... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان بھی اُس روز ڈولی (چیئر لفٹ) پر لٹکا ہوا تھا۔ ہوا میں معلق۔ یہ ایک حیرت انگیز دن تھا۔ پڑوسی ملک بھارت کی نگاہیں بھی فضا میں تھیں، مگر وہ کچھ اور دیکھ رہی تھیں۔ بھارت چاند پر پہنچ گیا ۔مگر یہ ڈولی ڈولنے سے ایک دن بعد کا واقعہ ہے۔ ہواؤں میں رہنے ، ہواؤں میں اڑنے اور ہواؤں سے لڑنے کے شکار دونوں ملکوں کے ساتھ اتفاق بھی ہوائی ہوتے ہیں۔ مگر فرق ہے بابا ، پھر بھی بڑا فرق ہے !!
بھارت کی مقتدر سفاک انتہاپسند ہندو اشرافیہ (برہمن) نے اپنی دوسری بڑی اکثریت یعنی مسلمانوں کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ مگر سب کچھ الل ٹپ نہیں کیا۔ مسلمانوں کے خلاف انتہاپسند ہندو پُرکاری اور سفاکانہ مکاری کے ساتھ بروئے کار ہیں۔ برہمن اشرافیہ آگاہ ہے کہ اس کے ”نقصانات” کیا ہیں؟ مگر وہ مسلمانوں سے”نجات” کو ان نقصانات سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ یہ سوچ کا ایک نمونہ ہے اور حکمت عملی کا سوچا سمجھا حصہ ۔ چنانچہ بھارت میں موجود افراتفری ، مسلمانوں کے خلاف آپادھاپی اورہندو انتہا پسندی کی ہلڑ بازی تک ایک منظم منصوبے کا حصہ بن کر ظاہر ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی مناظر مختلف نہیں۔ یہاں طاقت ور اشرافیہ گاہے گاہے مختلف طبقات کو نشانے پر لیے رکھتی ہے۔ کبھی ایک تو کبھی دوسری سیاسی جماعت۔ پھر ایک کے ذریعے دوسری جماعت کو بھی نشانے پر لیے جانے کی موثر سیاسی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے۔ سیاسی ہی نہیں، معاشرتی، لسانی، صوبائی اور مذہبی تناظر بھی سفاکانہ دشمنیوں سے آلودہ ہیں۔ ایک کے خلاف محاذ آرا دوسرا فریق اپنی لڑائی کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنائے رکھتا ہے۔ اس پورے کھیل کی طاقت ور حلقوںکی جانب سے ایک منظم سرپرستی بھی جاری ہے۔ مگر یہ سب کیوں ہیں؟ بھارت کے برعکس اس کے پیچھے کوئی ہدف نہیں۔ طاقت ور حلقوںکا واحد مقصد محض اقتدار کے سرچشموں پر اپنی کامل گرفت رکھنا ہے جو گہرے معاشی مفادات کے تحفظ کا ضامن ہے۔ اس کے لیے سیاست ایک گالی بنا دی گئی ۔ معاشرے کے پست ترین لوگوں کو ریاستی مشنری چلانے اور سیاسی جماعتوں میں اُبھارنے کی سنگین غلطی کی گئی۔ حقیقی کے بجائے ایک مصنوعی ماحول کی جبراً حفاظت کے نقصانات علیحدہ ہیں۔ کیا یہ کوئی قومی خدمت ہے؟یہ سوال اب بلند آہنگ پوچھنے کی ضرورت ہے!!
