... loading ...
سمیع اللہ ملک
اسلام آبادکے کسی خوبصورت علاقے کی رنگارنگ مارکیٹ میں سرشام نکل جائیں،لاہورکے گلبرگ وڈ یفنس یاایم ایم عالم روڈکے ریستورانوں میں گھومیں،بڑے بڑے شاپنگ سینٹرزاورمالزکے ائیرکنڈیشنڈ ماحول کاچکرلگائیں،کراچی میں کلفٹن کاپُل اترتے ہی ارد گرد آباددنیاکی رنگینیوں کوملاحظہ کریں۔آپ کویہاں ایک اورہی دنیاآباد ملے گی۔سخت گرمی کے عالم میں ائیرکنڈیشنڈکاروں کے بندشیشوں سے جھانکتی ہوئی،ٹھیک اس دروازے پراترتی جہاں صرف چندقدم اٹھانا پڑیں اوردروازے کے دوسری جانب ویساہی موسم سرد موسم ان کاانتظارکررہاہوجیساوہ گاڑی کے اندرچھوڑکرآئے تھے۔اس دنیامیں آبادلوگوں کے معمولات پرمیرے ملک کے عام انسانوں پرآنے والی کسی آفت،پریشانی یاافتاد کاکوئی اثرنہیں ہوتا۔وہ جس ہوٹل میں کھاناکھارہے ہوتے ہیں وہاں اگرلوڈشیڈنگ کی وجہ سے بجلی چلی جائے توایک لمحے کے توقف کے بغیرسارے کاسارانظام جنریٹر پرچلاجاتا ہے اوران نازک اندام لوگوں کوچندقطرے پسینہ گرانے کی بھی زحمت گوارانہیں کرناپڑتی۔ان لوگوں کے گھرکسی بڑے جنریٹریاپھر”یوپی ایس”یعنی بغیرتوقف بجلی کی فراہمی والی مشینوں سے آراستہ ہوتے ہیں تاکہ رات گئے اگربجلی چلی جائے توکہیں ائیرکنڈیشنڈبندہونے کی وجہ سے نیندمیں خلل نہ آجائے۔میرے ملک کی یہ مخلوق گزشتہ تین دہائیوں میں اس قدربڑھی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ اگرکہیں کسی مزارپرمفت کھاناتقسیم ہورہاہویاپھرکسی نے کوئی خیرات کرنی ہو،آٹایاکپڑے تقسیم کرنے ہوں توایک ہجوم وہاں اکٹھاہوجاتا،لائن لگتی یاپھر ضرورت مند لوگ اس خیرات کی آمد کاگھنٹوں انتظار کرتے۔لیکن اب ان بڑے ہوٹلوں میں بنی انتظار گاہوں میں آپ کولوگ انتظار کرتے ہوئے نظرآئیں گے کہ کب میزخالی ہوتویہ لوگ اندر جا کرکھانے سے لطف اندوزہوسکیں۔ بعض دفعہ تو یہ لوگ گاڑی میں ایک ہوٹل سے دوسرے اوردوسرے سے تیسرے کی جانب سفرکرتے رہتے ہیں اورگھنٹوں انہیں مناسب ہوٹل میں جگہ میسر نہیں آتی۔ان لوگوں کاانتظار،تردداورجگہ نہ ملنے پر پریشانی ویسے ہی ہوتی ہے،جیسے کھانا مفت مل رہاتھااور وہ وقت پر نہیں پہنچ سکے اور ان کے حصے میں خیرات نہ آسکی۔ان لوگوں کے مسئلے بھی عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔آج کل کو ن سا فیشن چل رہاہے۔کون کون سی برانڈ کی قمیضیں اوردیگر ملبوسات مارکیٹ میں آئے ہیں۔موبائل کاکون سا ماڈل آج کل نیاہے اوراسے کہاں سے خریدا جا سکتا ہے۔ گاڑی کون سی آرام دہ ہے اور اس میں کون سی نئی چیزیں ڈال کرجاذب نظربنادیاگیاہے۔کون سی نئی فلم مارکیٹ میں آئی ہے،کس قسم کی میوزک البم مقبول عام ہے۔کنسرٹ کہاں ہورہاہے اوراس کی ٹکٹیں یاپاس کہاں سے مل سکتے ہیں۔ہالی وڈنے کون سی فلم ریلزکی ہے اوراس کی اصل ڈی وی ڈی کہاں میسرہوگی۔
