... loading ...
ریاض احمدچودھری
مصر میں حضرت موسیٰ اور فرعون کے درمیان جو حق و باطل کی کشمکش جاری تھی وہ صدیوں کے بعد آج بھی مصرمیں اسلام اور الحاد کے درمیان جاری ہے۔ اخوان المسلمین کے بانی سید حسن البناکو انگریزوں کی سازش کے نتیجے میں شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد اخوان المسلمین کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف مصر کے حکمرانوں کا ظلم و جبر جاری رہااور اب تک اخوان المسلمین کے چوٹی کے بے شمار رہنماؤں کو نفاذاسلام کی جدوجہد کرتے ہوئے موت کی سزائیں دی جارہی ہیں۔ا ن میں ایک عظیم رہنما سید قطب شہید بھی ہیں جن کی شہادت 29 اگست 1966 کو ہوئی۔
سید قطب شہید مصرمیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکہ چلے گئے۔ جہاں انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ کافی عرصے تک تعلیم و تربیت کے شعبے سے وابستہ رہے۔سید قطب شہید نے بارہاقرآن پاک پر غور و فکر کے بعد اپنے تاثرات و مشادات قلمبند کیے اورکئی جلدوں پر مشتمل قرآن پاک کی نہایت عمدہ اور انقلابی تفسیرفی ظلال القرآن (قرآن کے سائے میں)لکھی اور اس کا پاکستان میں بھی اردو میں ترجمہ ہوا ہے جبکہ دنیا کی کئی اور زبانوں میں بھی اس تفسیر کا ترجمہ ، کالم شائع ہو چکے ہیں۔ یوں تو سید قطب شہیدکئی کتابوں کے مصنف ہیں مگر ان کی عربی میں معرکة آرا کتاب ”المعالم فی الطریق”ہے اور دنیا بھر میں مختلف زبانو ں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ پاکستان میں یہ اہم کتاب (جادہ و منزل)کے نام سے شائع ہوئی ہے اور عربی زبان کے ممتاز ماہر محترم خلیل احمد حامدی مرحوم نے اس کا سلیس اردو ترجمہ کیا ہے ۔ اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ بھارت میں ایک ماہر لسانیات نے بھی اس کا بہت عمدہ ترجمہ کیا ہے اور یہ کتاب نقوش راہ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ راقم الحروف کو بھی اس کتاب کے پبلشر نے کچھ کتابیں تحفة دیں جو میںنے مختلف اصحاب علم کو بھیج دیں۔
مصر میں جمال عبدالناصر کے زمانے میں اخوان رہنماؤں کے خلاف ظلم و جبر کا دور شروع ہوا تو سید قطب کو بھی گرفتار کیا گیا انہیں کافی عرصہ جیل میں رکھا گیا۔ ان پر جمال عبدالناصر پر حملے کا الزام عائد ہوا۔ لیکن ان کا اصل جرم اس کتاب کی تصنیف ٹھہرا۔ یہ معرکة آرا کتاب ہے جس میں اسلام کو ایک انقلابی دین کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مصنف سید قطب شہید لکھتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل اور انقلا بی نظام حیات پیش کرتا ہے۔ نیز یہ کہ اسلام غالب ہو کر رہنے والا دین ہے۔ سید قطب کا اصل جرم یہی تھا کہ انہوں نے اسلام کو مکمل دین کے طور پر پیش کیا جو زندگی کے تمام شعبوں میں لحدتک مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ سید قطب کے خلاف جو مقدمہ ہوا اس میں یہ بھی الزام لگایا گیا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودیکی طرح اسلام کو مکمل دین کی صورت میں پیش کیا اور المعالم فی الطریق مولانا مودودی کے نظریات سے مماثلت رکھتی ہے۔ جمال عبدالناصر کی نام نہاد عدالت نے سید قطب کو موت کی سزا سنائی اور جب انہیں تختہ دار کی طرف لے جایا گیاتو ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور ان کے آخری الفاظ یہ تھے کہ مجھ پر ظلم کرنے والوں کو معاف کر دیاجائے۔ میں نے اسلا م کو مکمل دین کے طورپر پیش کرنے کا حق ادا کیا ہے۔ مجھے موت کی سزا پانے میں کوئی افسوس نہیں ہے۔ اس کے بعد اخوان کے بہت سے رہنماؤں کو موت کی سزائیں دی گئیں۔
