل ِ عرب اس کی فصاحت و بلاغت پر ششدر رہ گئے۔ نامی گرامی شاعر و دانش ور بے اختیارکہہ ا ٹھے ۔ بلامبالغہ یہ انسانی کلام نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم سوحیں تو دماغ میں غورو فکرکے کئی دریچے اس انداز سے کھل کھل جاتے ہیں جیسے برسوں سے بندکواڑوںمیں صبح صادق کی بادِ نسیم سبک رفتاری سے دا و دماغ کو روش روشن کردیتی ہے۔ قرآن مجید علم و دانش کا مرکزو محور تو یقیناہے لیکن صرف سورہ الکوثر میں عددی معجزے نے ہی انسان کو حیران کرکے رکھ دیاہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ سورہ الکوثر قرآن کی سب سے چھوٹی سورت ہے اور اس سورہ کے جملہ الفاظ 10 ہیں، ہمیں یہ بھی ہدایت ہے کہ بہتے ہوئے پانی کو جب بھی دیکھیں دل ہی دل میں سورہ الکوثر کی تلاوت کی جائے اس کا بڑااجرو ثواب ہے چونکہ قرآن مجید بذات خود ایک معجزہ ہے لیکن جب سورہ الکوثر پر غورکریں تو عقل و شعورکا ایک نیا جہان آبادہوجاتاہے۔ سورہ الکوثرکی پہلی آیت میں 10 حروف ہیں جبکہ سورہ الکوثر کی دوسری آیت میں بھی 10 حروف ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ سورہ الکوثر کی تیسری آیت میں بھی حروف کی تعداد 10ہے یعنی تینوں آیات میں حروف کی تعداد ایکول ہے ۔اس پوری سورت میں جو سب سے زیادہ تکرار سے حرف آیا ہے وہ …حرف “ا” الف ہے جو 10 دفعہ آیا ہے اور وہ حروف جو اس سورت میں صرف ایک ایک مرتبہ آئے ہیں انکی تعداد بھی ہے ۔اس سورت ِ مبارکہ کی تمام آیات کا اختتام حرف “ر” راء پر ہوا ہے جو کہ حروفِ ہجا میں 10 واں حرف شمار ہوتا ہے ۔قرآن مجید کی وہ سورتیں جو حرف “ر” راء پر اختتام پزیر ہو رہی ہیں، انکی تعداد 10 ہے جن میں سورہ الکوثر سب سے آخری سورت ہے۔
سورہ الکوثر میں جو 10 کا عدد ہے اسکی حقیقت یہ ہے کہ وہ ذو الحجہ کے مہینے کا 10واں دن ہے جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ” فصل لربک وانحر” “پس نماز پڑھو اور قربانی کرو” وہ دراصل قربانی کا دن ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ یہ سب کچھ قرآن کریم کی سب سے چھوٹی سورت ، جو ایک سطر پر مشتمل ہے، میں آیاہے اللہ تعالی نے اسی لئے فرمایا:
“ہم نے اپنے بندے (حضرت محمدۖ) پر جو کچھ نازل کیا ہے اگر تمہیں اس میں شک ہو تو اس جیسی ایک سورت ہی لے آؤ”یقینا کوئی ایسا کرنے پر قادرنہیں ہوسکتا۔ اسی مناسبت سے دعاہے اللہ تعالی کالی کملے والا نبی آخرالزماں ۖ کے دست ِ مبارک سے ہم کو حوضِ کوثر سے ایسا مبارک پانی پلائے جسکے بعد ہمیں کبھی پیاس نہ لگے۔ آمین یارب العالمین اسی لئے یہ ناقابل یقین انفارمیشن ہے کہ قرآن حکیم کا دعویٰ ہے کہ اس میں کوئی باطل بات داخل نہیں ہو سکتی کیونکہ خدائے وحدہ’ لاشریک نے اس کی حفاظت کا دمہ خود لے رکھاہے۔ یہ بھی قرآن مجیدکاایک معجزہ ہے کہ 1400سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اس کتاب میں آج تک کوئی تحریف نہیں کی جاسکی نہ کبھی کی جاسکے گی۔ اس لئے کہ قرآن حکیم کا ایک ایک حرف اتنی زبردست کیلکولیشن اور اتنے حساب و کتاب کے ساتھ اپنی جگہ پر فِٹ ہے کہ اسے تھوڑا سا اِدھر اْدھر کرنے سے وہ ساری کیلکو لیشن درہم برہم ہوسکتی ہے جس سے الفاظ و معانی کی ترتیب بدل سکتی ہے ۔یہ بھی قرآنِ پاک کا اعجاز ہے۔ اتنی بڑی کتاب میں اتنی باریک کیلکولیشن کا دنیا کا بڑے سے بڑا کوئی رائٹر تصور بھی نہیں کرسکتا۔ قرآن کا ہر لفظ جتنی مرتبہ استعمال ہوا ہے وہ تعداد اور اس کا پورا بیک گراؤنڈ اپنی جگہ خود عِلم و عِرفان کا ایک وسیع جہان ہے۔
