وجود

... loading ...

وجود

آئی پی پی سے مہنگے معاہدے عوام کو لے ڈوبے

بدھ 30 اگست 2023 آئی پی پی سے مہنگے معاہدے عوام کو لے ڈوبے

ریاض احمدچودھری

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ واپڈا پاکستانی قوم پر ڈرون حملے کررہا ہے۔ ساری دنیا میں امیروں سے لے کر غریبوں کو دیا جاتا ہے، پاکستان میں غریبوں سے لے کر امیروں کو دیا جاتا ہے۔ ایک طرف لوگ بھوکے سوتے ہیں اور دوسری طرف مراعات یافتہ طبقے کو 17ارب ڈالر کی مراعات دی جاتی ہیں۔ ہم آئی پی پی کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی چاہتے ہیں۔ ہم سولر پر ٹیکسوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ مفت بجلی استعمال کرنے والے سرکاری ملازموں کی اس سہولت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بیوروکریسی، وزیر مشیراربوں کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمن،امیرجماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ بجلی کے بلوں میں اضافے ، ظالمانہ ٹیکسز کے خلاف عوام میں شدید غم و غصہ پایا جارہا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم فیصلہ کریں نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بجلی کے بلوں میں ظالمانہ اضافہ اور ناجائز ٹیکسز فوری واپس لیںاور پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کریں ۔تنخواہ دار ملازمین کے ساتھ جاگیردار وں اور وڈیروں پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے ۔سرکاری افسران اور اعلیٰ عہدیداران کی مراعات ختم کی جائے۔ لوگ اب سڑکوں پر آچکے ہیں،اگر اضافہ واپس نہ لیا گیا تو حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی ۔ انہوں نے عوام سے اپیل ہے کہ جماعت اسلامی کے مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا حصہ بنیں، کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اسی ضمن میں جناب سراج الحق،امیر جماعت اسلامی نے بجلی بلوں میں ظالمانہ اضافہ کے خلاف 2ستمبر( ہفتہ) کو ملک گیر ہڑتال کی کال دیتے ہوئے کہا کہ کرپٹ حکومتوں نے کمیشن کیلئے کوئلہ، فرنس آئل اور گیس سے بجلی پیدا کرنے کے مہنگے معاہدے کیے۔ پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی سابقہ حکومتوں نے آئی ایم ایف سے معاہدے کرکے عوام کے لیے بارودی سرنگیں بچھائیں۔ ان معاہدوں کا نتیجہ تھا کہ نگران کابینہ کی تشکیل سے قبل ہی پٹرول کی قیمت میں 20روپے لٹر اضافہ کردیاگیا۔وکلا و تاجر تنظیموں نے بھی ہڑتال کی حمایت اور اس میں شرکت کا اعلان کیا ہے۔
کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام بجلی کے بلوں میں ظالمانہ اضافے کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔حکومت ظالمانہ اضافے کے خلاف اپنا کوئی کردار ادا نہیں کررہی ۔نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی دانشوارانہ باتوں سے لوگوں کے بجلی کے بل جمع نہیں ہوسکتے۔ متوسط طبقہ سے وابستہ لوگوں کے لیے بجلی کے بھاری بل جمع کروانا مشکل ہوگیا ہے۔دوسری طرف حکمران طبقے میں 90فیصد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کبھی بھی پیٹرول اور بجلی کے بل اپنی جیب سے جمع نہیں کروائے،یہی طبقہ 5ارب روپے کی بجلی مفت استعمال کررہا ہے،حکمران طبقہ جتنا جلد نوشتہ دیوار پڑھ لے اتنا اچھا ہے۔ بجلی کی قیمتیں بڑھنے کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں جو احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اس سے واضح طور پر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عوام اب اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ سے تنگ آچکے ہیں، لہٰذا وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ حکمران ہوش کے ناخن لیں ایسا نہ ہو کہ عوام گھروں سے نکل کر محلوں کا رخ کریں اور بیرون ملک جانے کا موقع بھی نہ مل سکے۔ حکمرانوں کے لیکچر اب بے اثر ہوچکے ہیں ۔ حکمران طبقہ عوام پر آئی ایم ایف کی ایماء پر بجلی بم گرارہا ہے لیکن ان کی عیاشیاں ختم نہیں ہورہی۔ اس وقت ملک میں معاشی ادارے نہیں طاغوتی ادارے کام کررہے ہیں جو 76سال سے ملک پر مسلط ہیں ۔ عوام دشمن فیصلوں کے نتیجے میں شہریوں کے لیے زندگی گزارنا مشکل کردی گئی ہے۔ 70سال میں اربوں روپے ڈالر ز کے قرضے لینے والوں نے ملک کو تباہ و برباد کردیا ۔حکمران عوام پر اربوں روپے کا بوجھ ڈال کر کہتے ہیں کہ عوام قربانیاں دیں۔حکمران بتائیں کہ عوام تو 70سال قربانیاں دے رہی ہے ، حکمران بتائیں کہ انہوں نے کتنی قربانیاں دیں،عوام جاننا چاہتے ہیں کہ ملک میں موجود بیوروکریٹ، عدلیہ ، اعلیٰ افسران نے کتنی قربانیاں دیں۔
یہ صورتحال ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہے اور اس کی تمام تر ذمہ داری اشرافیہ پر ہے جو سیاسی قیادت سے گٹھ جوڑ کر کے اپنے لیے ہر طرح کی سہولیات اور مراعات کا راستہ نکال لیتی ہے اور عوام کے مسائل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ نگران حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر عوام کے جائز مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں ریلیف فراہم کرے ورنہ حالات اس حد تک بگڑ سکتے ہیں کہ پھر وہ کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔ گریڈ17 سے 21 تک کے پندرہ ہزار آٹھ سو اکتہر ملازمین ماہانہ 70 لاکھ یونٹس بجلی استعمال کرتے ہیں جبکہ گریڈ ایک سے سولہ تک کے ایک لاکھ تہتر ہزار دو سو ملازمین ماہانہ 33 کروڑ یونٹس استعمال کرتے ہیں۔مفت میں ملازمین کو فراہم کی جانے والی بجلی اور گیس کے پیسے صارفین سے وصول کئے جاتے ہیں۔
دو ہفتے پہلے تک حکومت کے مزے لینے والی پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار میں ہوتے ہوئے عوام کا ہرگز کوئی احساس نہیں تھا اور ان کی جانب سے ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے طرح طرح کے جواز پیش کیے جاتے تھے لیکن اب اقتدار کے ایوانوں سے نکلنے کے بعد ان جماعتوں کے رہنما کہیں تو اپنے کارکنوں کو بجلی کے بلوں کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے عوامی احتجاج میں شرکت کی ہدایت کررہے ہیں۔ سولہ مہینے تک جب یہ لوگ حکومت میں تھے اس وقت ان کی کارکردگی نے پوری طرح واضح کردیا کہ انھیں عوام کا کتنا احساس ہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
یہ جنگ اسرائیل کو مہنگی پڑے گی! وجود بدھ 30 اکتوبر 2024
یہ جنگ اسرائیل کو مہنگی پڑے گی!

محتاط جواب وجود بدھ 30 اکتوبر 2024
محتاط جواب

بھارتی مسلمانوں کے گھر مسمار وجود بدھ 30 اکتوبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر مسمار

آئینی ترامیم پر عالمی اداروں کی شدید تنقید وجود منگل 29 اکتوبر 2024
آئینی ترامیم پر عالمی اداروں کی شدید تنقید

پاک بھارت خوشگوار تعلقات کشمیر کے حل سے مشروط وجود منگل 29 اکتوبر 2024
پاک بھارت خوشگوار تعلقات کشمیر کے حل سے مشروط

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر