... loading ...
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں مہنگائی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ صحت کی سہولیات بھی ناپید ہوتی جارہی ہیں مہنگی ادویات کے ساتھ علاج بھی مہنگا ہوچکا ہے اور اوپر سے ہسپتالوں کی خراب صورتحال کے ساتھ ساتھ ادویات کا بحران بھی شدت اختیار کر گیااور عام استعمال کی دوائیں بھی مارکیٹ سے غائب ہیں۔مہنگائی کے اس طوفانی دور میں علاج تو ایک طرف غریب انسان کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر 20 کلو آٹا 1ہزار 5 سو 44 روپے مہنگاہونے سے اب20 کلو آٹے کا تھیلا 2ہزار 8 سو 40 روپے کاہو چکا ہے ۔10 کلو کے تھیلے کی قیمت میں 7سو 72 روپے کا اضافہ ہو گیا جبکہ پہلے عام صارفین کیلئے 20 کلو آٹے کا تھیلا 1 ہزار 2 سوچھیانوے روپے کا تھا اب عام صارفین کو 10 کلو آٹے کا تھیلا 7 سو 72 روپے مہنگا ملے گا۔ مہنگائی کے اس دور میں جب غریب انسان کا زندہ رہنا مشکل ہورہا ہے تو اوپر سے ادویات کی قلت کے ساتھ دستیاب ادویات کی قیمتیں بھی 18 سے 20 فیصد تک بڑھ گئی ہیں ۔دمہ کے مریضوں کیلئے ان ہیلر دستیاب ہیں نہ ہی شوگر کے مریضوں کیلئے انسولین اس کے علاوہ اینٹی بایوٹکس، اسکن انفیکشنز، ڈائریا، بلڈ پریشر اور بخار کی دوائیں بھی بہت کم مل رہی ہیں۔ شوگر کی دوائی 219 سے بڑھ 258 روپے تک پہنچ گئی جبکہ معدے کی تیزابیت اور جلن کی دوائیں 606 سے بڑھ کر 714 روپے کی ہوگئی ہیں ۔ دل کے امراض کی 140 روپے میں ملنے والی دوا اب 165 روپے میں دستیاب ہے ۔ صحت چونکہ انسانی زندگی کا سب سے اہم مسئلہ ہے اگر انسان تندرست رہے گا تو ہی کام کرسکے گا ۔ورنہ ایک مریض شخص پورے خاندان کو مریض بنا دیتا ہے خاص کر ہسپتالوں میں آنا جانااور پھر ہمارے ہسپتالوں کا جو ماحول بن چکا ہے ۔وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
گزشتہ روز نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال پہنچے تو وہاں لوگوں نے شکایات کے انبار لگا دیے صفائی ستھرائی سے لیکر ہسپتال والوں کا رویہ بھی مریضوں سے ٹھیک نہیں تھا یہ وہ الزامات ہیں جو اس وقت ہر ہسپتال میں نظر آتے ہیں۔ آپ ملک کے کسی بھی سرکاری ہسپتال میں چلے جائیںتو مریضوں سے لیکر تیمارداروں تک کوئی بھی ہسپتال انتظامیہ سے خوش نہیں ہوگا ہولی فیملی ہسپتال میں تیمارداروں نے مریضوں کے ٹیسٹ اور ادویات باہر سے خریدنے کی شکایات کیں۔ ہسپتال کے گارڈز کے خلاف بھی مریضوں کے تیمارداروں نے شکایات کے انبار لگادیے۔ خراب بیڈز، خون آلود بیڈ شیٹس، مریضوں کے علاج میں تاخیر کی شکایات، استقبالیہ پر لمبی قطاروں، وینٹی لیٹرز کیلئے خواری اور بعض وارڈز میں اے سی بندش پر نگران وزیراعلی بھی انتظامیہ پر برہم ہوئے اور ایم ایس ہسپتال اور وائس چانسلر راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی کی سرزنش کرتے ہوئے ہسپتال کی حالت زار کو بہتر کرنے کے لئے 7 روز کی ڈیڈ لائن دے دی۔ مجموعی طور پر ہم ایک بے حس قوم ہیں لاہور کے گنگا رام ہسپتال کے میڈیکل وارڈ میں داخل معصوم بچی کو اسکے گھر والے اس لیے واپس لے گئے کہ ہر روز مریضہ کے کئی کئی ٹیسٹ کروائے جاتے تھے جو ہسپتال کی لیبارٹری اور ہسپتال سے باہر کی لیبارٹی انتہائی مہنگے داموں پڑتے ہیں حالانکہ ہسپتال کے اندر سرکاری لیبارٹری میں ٹیسٹ مفت ہونے چاہیے لیکن وہاں پر بھی ٹیسٹ کی فیس لی جاتی ہے ایک غریب انسان جو پہلے ہی اپنی روٹی سے تنگ ہے وہ سرکاری ہسپتال میں اس لیے جاتا ہے کہ اسے علاج معالجہ کی مفت سہولت مل جائیگی لیکن سرکاری ہسپتال میں سیکیورٹی گارڈ جو گیٹ پر کھڑا ہوتا ہے اس سے لیکر وارڈ بوائے ،وارڈ اٹینڈنٹ ،سویپر ،جمعدار اور لیبارٹی والوں تک لوٹ مار کا سلسلہ بڑے دھڑلے سے جاری ہے جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں اور لواحقین کا درجہ حرارت بھی بعض اوقات اتنا اوپر چلا جاتا ہے کہ لڑائی جھگڑے کا بھی ہو جاتا ہے۔ حکومت کو ہسپتالوں میں مریضوں کی بہتر نگہداشت کے لیے کوئی واضح اور جامع پلان مرتب کرنا چاہیے تاکہ غریب انسان کو علاج کی سہولت تو مفت میںمل سکے ۔
مریضوں کو وہ سہولیات نہیں مل رہی جو ایک عام شہری کو ملنی چاہیے اب ہمارے ہسپتال بڑھتی ہوئی آبادی کی نسبت بہت چھوٹے ہو چکے ہیں ان ہسپتالوں کی عمارت کو تین گنا بڑھانے کی ضرورت ہے اور ساتھ میں نئے ہسپتال بھی بنائے جائیں اسکے ساتھ ساتھ کے پی کے میں جو چیئر لفٹ کا ناخوشگوار واقعہ ہوا وہ بھی قابل افسوس ہے ۔وہاں کی حکومت بھی اپنی عوام کو سہولیات فراہم کریں آج سے سو سال پرانا نظام جو بوسیدہ ہوچکا ہے، اسے تبدیل کریں ۔جدید چیئر لفٹ لگائی جائیں ۔دنیا نے تو اب سمندر کے اندر اور پہاڑوں کے چوٹیوں تک سڑکوں اور سرنگوں کا جال بچھا دیا ہے اور ہم ابھی تھ تاروں سے بندھی لفٹ کو چلا رہے ہیں حکومت کے پی کے فوری طور پر ایسے افراد کے ٹھیکے منسوخ کریں جن کی لفٹ کی حالت خراب ہو انسانی جانوں سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اگر ہم ان جانوں کی حفاظت نہیں کرسکتے تو پھر حکمرانوں کو اقتدار میں بھی رہنے کا کوئی حق نہیں۔ بٹگرام کے علاقہ میں چیئر لفٹ کی تاریں ٹوٹنے کا جو واقعہ پیش آیا وہ ہمارے لیے سبق ہے اس لفٹ میں اساتذہ اور 8 بچے موجود تھے۔ لفٹ سیکڑوں فٹ بلندی پر ایک جانب کو جھک گئی جسے بعد میں آرمی کے ہیلی کاپٹروں نے ریسکیو کیا کے پی کے میں ایسے بہت سے مقامات ہیں،جہاں خستہ حال چیئر لفٹ عام اور معمولی رسوں کی مدد سے چل رہی ہیں۔ حکومت انہیں فوری وہاں متبادل انتظام کرے تاکہ لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ ہو چکے۔
٭٭٭