... loading ...
معصوم مرادآبادی
ہندوؤں اور مسلمانوں درمیان نفرت کا زہرپھیلاکر سیاسی روٹیاں سینکنے والوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اس عمل کا انھیں بہت فائدہ پہنچ رہا ہے، لیکن درحقیقت نفرت کی یہ سیاست بہت بھاری پڑرہی ہے اورملک کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے ۔ ایک ایسے زمانے میں جب پوری دنیا میں مفاہمت اور مذاکرات کا دور جاری ہے ، ہمارے ملک میں سرگرم فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں ٹکراؤ اور تصادم کو ہی راہ نجات سمجھتی ہیں اور وہ مسلسل ایسی حرکتیں کررہی ہیں، جن سے ملک میں خوف وہراس پھیل رہا ہے ۔گزشتہ ہفتہ اترپردیش کے مظفرنگر کے ایک اسکول میں ایک کمسن مسلم طالب علم کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ دراصل اسی منافرانہ سیاست کا نتیجہ تھا۔اس واقعہ سے عالمی سطح پر ملک کی جو بدنامی ہوئی ہے ، اس کی مثال حالیہ عرصے میں نہیں ملتی۔اس واقعہ نے چندریان 3کی حصولیابی کو بھی پھینکا کردیا۔
گزشتہ بدھ کو ہندوستان کے خلائی سائنسدانوں نے ایک ایسی تاریخ رقم کی جس سے ہر ہندستانی کا سرفخر سے بلند ہوگیا۔خلائی تحقیق کے مرکزی ادارے اسرو نے چندریان 3 کو چاند کے اس حصے پر اتارنے میں کامیابی حاصل کی، جہاں ابھی تک کسی بھی ملک کے قدم نہیں پہنچے تھے ۔ اس طرح امریکہ، چین اور روس کے بعد ہندوستان چوتھا ملک بن گیاہے جو چاند کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا۔ حقیقتاً یہ اتنی بڑی حصولیابی تھی کہ پوری دنیا میں دھوم مچ گئی اور دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے ہندوستانی خلائی سائنسدانوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ کئی غیرملکی سربراہوں نے اس حصولیابی کے لیے ہندوستان کو مبارکباد دی، لیکن اس واقعہ کو ابھی دودن بھی نہیں گزرے تھے کہ ہندوستان سے متعلق ایک اور خبر عالمی ذرائع ابلاغ کا حصہ بنی جس نے ہندوستان کو شرمندگی اور ندامت سے دوچارکیا۔ یہ خبر تھی ضلع مظفر نگر کے ایک اسکول کی، جہاں ایک متعصب خاتون ٹیچرنے ایک مسلمان بچے کو ہندو بچوں سے پٹواکر اور مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز جملے ادا کرکے ہندوستان کو پوری دنیا میں شرمسار کردیا۔ یہ معاملہ مظفر نگر کے دوردراز گاؤں کا ضرور تھا لیکن اس نے ملکی اور عالمی پیمانے پر جو شہرت حاصل کی، وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ایک کمسن بچے کے ساتھ اس کے مذہب کی بنیاد پر ناروا سلوک ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کے مذہب والوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ظاہر ہے اس عمر میں بچوں کو نہ تو اپنے مذہب کے بارے میں زیادہ معلومات ہوتی ہیں اور نہ ہی وہ تعصب اور تنگ نظری کے بارے میں جانتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں جس وسیع پیمانے پر سماج میں نفرت گھولی گئی ہے اور جس طرح مسلمانوں کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوششیں کی گئی ہیں، اس کے اثرات بہت دور تک مرتب ہوئے ہیں اور اب مسلمان کہیں بھی خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے ۔ضلع مظفر نگر کے نیہا پبلک اسکول میں جو کچھ ہوا وہ اچانک نہیں تھا، بلکہ اس کی آبیاری برسوں سے کی جارہی ہے ۔ سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ حکومت کی وہ مشنری جس کا کام بلا تفریق مذہب وعقیدہ سب کے ساتھ انصاف کرنا ہے ، کھلے عام جانبدارانہ طرزعمل اختیار کررہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کمسن بچے کو اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا نشانہ بنانے والی ٹیچر ترپتا تیاگی کے خلاف تو ایسی معمولی دفعات کے تحت مقدمہ قایم کیا گیا ہے جس میں اس کی فوری ضمانت بھی ہوگئی،جبکہ اس واقعہ کی ویڈیو کو عالمی ذرائع ابلاغ تک پہنچانے والے فیکٹ چیکر محمد زبیر کے خلاف زیادہ سنگین دفعات کے تحت مقدمہ قایم کرلیا گیا ہے ۔زبیر پر الزام ہے کہ اس نے بچے کی شناخت ظاہر کرکے بچوں کے تحفظ سے متعلق قانون کی سنگین خلاف ورزی کی ہے ۔