آپ ان لوگوں کی محفلوں میں جانکلیں تویوں لگے گاجیسے اس ملک میں کوئی دکھ،پریشانی،مصیبت یاآفت نہیں ہے۔کوئی اپنے تازہ ترین بیرونی سفرکے قصے سنارہاہوگااورپھرواپسی پراپنے ملک کی بدتہذیبی،عام آدمی کی جہالت اوروسائل کی کمی،ٹریفک کے بے ہنگم پن پرتبصرہ کرے گااورساتھ ایک سیاسی قسم کابیان بھی جاری کردے گاکہ ہم سب چورہیں،ہم اپنے ملک کے ساتھ مخلص نہیں۔ ان کی محفل کی دوسری بڑی تفریح غیبت اورسیکنڈل ہوتے ہیں۔یہ سکینڈل کسی کی نوکری میں ذلت سے لے کراس کی گھریلوزندگی اورمعاشقے تک چلے جاتے ہیں۔ گالف کے میدانوں سے گھوڑوں کی ریس اورسٹاک ایکسچینج کے اتارچڑھاؤان کے موضوعات ہوتے ہیں۔یہ لوگ اخبارات کے بھی وہی صفحات زیادہ شوق سے دیکھتے ہیں جہاں کوئی ایسی خبرنہ مل سکے جن سے ان کا فشارخون بلندہوجائے،ان پرپژمردگی چھاجائے یاان کی پرسکون زندگی میں بے اطمینانی آنے لگے۔
یہ لوگ گزشتہ سالوں میں میرے ملک کے کونے کونے میں کیوں نظرآنے لگے۔کیاہم اچانک بہت امیرہوگئے۔ہم پرہن برسنے لگا۔ ہم نے ترقی کی منازل طے کرلیں۔نہیں،ہم پرسودخورعالمی مہاجنوں کے نمائندوں شوکت عزیز،شوکت ترین،حفیظ شیخ اوراسحاق ڈارجیسے افرادسوارہوگئے،جن کاایک ہی اصول تھا کہ اس کا سرمایہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچے تاکہ اسے سود کی رقم وصول ہو سکے۔ کارخانے اورملیں تونہ لگیں لیکن اس ملک کے خواب دیکھنے والے اورامیربننے یاامیروں کی طرح زندگی گزارنے کاشوق اور لگن رکھنے والوں کے لیے قرض کادروازہ کھول دیاگیا۔قرض لواورگاڑی خریدو،فریج خریدو،ائرکنڈیشنڈخریدواورپھراپنی محدود آمدنی میں سے پیٹ کاٹ کر سود سمیت قسطیں ادا کرو ۔جوپیٹ کاٹنے کی اہلیت ہی نہ رکھتاہووہ بے ایمانی سے،رشوت سے اور کسی بھی ناجائزذریعے سے اس معیار زندگی کابوجھ اٹھائے جووہ اٹھانے کے قابل نہیں تھی مگرقرض کی فراہمی نے اس پرراستہ کھول دیا۔لیکن ان سب لوگوں میں خواہ وہ بنیادی طور پر صاحب حیثیت ہوں یااب نقلی ثروت اورقرض سے اس صف میں آکھڑے ہیں۔ایک بات مشترک ہوگئی ہے۔یہ عام آدمی کے دکھ درد،آلام اورپریشانی سے بہت دورہوگئے ہیں۔انہیں اندازہ ہی نہیں ہوپاتاکہ گاؤں،محلوں اور کوچوں قریوں میں بجلی جاتی ہے تو کیا قیامت برپاہوجاتی ہے۔آٹامہنگاہوتاہے تو کتنے فاقے آتے ہیں۔نوکری نہ ملے توکیسے بچوں کوسکول سے اٹھاناپڑتاہے۔نالیوں کی صفائی نہ ہوتومچھرکیسے کاٹتے ہیں اورکونین کی گولی کتنے کی ملتی ہے۔انہیں تصورتک نہیںہو پاتاکہ لوگ معاشی پریشانی کی وجہ سے خودکشی بھی کرتے ہیں اوراپنے بچوں سمیت نہرمیں چھلانگ بھی لگادیتے ہیں۔یہ لوگ ان سب دکھوں اور پریشانیوں اورلوگوں کی مصیبتوں سے بے بہرہ ہوٹلوں میں کھانوں کی خوشبوں میں رچے ہوتے ہیں۔ پلازوں میں خریداریاں کررہے ہوتے ہیں اورمحفلوں میں خوش گپیاں لیکن تاریخ ایسے ماحول کو”وقت کے تمسخر”کانام دیتی ہے اورملکوں ملکوں یہ کہانی بیان کرتی ہے کہ جب ایک خاص طبقہ بہت زیادہ امیراورظاہری ٹھاٹ باٹ سے رہنے لگے اوردوسری جانب انتہائی غربت وافلاس ہوتو پھربس ایک چنگاری لگنے کی دیرہوتی ہے۔جونہی کسی کے منہ سے تضحیک کا کوئی فقرہ نکلا، بس یہ چنگاری غربت کی دھوپ میں جلے ہوئے انسانوں کے ڈھیرمیں آگ لگادیتی ہے ۔ یہ بس چند لمحے سلگتی ہے اورایک دم دھماکے سے سارا کھیت جل اٹھتاہے۔عوام نے اجتماعی طورپربجلی کے بلوں کوآگ لگاکراس کاآغازتوکرہی دیاہے۔ان لمحوں کو روکنے کیلئے خدارا کچھ کرو وگرنہ……!
٭٭٭٭