... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
وزیر اعظم نے اس بار یومِ آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے اعلان کیا کہ بدعنوانی نے ملک کی طاقت اور نظام کو بری طرح تباہ کر دیا ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس دیمک سے چھٹکارا حاصل کیا جائے ۔ ‘نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا’ کا نعرہ لگا کر اقتدار سنبھالنے والے مودی جی کو سرکار چلاتے ہوئے نو سال سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ اب ان کو ماضی کا رونا دھونا کرنے کا حق نہیں ہے ۔ اس طویل عرصہ کے بعد جب وزیر اعظم لال قلعہ کی فصیل سے کہتے ہیں کہ ‘ان کا یہ عہد ہے کہ وہ بدعنوانی سے لڑتے رہیں گے ‘ایک دیوانہ کی بڑ کے سوا کچھ اور نہیں ہے ۔ وزیر اعظم کے دعووں کو آئینہ دکھانے کی خاطر اس طول طویل تقریر کے دو دن بعد سرکار کے مؤقر ادارے سی اے جی نے مودی حکومت کو آئینہ دکھا دیا۔ یہ وہی کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ ہے جس کو وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال ملک کے لیے ایک بڑی میراث قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ادارہ سرکاری کام میں شفافیت بڑھانے میں مددگار ہے ۔
سی اے جی ہیڈکوارٹر میں پہلے آڈٹ ڈے کی تقریبات میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ وقت کے ساتھ اس آئینی ادارہ کی افادیت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کاتاثر بھی بدل گیا ہے ۔ مودی کے مطابق ایک وقت تھا جب ملک میں آڈٹ کو خوف کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ سی اے جی بمقابلہ حکومت ہمارے نظام کی عمومی سوچ بن گئی تھی، لیکن آج یہ ذہنیت بدل گئی ہے ۔ آڈٹ کو ویلیو ایڈیشن کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن ہم نے پچھلی حکومتوں کی سچائی پوری ایمانداری کے ساتھ ملک کے سامنے رکھی ہے ۔ قدرت کا کرنا یہ ہے کہ اب کی بار سی اے جی نے خود ان کے حکومت کی سچائی کو اجاگر کردیا ہے ۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ وہ اسے قبول کرتے ہیں یا الٹا سی اے جی پر برس پڑتے ہیں ؟ موجودہ رپورٹ کو اگر بدلا نہیں گیا تو بعید نہیں کمپٹرولر جنرل بہت جلد جیل کی ہوا کھاتے نظر آئیں۔ اس لیے کہ خوشامد پسندی کے اس دورِ جبر میں مودی کو لال آنکھیں دکھانے والے اپنی بینائی گنوادیتے ہیں ۔
سی اے جی نے اپنی تازہ رپورٹ میں بھارت مالہ پروجیکٹ کے اندر سڑک کی لاگت میں تقریباً 100 فیصد اضافہ کا انکشاف ہوا ہے۔ اس پروجیکٹ کے فنڈ کی اجازت معاشی معاملوں کی کابینہ کمیٹی سی سی ای اے دیتی ہے ۔ اس کی صدارت خود وزیر اعظم کرتے ہیں۔ پروجیکٹ میں سی سی ای اے نے 535000 کروڑ روپے کی لاگت پر 34800 کلومیٹر سڑک بنانے کے لیے منظوری دی تھی۔ لیکن اصل میں ٹھیکہ 26316 کلومیٹر کلومیٹر شاہراہ کا ہی دیا گیا، جس کی منظور لاگت 846588 کروڑ روپے تھی۔ جن پروجیکٹس کے لیے 15.37 کروڑ روپے فی کلومیٹر کی لاگت کو منظوری دی گئی، وہ بڑھ کر دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی۔ اس معاملے میں سی اے جی نے نیلامی کے عمل میں بھی بے ضابطگیوں کو ظاہر کیا ہے ۔ کامیاب بولی لگانے والوں نے ٹنڈرپیش کرنے والے نے شرائط پوری نہیں کی، فرضی دستاویز کی بنیاد پر انتخاب ہو گیا، تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ کے بغیر کام الاٹ ہو گیا ۔سی اے جی نے دوارکا ایکسپریس وے میں بھی زبردست دھاندلی کا انکشاف کیا اور بتایا کہ سڑک بنانے کی قیمت 18 کروڑ روپے فی کلومیٹر سے 250 کروڑ روپے فی کلومیٹر پہنچ گئی۔ ۔ بڑ بولے وزیر اعظم کو اس کی وضاحت کرنا چاہیے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو جھولا اٹھا کر چل دینا چاہیے ۔
سی اے جی نے ٹول اصولوں کی خلاف ورزی کا پردہ فاش کرتے ہوئے بتایا کہ این ایچ اے آئی نے غلط طریقے سے مسافروں سے 132 کروڑ روپے وصول کیے ہیں۔ سی اے جی کے مطابق ریوینیو کو این ایچ اے آئی کے کنسیشن ایگریمنٹس سے تقریباً 133 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے ۔ یہ تو ایک آڈٹ کا حال ہے ملک کے سبھی ٹول پلازہ کی تفتیش کی جائے تو کتنے لاکھ کروڑوں روپے کا غبن سامنے آئے گا کوئی نہیں جانتا ۔ سڑک سے نکل کرہوا میں چلیں تو سی اے جی کے مطابق ایچ اے ایل پر طیارہ انجن کے ڈیزائنـپروڈکشن میں 159 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے ۔ مودی جی کے پسندیدہ آیوشمان بھارت یوجنا کی جانب جائیں تو وہاں بھی دھاندلی کا آتش فشاں چھپا ہوا ہے ۔ اس کے اندر مردہ لوگوں کو زندہ دکھا کرمرنے والوں کے نام پر سرکاری خزانے کو لوٹنے کا کارنامہ انجام دیا گیا۔ ایک ہی نمبر سے ساڑھے سات لاکھ مستفیدین کے جڑے ہونے کی چونکانے والی بدعنوانی بے نقاب ہوئی ہے ۔ علاج کے دوران 88760 مریضوں کی موت ہو گئی لیکن ان کی موت کے بعد ان سے متعلق 214923 کلیم کی ادائیگی کی گئی۔ ماضی زندہ لوگوں کے نام پرسرکاریں اپنی جیب بھرتے تھیں مگر مودی سرکار نے تو مرنے والوں کو بھی نہیں چھوڑا ۔
سی اے جی کی رپورٹ میں مجموعی طور پر 7.87 کروڑ لوگوں کو مستفیدکرنے کا دعویٰ کیا گیا جبکہ 10.74 کروڑ کنبوں کا ہدف طے کیا گیا تھا یعنی کامیابی کا تناسب صرف 73 فیصد ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ آگے چل کر حکومت نے اس دودھ دینے والی گائے کا کا دائرہ بڑھا کر 12 کروڑ کر دیا تھا اس لحاظ سے کامیابی کی شرح مزید کم ہوجاتی ہے ۔ اس پروجکٹ کو بدعنوانی سے محفوظ رکھنے کی خاطر ہر مستفید ہونے والے شخص سے جڑا ہوا ریکارڈ رکھنا لازمی کیا گیا تھا اور اس کی تلاش کے لیے موبائل نمبر کو بنیاد بنایا گیا تاکہ اس کو شناختی کارڈ سے جوڑ کر رجسٹریشن ڈیسک کا کام صاف و شفاف رکھا جاسکے مگر سنگھ پریوار کی شاکھا میں حاصل کی جانے والی بدعنوانی کی مہارت نے اسے بھی فیل کردیا۔ ان زعفرانیوں نے غلط موبائل نمبر ڈال کر پورے نظام کو مفلوج کردیا یعنی اب مستفید ہونے والے یا اس کے نام پر سرکاری خزانہ لوٹنے والے کی شناخت ہی نا ممکن بنا دی گئی۔ ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب چور اچکے لوگ یہ سوچنے لگیں کہ سیاں ّ بھئے کوتوال تو پھر ڈر کاہے کا؟ غنڈہ گردی کے بعد لوٹ کھسوٹ کے معاملے میں بھی سنگھ پریوار کے لوگ فی الحال خوب اپنا اور اپنی مادرِ تنظیم کا نام روشن کرکے اپنے چال ، چرتر اور چہرے کا درشن دے رہے ہیں۔
