... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو اٹک جیل میں رکھا گیا ہے۔پی ٹی آئی اور ان کے ووٹرز،سپورٹرز کو شکایت ہے کہ ان کے لیڈر کو ان کے شایان شان جیل میں سہولتیں نہیں دی جارہیں۔ایسا ہی ایک واقعہ رحیم یار خان میں پیش آیا۔رحیم یار خان میں پولیس نے ایک مفلوک الحال شخص کو چوری کے الزام میں پکڑ لیا اور حوالات میں بند کر دیا۔دو تین دن بعد تھانہ محرّر نے اس کو کہا کہ بھائی اپنے عزیز رشتہ داروں کو اطلاع کرو تاکہ وہ تمھاری ضمانت کا بندوبست کریں اور تمھیں یہاں سے لے جائیں۔ اس نے جواب دیا کہ میرا خاندان چولستان کے کسی دور دراز کے گاؤں میں ہے تو محرر نے کہا کہ انھیں خط لکھو یا تار بھجواؤ۔ تو وہ کہنے لگا میں چِٹا ان پڑھ ہوں کیسے پیغام بھجواؤں۔یہ جواب سن کر محرّراظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ چلو تم بولو میں خط لکھتا ہوں تو وہ شخص بولا کہ کوٹھا پکا ہے۔ پینے کو میٹھا پانی ملتا ہے۔ روٹی بھی مِلتی ہے۔تم سب لوگ یہیں آ جاؤ۔!!
حکومت میں آتے ہی لوگ بدل جاتے ہیں، انداز بدل جاتے ہیں، تیور بدل جاتے ہیں۔اپوزیشن میں جب ہوتے ہیں تو عوام کا بہت خیال رکھتے ہیں، عوام کے مسائل کیلئے آواز اٹھاتے ہیں لیکن جیسے ہی کرسی ملتی ہے، ان کے رنگ ڈھنگ بدل جاتے ہیں۔حکومت میں آنے کے بعد حکمرانوں کے روایتی جملے کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں۔شرپسندوں کو ملک کا امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔قوم کی بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔آئین کی پامالی برداشت نہیں کی جائے گی۔قومی اداروں کی بدنامی نہیں ہونے دیں گے۔قوم کی بیٹی کو واپس لایا جائے گا۔آئینی اداروں پر حملہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔غریب آدمی پر بجٹ کا مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔قومی مفاد کے خلاف آئی ایم ایف کی کوئی شرط قبول نہیں کریں گے۔ملک کی طرف اٹھنے والی میلی آنکھ نکال دی جائے گی۔غریب آدمی کے مفاد کا تحفظ کیا جائے گا۔کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے یہ کسی کو بھولنے نہیں دیں گے۔ہڑتال کی وجہ سے عوام کا کاروبار کسی کو بند نہیں کرنے دیں گے۔ناموس رسالت پر جان بھی قربان کردیں گے۔توہین مذہب کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وغیرہ وغیرہ۔ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ دشمنوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔
کچھ روایتی یک سطری جملے ایسے ہیں کہ روزاخبارات میں پڑھنے اور ٹی وی پر سننے کو ملتے ہیں، ان جملوں کو پڑھنے کے بعد اور سننے کے بعد چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اہل کاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ دہشت گردوں کو ملک کا امن برباد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان نے ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ دشمن ہماری شرافت کو ہماری کمزوری نہ سمجھے۔ کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ علاقے کو گھیرے میں لے لیا، انکوائری کی جائے گی۔ کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔نوٹس لے لیا گیا ہے۔ اجلاس طلب کر لیا گیا ۔ کرپشن ختم کر کے لوٹی دولت واپس لائیں گے۔ ہر صورت میں میرٹ قائم رکھا جائے گا۔ غریب کو اس کی دہلیز پر انصاف ملے گا۔ سول اور ملٹری قیادت ایک پیج پر ہے۔اداروں کو اپنے اپنے دائرے میں کام کرنا چاہئے۔ آئین سے کوئی بھی ماورا نہیں ہو گا۔قوم بیرونی دشمنوں کے خلاف متحد ہے۔دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔وزیراعظم عوام میں گھل مل گئے۔ملکی دفاع محفوظ ہاتھوں میں ہے۔میڈیا مکمل طور پر آزاد ہے۔اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے۔نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کریں گے۔سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔جان نچھاور کردیں گے۔وطن کی حرمت پہ مر مٹے۔دشمن کے دانت کھٹے کر دیے۔اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