دْنیا کا لفظ اگر 115 مرتبہ استعمال ہوا ہے تو اس کے مقابل آخرت کا لفظ بھی 115 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ وعلیٰ ھٰذِہِ القِیاس۔مثال کے طورپر (دْنیا وآخرت:115) (شیاطین وملائکہ:88) ( موت وحیات:145) (نفع وفساد:50) (اجر و فصل108) (کفروایمان :25) (شہر:12) کیونکہ شہر کا مطلب مہینہ اور سال میں 12 مہینے ہی ہوتے ہیں ( اور یوم کا لفظ 360 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔
اتنی بڑی کتاب میں اس عددی مناسبت کا خیال رکھنا کسی بھی انسانی مصنّف کے بس کی بات نہیں، مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔اسلامی کیلنڈرکے مطابق سال میں کم وبیش اتنے ہی دن ہوتے ہیں۔ جدیدترین ریسرچ کے مطابق قرآن حکیم کے حفاظتی نظام میں 19 کے عدد کا بڑا عمل دخل ہے ۔اس حیران کن دریافت کا سہرا ایک مصری ڈاکٹر راشد خلیفہ کے سر ہے جو امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے۔1968ء میں انہوں نے مکمل قرآنِ پاک کمپیوٹر پر چڑھانے کے بعد قرآنِ پاک کی آیات ان کے الفاظ و حروف میں کوئی تعلق تلاش کرنا شروع کردیا۔ رفتہ رفتہ اور لوگ بھی اس ریسرچ میں شامل ہوتے گئے حتیٰ کہ 1972ء میں یہ ایک باقاعدہ اسکول بن گیا۔ ریسرچ کا کام جونہی آگے بڑھا اْن لوگوں پر قدم قدم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔ قرآنِ حکیم کے الفاظ و حروف میں انہیں ایک ایسی حسابی ترتیب نظر آئی جس کے مکمل اِدراک کیلئے اْس وقت تک کے بنے ہوئے کمپیوٹر ناکافی تھے۔کلام اللہ میں 19 کا ہندسہ صرف سورہ مدثر میں آیا ہے جہاں اللہ نے فرمایا:دوزخ پر ہم نے اْنیس محافظ فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے یہ تو رب ہی جانے لیکن اتنا اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ 19 کے عدد کا تعلق اللہ کے کسی حفاطتی انتظام سے ہے۔
پھر ہر سورة کے آغاز میں قرآنِ مجید کی پہلی آیت بِسم اللہ کو رکھا گیا ہے ۔گویا کہ اس کا تعلق بھی قرآن کی حفاظت سے ہے ۔کیونکہ ہم دیکھتے ہیں بِسم اللہ کے کْل حروف بھی 19 ہی ہیں۔ پھر یہ دیکھ کر مزید حیرت میں اِضافہ ہوتا ہے کہ بسم اللہ میں ترتیب کے ساتھ چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں ریسرچ کی تو ثابت ہوا کہ اِسم پورے قرآن میں 19 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ لفظ الرَّحمٰن 57 مرتبہ استعمال ہوا ہے جو319 کا حاصل ہے اور لفظ الرَّحِیم 114 مرتبہ استعمال ہوا ہے جو 619 کا حاصل ہے اور لفظ اللہ پورے قرآن میں 2699 مرتبہ استعمال ہوا ہے 14219 کا حاصل ہے ، لیکن یہاں بقیہ ایک رہتا ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ اللہ کی ذات پاک کسی حِساب کے تابع نہیں ہے ۔وہ یکتا ہے۔ قرآن مجید کی سورتوں کی تعداد بھی 114 ہے جو 619 کا حاصل ہے۔ سورہ توبہ کا آغاز چونکہ بِسم اللہ سے نہیں ہوتا ۔لیکن سورہ نمل آیت نمبر 30 میں مکمل بِسم اللہ نازل کرکے 19 کے فارمولا کی تصدیق کردی ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو حسابی قاعدہ فیل ہوجاتا۔ اب آئیے حضور علیہ السَّلام پر اْترنے والی پہلی وحی کی طرف : یہ سورہ علق کی پہلی 5 آیات ہیں :اور یہیں سے 19 کے اِس حسابی فارمولے کا آغاز ہوتا ہے!