لوک سبھا میں پیش ہونے والی آیوشمان بھارت یوجنا کے آڈٹ پر اپنی رپورٹ میں کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) نے یہ حیرت انگیز معلومات دی ہے کہ اس پروجکٹ کے تقریباً 7.5 لاکھ مستفیدین ایک ہی موبائل نمبر پر رجسٹرڈ ہیں۔ اس موبائل نمبر میں موجود سبھی 10 نمبر میں 9 کا ہندسہ ہے ۔ یعنی موبائل نمبر 9999999999 پر آیوشمان بھارت یوجنا کے لیے تقریباً 7.5 لاکھ لوگوں نے رجسٹریشن کرایا ہوا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس موبائل نمبر پر 7.5 لاکھ لوگوں کا رجسٹریشن کیا گیا تھا، وہ نمبر بھی غلط تھا۔ یعنی اس نمبر کا کوئی بھی سِم
کارڈ موجود ہی نہیں ہے ۔ بی آئی ایس کے ڈاٹابیس کا جائزہ لینے سے اتنی بڑی تعداد میں فرضی رجسٹریشن کا انکشاف ہوا ہے ۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ تقریباً ایک لاکھ 39 ہزار 300 لوگوں نے آیوشمان بھارت یوجنا کے لیے موبائل نمبر 8888888888 پر رجسٹریشن کرایا ہے ۔ اسی طرح 96 ہزار 46 لوگوں نے موبائل نمبر 9000000000 پر رجسٹریشن کرایا ہے ۔ سی اے جی رپورٹ کے مطابق تقریباً 20 دیگر ایسے موبائل نمبر سامنے آئے ہیں جن سے 10 ہزار سے لے کر 50 ہزار مستفیدین جڑے ہوئے ہیں۔ اسی کو اندھیر نگری اور چوپٹ راجہ کہا جاتا ہے ۔
نیشنل ہیلتھ اتھارٹی (این ایچ اے ) نے سی اے جی کی رپورٹ کے آڈٹ سے اتفاق کرلیا ہے ۔ اب وہ بی آئی ایس 2.0 تعینات کر کے اس مسئلہ کا حل نکالنے کی یقین دہانی کرا رہی ہے ۔ دراصل بی آئی ایس 2.0 سسٹم کو اس طرح تیار کیا گیا تھا اس کی مدد سے ایک طے شدہ تعداد سے زیادہ کنبے ایک ہی موبائل نمبر کے تحت رجسٹر نہ ہو پائیں۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ نظام تو پہلے سے موجود تھا اس کے باوجود اتنا بڑا گھپلا کیسے ہوگیا ؟ وہ کون لوگ ہیں جو اس کے لیے ذمہ دار ہیں ؟ اور کیا مودی سرکار ان لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائے گی؟ اس کا امکان کم ہے ۔ مودی سرکار میں کوئی ایک بھی محکمہ بدعنوانی کی لعنت سے محفوظ نہیں ہے ۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ وزارت برائے دیہی ترقیات ضعیف، معذور اور بیوہ پنشن منصوبوں کا پیسہ دیگر منصوبوں کی تشہیر میں خرچ کر نے میں پس و پیش نہیں کیا گیا؟ ایک طرف رام نام کی لوٹ مچی ہوئی ہے اور دوسری جانب مدھیہ پردیش میں پرینکا گاندھی پر صوبائی حکومت کو بدعنوان کہنے کے الزام میں مقدمات دائر کرکے گھیرا جارہا ہے ۔ چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوے کہا کہ ایف آئی آر درج کیے جانے سے سچائی چھپ نہیں جائے گی۔وہ بولے بی جے پی کا مشن ہے 50 فیصد کمیشن ہے اور اس کی گواہی ٹھیکیدار خود خط لکھ کردے رہے ہیں۔ اس لیے مزید کیا ثبوت چاہیے ؟ یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب کانگریس کی مدھیہ پردیش یونٹ کے سابق ریاستی صدر ارون یادو نے مائیکرو اینڈ میڈیم کیٹگری کانٹریکٹر ایسو سی ایشن کا ایک خط جاری کر حکومت کو گھیرا، اس خط میں 50 فیصد کمیشن دیئے جانے کی بات کہی گئی تھی۔ بدعنوانی کے تالاب میں بی جے پی بالکل برہنہ ہوچکی ہے اس لیے وزیر اعظم نے لال قلعہ کی فصیل سے بدعنوانی کا ذکر کرکے خوداپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی ہے ۔ اروند کیجریوال نے درست ہی کہا ہے کہ پچھلے 75 سالوں میں اس سے زیادہ بدعنوان سرکار ہندوستان میں نہیں آئی۔
٭٭٭