الیکشن کے سیزن یا الیکشن کے ماحول میں جو روایتی جملے سننے کو ملتے ہیں وہ بھی لطیفوں سے کم نہیں ہوتے۔جانے والوں، پچھلی حکومت، اوپر والوں، پہلے والوں نے یہ کام کیا۔سب ورثے میں ملا ہے۔ہم یہ کریں گے۔وہ کریں گے۔ایسا کریں گے۔ ویسا کریں گے۔یوں کرنا چاہیے تھا۔کشکول توڑ دیں گے۔ دیکھوانہیں شرم نہیں آتی۔ مہنگائی پر قابو پائیں گے۔غریب کو سبسڈی دیں گے۔ خود انحصاری۔ خود کفالت۔ قومی غیرت۔۔ قومی جذبے۔۔ قومی خدمت۔۔ کرپشن ختم کریں گے۔فلاں فلاں۔ ڈھمکاں۔۔۔اس کے علاوہ ہرحکمران چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہویا وہ ”زبردستی” اقتدار میں آیا ہو، کچھ ایسے جملے لازمی بولتا ہے، جو عوام کو تقریبا رٹ چکے ہیں، مثال کے طور پر۔۔ ملک نازک موڑپر کھڑا ہے۔(پچھتر سال یہ نازک موڑ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا)۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آجائے گا۔(دودھ اور پانی اب غریبوں کی پہنچ سے دور ہوچکے ہیں)۔دشمن سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔(آئرن مین بھی یہ ڈائیلاگ نہیں بولتا ہوگا ،قسمے)۔ملک میں دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی(دہشت گرد کیا دہشت گردی کیلئے تحریری درخواست دیتا ہے؟)۔وطن کی مٹی کا قرض اتاریں گے۔(وطن پر جو قرض ہے وہ کون اتارے گا؟)
یہ قوم مجموعی طور پر پاگل پن کا شکار ہے۔اب اس پاگل پن کی مثالیں بھی سن لیں۔ کروڑوں روپے کی حفاظت کیلئے بینک پندرہ ہزار ماہانہ پر سیکورٹی گارڈ رکھتا ہے۔ان پڑھ قوم کے لئے ٹینکر پر بچاؤ کی ہدایات انگریزی میں لکھی جاتی ہے۔ سڑک پہلے بناتے ہیں۔ پھر اسے کھود کر بجلی، گیس کی لائنیں بچھاتے ہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مساجد سے بھی بجلی کے بلوں میں ٹی وی اور ریڈیو کی لائسنس فیس لی جاتی ہے۔حادثات میں مرنے، جلنے والوں کے ورثا کو کروڑوں بانٹ دیں گے، مگر حادثات کی روک تھام، سزا جزا اور ایمرجنسی سے نمٹنے پر ٹکہ خرچ نہیں کریں گے۔ خود قرضے پہ قرضہ لیتے رہتے ہیں اور عوام کو بچت اسکیموں کی ترغیبیں دیتے ہیں کھلاڑیوں کو لاکھوں روپے گھر بیٹھے دیتے ہیں۔عیدالفطر۔ عیدالاضحی۔ربیع الاول۔ گیارہویں۔ شادی بیاہ۔سب اسلامی چاند دیکھ کر مناتے ہیں اور عیسوی سال کے آغاز پر اتنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ عیسائی بھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔مایوں۔مہندی۔شادی بیاہ۔سب میں ہندوستان کی پیروی اور بیٹی کی رخصتی پر قرآن کاسایہ کرتے ہیں۔ووٹ کرپٹ،چوروں ڈاکوؤں کو دیتے ہیں اور نظام حکمرانی حضرت عمر کا چاہتے ہیں۔پندرہ بیس ہزار تنخواہ لینے والا بجلی کا بل خود دے گا، ایک لاکھ اور اس سے اوپر والوں کیلئے بجلی فری ہوتی ہے۔عوام کے لئے سرکاری اسپتال وہ بھی غیرمعیاری لیکن اپنا علاج بیرون ملک کراتے ہیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔بھارت چاند پر پہنچ گیا، کوئی لاہور کے کانسٹیبل شاہد کو جاکر یہ بات بتادے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