... loading ...
سمیع اللہ ملک
انسان جب زمین پربڑا بن کربیٹھ جاتاہے توپھرتاریخ اس کے تکبرپرگواہی دینے لگتی ہے۔ اپنے اس زعم اور جاہ وجلال پرخود شہادت دیتا ہے۔ اس کائنات میں جس کسی نے اپنے بڑے ہونے،مالک ہونے،فرمانرواہونے اورسیاہ وسفیدپرحکمران ہونے کادعویٰ کیا اس نے کبھی بھی اپنے آپ کومعبود،پیداکرنے والا،زندگی اور موت دینے والانہیں کہا۔ بیماریوں اورآفتوں کونازل کرنے والانہیں گردانابلکہ ہمیشہ اس کا دعویٰ ایک ہی رہتاہے اور وہ یہ کہ لوگ مجھ سے روٹی کپڑااورمکان مانگتے ہیں اورمیں روٹی کپڑااور مکان دینے والا ہوں۔حیرت کی بات ہے کہ ان سب چیزوں کاذمہ اس مالک کائنات نے اپنے ذمے لے لیااورانسانوں کواس زمین پرعدل کرنے،حقدارکو حق لوٹانے کی ذمہ داری سونپ دی۔ قرآن فرعون کے دعوے کوبیان کرتے ہوئے اس کاایک تصور بتاتاہے کہ وہ تخت وتاج کا وارث بن کر،وسائل کامالک ہو کر،بس ایک دعوی کربیٹھ”اناربکم الاعلیٰ”میں بہترین پالنے والاہوں۔ یعنی میں بہترین روٹی کپڑااورمکان دینے والاہوں۔یہی نہیں بلکہ اللہ ایسے سب انسانوں،جواپنی ضروریات کی طلب ایسے انسانوں سے کرتے ہیں،ان کے سامنے اپنے مطالب لے کرجاتے ہیں، انہیں کے بارے میں یہ تصور بنالیتے ہیں کہ وہ انہیں یہ سب ضروریات فراہم کریں گے،ا ن سے بے پرواہ ہوجاتاہے،منہ پھیر لیتا ہے۔ اس کی ذمہ داریوں کی تقسیم بڑی واضح ہے۔وہ جسے دولت سے نوازتاہے،اسے بتادیتاہے کہ میں نے تمہیں اپنے حصے کے ساتھ بہت سے دوسرے مسکینوں،یتیموںاورکمزوروں کابھی حصہ رکھ دیاہے۔اس لیے دیکھوانصاف کرنا،ان کاحق نہ مارنا،ان کاحصہ نہ کھانا، تمہارا سارا امتحان اس بات پرہے کہ تم اس نعمت کے ساتھ کتناعدل کرتے ہو۔ جن کوحکمرانی عطاکرتاہے انہیں کہیں یہ نہیں کہتاکہ تم کومیں نے اس ملک میں روٹی ،کپڑااورمکان کاٹھیکیداربناکربھیج دیاہے۔ بلکہ قرآن با بارانہیں صرف ایک چیز کی تلقین کرتاہے، دیکھو زمین پرعدل قائم کرو۔انصاف کے ساتھ فیصلے کرو۔حق دارکوحق دلا۔
سیدالانبیاۖنے اپنے ایک فرمان میں ان سات لوگوں کے بارے میں بتایا کہ روزقیامت جب زمین سورج کی تپش سے کھول رہی ہوگی کسی جانب کوئی سایہ نہ ہوگاتواللہ جن سات لوگوں کواپنے تخت کے سائے کے نیچے پناہ دے گا ان میں سب سے پہلے عادل حکمران کا نام آتاہے ۔ کسی مولوی،کسی پیر،کسی عالم کاتذکرہ نہیں بلکہ صفات کی بنیادپراس تخت الہٰی کاسایہ نصیب ہوگا۔ان میں وہ شخص بھی شامل ہے جو اللہ کیلئے دوستی اور اللہ کیلئے دشمنی کرے۔وہ نوجوان جسے کوئی عورت گناہ کی طرف راغب کرے اوروہ کہے میں اللہ سے ڈرتاہوں۔وہ شخص جس کادل مسجد میں اٹکارہے۔یہاں کسی ایسے حکمران کا،لیڈرکا،رہنماکاذکرتک نہیں جویہ دعویٰ کرے کہ میں لوگوں کورزق فراہم کرتا ہوں اورایسے لوگوں کیلئے توٹھکانہ ہی اورہے جواپنی ضروریات،حاجتیں اللہ کے دروازے سے طلب کرنے کی بجائے مطالبات انسانوں کی چوکھٹ پرلے جاتے ہیں۔مذاہب کی تاریخ ایک طرف دنیامیں جہاں کسی مقبول اوربہترین حکمران کاتذکرہ ملتاہے،وہاں بات یوں شروع ہوتی ہے۔ایک تھا بادشاہ ،بہت انصاف پسند،لوگوں کے درمیان عدل کرتاتھا۔اس کے دور میں شیراوربکری ایک گھاٹ پرپانی پیتے تھے۔لیکن جہاں کسی ظالم ،جابر،آمر،فرعون کاذکر ہوتاہے،وہاں پہلی صفت بے انصافی،ظلم،بربریت ہوتی ہے۔