مصرکی تاریخ میں پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کوبھی جیل میں شہید کر دیا گیا۔ ڈاکٹر محمد مرسی نے امریکہ سے انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی تھی اور اس کے ساتھ وہ اسلام کے بہت بڑے سکالر تھے۔ انہوں نے مصر میں پہلی بار اسلامی اصولو ںکی بنیاد پر آئین تیار کیاجسے مصر کی پارلیمنٹ نے دو تہائی اکثریت سے پاس کیا۔ بعد ازاں انہوں نے اسرائیل پر عوام سے ریفرنڈم کرایا تو بھی مصر کے عوام کی واضح اکثریت نے اس آئین کی تائید و توثیق کی۔ڈاکٹر محمد مرسی شہید بڑی واضح اکثریت کے ساتھ مصر کے صدر منتخب ہوئے اور عرب ممالک کے حکمرانوں کو خدشہ تھا کہ مصر میں نفاذ اسلام اور جمہوریت کی جو لہردوڑ رہی ہے اس کے اثرات تمام عرب ممالک پر پڑیں گے اور عرب حکمرانوں کا آمرانہ نظام ختم ہو جائے گا۔ چنانچہ امریکہ، اسرائیل ، مصر اور دیگر تمام عرب ممالک نے سازش کے ذریعے ڈاکٹر محمد مرسی شہید کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور مصر کے جنرل السیسی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ جنرل السیسی کو ڈاکٹر محمد مرسی نے ہی آرمی چیف تعینات کیا تھا۔السیسی یہودی ماں کے بیٹے ہیں جن کی اسرائیل اور دیگر ممالک میں پرورش اور تعلیم و تربیت ہوتی رہی۔ السیسی کے ماموں اسرائیل کے وزیر بھی رہے۔
مصر میں جب جمال عبدالناصر کے دور میں اخوان رہنماؤں کے خلاف ظلم و ستم کا دور جاری تھا تو راقم الحروف نے1966میں مصر میں فرزندان اسلام پر استبداد کے نام سے کتابچہ لکھا جو ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوا اورساٹھ کی دہائی میں اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوتے رہے۔ یہ کتابچہ ہندوستان پاکستان میں لاکھوں لوگوں نے پڑھا۔اس زمانے میں مشرقی پاکستان چٹاگانگ میں ریلوے کے ایک اعلیٰ افسر تھے جنہوں نے یہ کتابچہ پڑھا تھا۔یہ کتابچہ بڑی تعداد میں مکہ معظمہ میں رابطہ عالم اسلامی اور معتمر عالم اسلامی کے ہیڈ کوارٹر اور رہنماؤں کو بھی بھیجا گیا۔
راقم الحروف کیلئے یہ مقام شکر ہے کہ اس کتابچہ کے ٹائٹل پر رابطہ عالم اسلامی کی مہر ثبت تھی تو اس کی کاپیاں اس وقت کے رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل محترم محمد علی القان کی جانب سے کراچی میں سعودی عرب کے سفارتخانے میں بھیجی گئیںجن پر رابطہ عالم اسلامی کی مہریں لگی ہوئی تھیں۔کراچی میں مقیم سعودی عرب کے کونسل جنرل محترم الفتح الفتانی نے راقم الحروف کو ایک کاپی تحفت پیش کی۔میں کراچی سے ملتان آنے کیلئے تیز گام کے فرسٹ کلاس سلیپر میں اپنی سیٹ ریزرو کرا رکھی تھی اور الفتح الفتانی اور دیگر سفارتی نمائندوں کے ساتھ مجھے الوداع کہنے کیلئے موجود تھے۔ کراچی کینٹ کے سپرنٹنڈنٹ نے راقم الحروف سے کہاکہ پاکستان کے ریلوے کے لیگل ایڈوائزر تیز گام سے لاہور جا رہے ہیں اور وہ اسی کوپے میںسفر کریں گے جس میں آپ کی نشست ہے۔ ازراہ کرم ہمارے لیگل ایڈوائزر کے مخصوص کردہ ڈبے کی بجائے ہم آپ کیلئے کسی اور ڈبے میں انتظام کر دیتے ہیں ۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرا سامان رکھا جا چکا ہے اور میں اس ڈبے میں سفر کروں گا۔ یوں مجھے ریلوے کے لیگل ایڈوائزر کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا۔میں سفر کے آغاز پر وضو کرکے نماز ادا کرنے لگا ۔ کتابچہ ڈبے کے ٹیبل پر رکھا تھا اور لیگل ایڈوائزر نے یہ کتابچہ دیکھا۔جب راقم الحروف نے سلام پھیرا تو اس آفیسر نے مجھ سے کہا کہ یہ کتابچہ مجھے تحفت عنایت کر دیں۔ میںنے کہا میرے پاس ایک ہی کتابچہ ہے تو اس نے بتایا کہ جب وہ چٹاگانگ میں قیام پذیر تھے تو انہوں نے یہ کتابچہ پڑھا تھا اور اس پر رابطہ عالم اسلامی کی مہر لگی ہوئی ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے آیا ہے۔ میں اسے حاصل کرنا سعادت سمجھتا ہوں۔راقم الحروف نے یہ کتابچہ ان کو دے دیا۔ جب میں نے ان کو بتایا کہ یہ کتابچہ میرا لکھا ہوا ہے توبہت خوش ہوئے اور انہوں نے پرجوش طریقے سے میرے ساتھ مصافحہ کیا۔ مجھے ملتان اترنا تھا اور پورے سفر کے دوران اخوان مسلمین کے خلاف ظلم و جبر اور استبداد کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی۔
ناکردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را