ان 5 آیات کے کل الفاظ 19 ہیں اور ان 19 الفاظ کے کل حروف 76 ہیں جو ٹھیک 419 کا حاصل ہیں لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی، جب سورہ علق کے کل حروف کی گنتی کی گئی تو عقل تو ورطہ حیرت میں ڈوب گئی کہ اسکے کْل حروف 304 ہیں جو 4419 کا حاصل ہیں۔ انسانوںکی عقل یہ دیکھ کر حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں مزید ڈوب جاتی ہے کہ قرآنِ پاک کی موجودہ ترتیب کے مْطابق سورہ علق قرآن پاک کی 96 نمبر سورة ہے۔ اب اگر قرآن کی آخری سورة اَلنَّاس کی طرف سے گِنتی کریں تو اخیر کی طرف سے سورہ علق کا نمبر 19 بنتا ہے اور اگر قرآن کی اِبتداء سے دیکھیں تو اس 96 نمبر سورة سے پہلے 95 سورتیں ہیں جو ٹھیک 519 کا حاصلِ ضرب ہیں جس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ سورتوں کے آگے پیچھے کی ترتیب بھی انسانی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حِسابی نظام کا ہی ایک حِصّہ ہے۔ قرآنِ پاک کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورة سورہ نصر ہے ۔ یہ جان کر انسان پر پھرایک مرتبہ خوشگوار حیرت طاری ہوگی کہ اللہ پاک نے یہاں بھی 19 کا نِظام برقرار رکھا ہے ، پہلی وحی کی طرح آخری وحی سورہ نصر ٹھیک 19 الفاظ پر مشتمل ہے یوں کلام اللہ کی پہلی اور آخری سورت ایک ہی حِسابی قاعدہ سے نازل ہوئیں۔
سورہ فاتحہ کے بعد قرآن حکیم کی پہلی سورة سورہ بقرہ کی کْل آیات 286 ہیں اور 2 ہٹادیں تو مکّی سْورتوں کی تعداد سامنے آتی ہے 6 ہٹا دیں تو مدنی سورتوں کی تعداد سامنے آتی ہے۔ 86 کو 28 کے ساتھ جمع کریں تو کْل سورتوں کی تعداد 114 سامنے آتی ہے۔ آج جبکہ عقل وخرد کو سائنسی ترقی پر بڑا ناز ہے۔ یہی قرآن پھر اپنا چیلنج دہراتا ہے، دنیا کے بڑے نامی گرامی ریاضی دان ، سائنسدان، ہر خاص وعام مومن کافر سبھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ آج بھی کِسی کِتاب میں ایسا حِسابی نظام ڈالنا انسانی بساط سے باہر ہے ۔طاقتور کمپیوٹرز کی مدد سے بھی اس جیسے حسابی نظام کے مطابق ہر طرح کی غلطیوں سے پاک کسی کتاب کی تشکیل ناممکن ہوگی۔ لیکن1400 سال پہلے تو اس کا تصوّر ہی محال تھا، لہذا کوئی بھی صحیح العقل آدمی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ قرآنِ کریم کا حِسابی نظام اللہ کا ایسا شاہکار معجزہ ہے جس کا جواب قیامت تک کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔ اور قرآن میں اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ “پوچھ لو گِنتی کرنے والوں سے”۔ اس لیے مسلمانوںپرفرض ہے کہ وہ آخری الہامی کتاب کی روز تِلاوت کیا کریں۔ اپنی اپنی زبان میں ترجمہ کے ساتھ سے سمجھنے کی کوشش کریں ۔یہ جستجوآپ کو صاحب ِقرآن کے قریب لے جائے گی ۔یہ بھی دعاکرنی چاہیے کہ اللہ تبارک تعالیٰ ہمیں قرآن مجیدکو اس کے د رست مطلب اور سیاق و سباق کے ساتھ پڑھنے اورسمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے دِلوں میں ایمان کو سلامت رکھے اور نبی آخرالزماںۖ کی محبت ہمارے دلوںمیں فروزاں کرے۔ آمین یارب العالمین۔(ماخوذ)