بڑے بڑے لوگ حق غصب کرکے ،لوگوں کامال لوٹ کر،انہیں قتل کرکے عدالتوں سے بچ نکلتے ہیں۔ اس لئے کہ عدالتیں ان کی محکوم ہوتی ہیں۔سرکاردوعالمۖنے فرمایاتم سے پہلے قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ”جب کوئی عام آدمی جرم کرتاتوسزاپاتااورجب کوئی بڑاجرم کرتا تواسے معاف کردیاجاتا”۔یہ معافی خاندانی وجاہت کی وجہ سے بھی ہوتی اوراس کی سیاسی حیثیت کی وجہ سے بھی یاپھر اس سے مفاہمت اورمصالحت کے طورپربھی۔ اللہ کاغضب اورقہرانہی قوموں اورانہی حکمرانوں پرنازل ہوا۔ جنہوں نے رب یعنی پالنے والا ہونے کادعویٰ کیایاپھرعدل کی بجائے ناانصافی اورظلم کی بنیادپرحکمرانی کی اورعذاب کی وعیدسنائی۔ان لوگوں کیلئے جو اس کائنات میں اپنے مطالبات رزق انسانوں کی چوکھٹ پر لے گئے۔یہ دعویداراورایسے مطالبے اللہ کے غضب کیلئے کافی ہواکرتے ہیں۔ وہ عدل نہ کرنے پر تو حکمران کا گریبان پکڑنے کیلئے کہتاہے لیکن روٹی ،کپڑااورمکان نہ دینے پر نہیں ۔کیونکہ اللہ خوب جانتاہے اور فرماتاہے: اے انسانوں تم سب اللہ کے آگے فقیرہواورخدا بے پروا سزاوار(حمد وثنا) ہے ”۔اسے معلوم ہے کہ یہ ایک فقیرسے سب کچھ طلب کر رہے ہیں۔ ہمیں اللہ نے حکمرانی عطاکی کہ ہم اس زمین پرعدل وانصاف نافذکریں اورپھر رزق کی،خوشحالی کی اور بہترزندگی کی امید اس سے لگادیں۔لیکن ہم امیدیں بھی انہی سے لگاتے ہیں جودعویٰ کرتے ہیں کہ اس زمین کوعدل نہیں چاہئے،روٹی،کپڑااورمکان چاہئے۔ انہیں علم ہی نہیں اور یقینا نہیں،ورنہ آثارقدیمہ کے جابجابکھرے ہوئے کھنڈرات دیکھ لیں ۔ جن زمینوں پر،جن علاقوں اورحکومتوں میں عدل وانصاف نہیں وہاں بڑے بڑے محل نما مکان بس ایک آن کی آن میں زمین بوس کردئیے گئے۔آندھیاں چلیں اورسب خس و خاشاک ہوگیا۔انہیں سمندروں کے طوفان نگل گئے یازلزلوں کے لاوے۔ اس دھرتی پرہرجگہ عبرت گاہیں موجودہیں لیکن ہم پھربھی دعوے کرتے ہیں اورامیدیں بھی لگاتے ہیں ۔ آلِ فرعون نے مان لیاتھا کہ فرعون بہترین پالنے والاہے اورفرعون نے دعویٰ کرلیاتھاکہ میں ہی ہوں جولوگوں کے اس مطالبے کوپوراکرسکتاہوں۔ ہماراکام توکھول کھول کر بتاناہے کہ اللہ کاغضب کیوں نازل ہوتاہے اوراس کے غضب سے بچاکیسے جا سکتا ہے۔مدتوں سے اہل نظرجس غیض وغضب سے ڈرارہے تھے ہم دعویٰ کرکے اسے قریب لا رہے ہیں اورہم بھی کس بلاکے لوگ ہیں۔ غیض وغضب ہماری جانب لپک رہاہے اور ہم پکارپکار کرنہیں کہتے کہ اس زمین کوعدل سے بھر دو،میرااللہ رزق کے دروازے کھول دے گا ورنہ اللہ کے غضب کوآوازتوہم دے ہی رہے ہیں۔
٭٭٭