بھارت کے غلیظ اہداف نے معاشرے کو جس انتشار کی طرف دھکیلا ہے، اسے دوسری طرف ایک قومی سوچ، حب الوطنی کے عمومی جذبے اور ترقی کے خواب سے سنبھالا بھی جاتا ہے۔ بھارت نے اس کے لیے ایک مصنوعی متوسط طبقہ کی افزائش کی ہے جو ان کی آبادی میں اب بیس سے تیس کروڑ تک پہنچنے والا ہے۔وہاں تعلیم اور صحت کے میدانوں میں بے پناہ ترقی ہوئی ہے۔ عام بھارتیوںمیں یہ احساس منظم طور پر اُبھارا گیا ہے کہ وہ دنیا میں ایک قائدانہ کردار ادا کرنے کے اہل ہیں۔ عالمی تنازعات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ خطے میںاپنے کردار کو مسلسل بڑھا رہا ہے، اور اس کے سیاسی فوائد ملکی سطح پر اُبھار رہا ہے۔ چاند پر پہنچنے کی نفسیاتی برتری عام بھارتیوں کی غلبے کی نفسیات کو گنے کا رس پلارہی ہے۔ اس کے بالکل برعکس پاکستان میں جاری طاقت ور اشرافیہ کا کھیل کسی قومی مقصد سے وابستہ نہیں۔معاشی زبوں حالی خطرے کی گھنٹے بجانے لگی ہے۔ صرف بجلی کے بلوں سے ہنگامے بپا ہونے کے خطرات سر اُٹھا رہے ہیں۔ معاشرتی سطح پر تیزی سے مشترکات ختم ہورہے ہیں۔ قومی معاملات میں بھی ہم آہنگی کی فضاء اب تحلیل ہو رہی ہے۔ کسی گروہ کا دوسرے پر اعتبار نہیں رہا۔یہاں ترقی کا انجن رک گیا ہے۔ تعلیم ، صحت اور سائنس کے میدان میںابتری ظاہر وباہر ہے۔ ہر جگہ ایک لوٹ مار کا ماحول ہے۔ مافیائیں طاقت ور ہوتی جارہی ہیں۔ اور اکثر مافیائیں طاقت ور حلقوں کی چھتری تلے آسودہ ہیں۔ ایک عام آدمی کا ملک پر سے اعتبار اُٹھتا جا رہا ہے۔ ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ معاملہ اس قدر ابتر ہو چکا ہے کہ حب الوطنی کا ذکر بھی اب لوگوں کو ایک مضحکہ خیز عمل لگنے لگا ہے۔ جب ملک میں کسی بھی اختلافی آواز کو وطن دشمنی کے الفاظ سے تعبیر کیا جائے گا اور معمولی معمولی باتوں میں بھی لوگوں کی حب الوطنی پر شک کا اظہار کیا جاتا رہے گا تو یہ الفاظ اپنی وقعت ہی نہیں کھوئیں گے بلکہ حساسیت بھی کھو دیں گے۔ قومی ریاستوں کی تاریخ اور تنازعات کے حامل معاشروں کے تیوروں سے ہم نے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ ابھی تک ہم 70 اور 80 کی دہائی میں ہے جب سخت گیر اور آمرانہ ریاستوں میں اختلافات کو طاقت کے ذریعے دبایا جاتا تھا۔ لوگوں کو اغوا کیا جاتا تھا۔ مارا اور دبایا جاتا تھا۔ دنیا کی کسی بھی ریاست میں اس طریقہ وارادات نے کام نہیں دکھایا اور کوئی نتیجہ پیدا نہیںکیا۔ پاکستان میں کیسے یہ طریقہ کام کرے گا؟یہ بات طاقت ور حلقے سمجھنے کو تیار نہیں۔ آزمودہ ناکام حربوں پر ہی گزارا ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف جماعتوں اور گروہوں سے نبرد آزما ہونے کے نتیجے میں پورے ملک کے اندر متحارب گروہوں کو ایک مشترک ورثہ دے دیا گیاہے۔ یہ ورثہ کیا ہے؟ مختلف جماعتوں کے قائدین مختلف ادوار میں حوالۂ زنداں کیے گئے۔ یہ تاریخ کسی ایک جماعت کی نہیں ، تمام جماعتوں کی مشترک ہے۔ مسلم لیگ نون ہی نہیں، پیپلزپارٹی، اے این پی، بلوچستان کی مختلف جماعتیں، خیبر پختونخواہ کی مختلف قوتیں اور سندھ کی مختلف شخصیات الگ الگ ادوار میں ایک ہی طرح کے سلوک کا شکار ہوتی رہیں۔ ان کے کارکنان ایک ہی طرح سے نشانا بنائے جاتے رہے۔ اب نشانے پر تحریک انصاف ہے۔ یوں اگر غور کیا جائے تو یہ سب جماعتیں مختلف اوقات و ادوار میں ایک دوسرے کی متحارب رہیں، مگر طاقت ور حلقوں کے ساتھ سلوک میں ایک مشترک تاریخ کی حامل بن چکی ہیں۔ ان کے کارکنان بھی ایک مشترک ورثہ رکھتے ہیں۔ یہ جماعتیں بھلے وقتی سیاسی مفادات اور اقتدار کے کھیل کی خاطر اپنے حلیف اور حریف بدلتی رہیں، مگر اس تاریخ کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ جو جرم بے گناہی میں زیادتیوں کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔سیاسی کارکنان آنکھوں پر بندھی پٹیاں، رخساروں پر پڑنے والے تھپڑ، مقدمات کی بھرمار، ایک سے دوسرے علاقے کی جیل یاترا، معاشی نقصانات، خاندانی اذیتیں، زندگی کے ضائع ہونے والے قیمتی ماہ وسال، ایامِ جبر ، لمحات ِ صبر، پروپیگنڈے ، نفسیاتی ہتھکنڈے اور اذیت کدے اپنے تذکروں میں کبھی نہیں بھولتے۔ اس سب کا ایک مجموعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جبرکے شکار لوگ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اور وقتی مفادات کے لیے کسی کے بھی رفیق یا فریق بن گئے ہو، عملاً اپنے سفاکوں اور ظالموں کے لیے کوئی ہمدردی پیدا نہیں کر پاتے۔ اس کا براہ راست اثر یہ ہوا ہے کہ اب لوگ طاقت ور حلقوں کا احترام عمومی طور پر چھوڑ چکے ہیں۔ اس میںکسی بھی جماعت کی تخصیص نہیں۔ تحریک انصاف کا معاملہ تازہ ہے۔ مگر یہ ایک غلط فہمی ہوگی کہ طاقت ور مناصب پر براجمان شخصیات یہ سوچیں کہ اُن کے لیے نون لیگ ، پی پی، جے یو آئی یا پی ڈی ایم کا ماضی قریب کا سیاسی اکٹھ کوئی جذبۂ احترام رکھتا ہے۔ ان سب کے لیے اب یہ سب کچھ محض موقع پر منحصر ہوتا ہے۔ عمران خان کی حکومت میں گالیاں دینے والے طاقت ور حلقوں کا دفاع کرنے لگے تو یہ محض عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی اور خود اقتدار میں جانے کے موقع کا نتیجہ تھا، اس کے لیے کوئی حقیقی جذبہ یا منطقی احساس نہ اُبھرا تھا۔ ذرا وقت بدلے گا تو یہی زبانیں ایک بار پھر اپنے ٹانکیں توڑیںگی اور وہی لب و لہجہ دوبارہ اختیار کر لینگیں۔ یہی کچھ تحریک انصاف کے باب میں بھی ہے۔ رائج سیاسی ماحول میں اگر ان کے لیے کوئی موقع پیدا ہوا تو طاقت ور حلقوں کے لیے آج پانے جانے والے بظاہر جذبات ایک الگ زبان لے کر بباطن بدل جائیں گے ۔ مگر معاملہ وہی ہوگا۔ جو آج پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کا ہے۔ یعنی موقع کا استعمال۔ اس مصنوعی فضا کو اپنے حق میں حقیقی سمجھنا ایک فاش غلطی ہوگی۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں فضا میں جھولتی ڈولی کے واقعے سے اُبھرنے والے ردِ عمل کو تولنے ٹٹولنے اور کھولنے کھنگالنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈولی حادثے میں بچاؤ مشن قومی سطح پر تقسیم کا باعث کیوں بنا؟ لوگوں نے جذباتی طور پر ہمارے قومی ادارے کے کردار پر سوال کیوں اُٹھائے؟ کیا طاقت ور حلقوں کو اندازا ہے کہ قوم کو کوئی بات باور کرانا اُن کے لیے اس قدر مشکل کیوں ہوتا جارہا ہے؟ یہ سب کچھ صرف عمران خان کے خلاف جاری اقدامات کے ردِ عمل کا نتیجہ نہیں۔ اس ضمن میں عوامی سطح پر اُبھرنے والے ردِ عمل میں کافی پریشان کن اشارے موجود ہیں۔ ردِ عمل کی مختلف نفسیاتی اور قومی وجوہات کا جائزہ اگلی تحریر پر اُٹھا رکھتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو ڈولی پر صرف آٹھ افراد نہیں پھنسے تھے، اس کے ساتھ پاکستان کی کل تیئس کروڑ کی آبادی بھی جھول رہی تھی۔ آٹھ افراد کو بچانے میں تو کل 14 گھنٹوں سے زائد لگے۔ مگر تیئس کروڑ لوگوں کو بچانے کا آپریشن ابھی شروع بھی نہیں ہوا۔
٭٭٭