جس وقت یہ واقعہ منظرعام پر آیا تھا تو اسی وقت چاروں طرف سے یہ مطالبات کئے جانے لگے تھے کہ خاطی ٹیچر کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جانی چاہئے ، لیکن اس خاتون ٹیچر کے عمل کی مذمت کرنے کے باوجود حکمراں طبقہ کے لوگ اس کے دفاع میں آگئے کیونکہ معاملہ ایک مسلمان بچے کا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں یہ خاتون ٹیچر حکمراں جماعت کی کوئی اہم لیڈر بن جائے اور اسے الیکشن کے میدان میں بھی اتاردیا جائے ۔ دراصل اس ملک میں نفرت کا کاروبار اسی لیے پھل پھول رہا ہے کہ اس قسم کے زہریلی ذہنیت والے عناصر کو ایک فاسد سیاسی سوچ تحفظ فراہم کر رہی ہے ، جبکہ اس کے برعکس اگرکہیں کسی مسلمان سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اسے سخت ترین سزا دی جاتی ہے ۔ اس کا ایک ثبوت مدھیہ پردیش کے دموہ علاقہ کا واقعہ ہے ۔ وہاں ایک مسلم اسکول پر محض اس لیے بلڈوزر چلا کراسے نیست ونابود کردیا گیا کیونکہ بعض شرپسندوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس اسکول میں غیرمسلم بچیوں کو حجاب پہننے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ حالانکہ اس اسکول میں 70 فیصد مسلم اور30 فیصد غیر مسلم بچیاں زیرتعلیم تھیں۔ واضح رہے کہ حجاب اسکول یونیفارم کا حصہ تھا اور غیرمسلم بچیوں پر اس معاملے میں کوئی جبر نہیں تھا۔ اس اسکول میں 1200 طالبات زیرتعلیم تھیں، لیکن کسی تحقیق کے بغیر اسکول پر بلڈوزر چلاکر اسے منہدم کردیا گیا، لیکن مظفر نگر کے نیہا پبلک اسکول کے معاملے میں انتظامیہ کا رویہ بہت محتاط ہے اور اس کی منظوری ختم کرنے پر ابھی تک غور ہی کیا جارہا ہے ۔
وزیراعظم نریندر مودی کی سنئے تو ایسا محسوس ہوگا کہ ملک میں ہرطرف ترقی اور خوشحالی کا دور دورہ ہے ۔ ملک میں کہیں بھی کوئی شورش اور بے چینی نہیں ہے ۔ انھوں نے چندریان 3کی کامیابی پر جو بیانات دئیے ہیں، ان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ انھوں نے چاند کے اس مقام کا نام بھی ‘شیوشکتی استھل’ رکھ دیا ہے جہاں چندریان3 کی لینڈنگ ہوئی ہے ۔ اسی سے تحریک پاکر آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے صدر سوامی چکر پانی نے چاند کو ‘ہندو راشٹر’ قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پارلیمنٹ میں قرار داد پاس کرکے چاند کو ہندو سناتن راشٹر قرار دیا جائے ۔اتنا ہی نہیں انھوں نے یہ بھی کہا کہ چندریان3 کی لینڈنگ کے مقام ‘شیوشکتی استھل’ کو ہندو راشٹر کی راجدھانی کے طورپر تیار کیا جائے تاکہ ‘جہادی ذہنیت کا حامل’ کوئی دہشت گردوہاں نہیں پہنچ سکے ۔یہ اور اس قسم کے مضحکہ خیز بیانات ہندوستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں۔ افسوس کہ اس قسم کے عناصر پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت ملک میں نفرت کی تیز ہوائیں چل رہی ہیں۔مسلمان اس کا خاص نشانہ ہیں۔ جس روز چندریان 3کی لینڈنگ ہوئی اس دن مشرقی دہلی کے ایک سرکاری اسکول میں بھی مظفر نگر جیسا واقعہ ہوا۔ یہاں ایک متعصب ٹیچر نے نویں کلاس کے مسلم طالب علموں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان قائم کرکے قابل اعتراض باتیں کہیں۔ مذکورہ ٹیچر کے خلاف چار مسلم طلباء نے ایف آئی آر درج کرائی ہے ۔حالانکہ چندریان 3 کی کامیابی کا جشن مسلمانوں نے بھی برادران وطن کے ساتھ جوش خروش کے ساتھ منایا۔ یہاں تک کہ لینڈنگ کے دن کئی مسجدوں میں خصوصی دعاؤں کا بھی اہتمام کیا گیا، مگر جن لوگوں کی ذہنیت خراب ہے ،وہ اسی قسم کے اعتراضات درج کراتے رہیں گے ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ایک طرف تو ہمارے وزیراعظم ہندوستان کو ‘وشوگرو’ بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ وہ آئے دن یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندوستان جلد ہی دنیا کی بڑی معیشت بن جائے گا۔لیکن زمینی صورتحال سے انھوں نے مکمل چشم پوشی اختیار کررکھی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ چندریان 3 کی کامیاب لینڈنگ سے ہندوستان کو جو سربلندی نصیب ہوئی تھی ، اسے مظفر نگر کے واقعہ نے بہت چوٹ پہنچائی ہے ۔ ہندوستان کی حصولیابیوں اورترقیات کو پلیتہ کون لگا رہا ہے ، یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے ۔فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کو اگر یونہی چھوٹ حاصل رہی تو ملک کو اور برے دن دیکھنے پڑیں گے ۔
٭٭٭