... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
انسان فطرتاً آزاد پیدا کیا گیا ہے ۔ غلامی اس کی فطرت سے انحراف ہے الاّ یہ کہ وہ اپنی فطرت ِ حنیفہ سے غافل و بے نیاز ہوجائے یا پھر بزورِ قوت مجبور کردیا جائے ۔ آزادی کے استعمال میں بغاوت و نافرمانی کا خطرہ موجود ہے جو زمین میں فتنہ و فساد کا سبب بنتا ہے اسی لیے جیسے ہی رب کائنات نے اپنے برگزیدہ فرشتوں کے سامنے تخلیق آدم کا ذکر فرمایا ان لوگوں نے اس اندیشے اظہار کردیا۔ ارشادِ قرآنی ہے : ”پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ”میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں”انہوں نے عرض کیا: ”کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقر ر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں” اس کے جواب میں فرمانِ ربانی ہے : ”میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے ”۔ آگے چل کر علم کی بنیاد پر حضرتِ آدم کی فوقیت کو ثابت کردینے کے بعد قرآن کا بیان ہے :”پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ، تو سب جھک گئے ، مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا”۔
کائنات کے نظم و انصرام میں اہم ذمہ داری ادا کرنے والے فرشتوں کو مسخر کرکے یہ پیغام دیا گیا کہ یہ خلیفہ کسی مخلوق کے آگے نہیں جھکے گا۔ اس کے بعد حضرت انسان کی سرشت میں اس طرح آزادی و دیعت کی گئی کہ :پھر ہم نے آدم سے کہا کہ ”تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کا رُخ نہ کرنا، ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے ”۔ اس طرح بے شمار آزادیوں کے ساتھ ایک پابندی بھی لگادی گئی تاکہ اس کا پاس و لحاظ کر کے وہ اپنے آپ کو آزادی کا حقدار ثابت کرسکے ۔ یہ پابندی چونکہ بغرض آزمائش ہے اس لیے اس کی ترغیب دینے والے ابلیس کو بھی بہکانے کی آزادی دے دی گئی تاکہ اس کے لیے شکایت کا موقع نہ رہے ۔ ارشادِ قرآنی ہے :”آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اُس حالت سے نکلوا کر چھوڑا، جس میں وہ تھے ”۔اس طرح ابتدائے آفرینش میں ہی بنی نوع انسان شیطان کے خطرے سے خبردار کردیا گیا کہ آزادی کا غلط استعمال وبالِ جان بن جائے گا۔
حضرت آدم کو ایک امتحان سے گزار دینے کے بعد اس امتحان گاہ میں روانہ کردیا گیا جس کے لیے نسلِ انسانی کی تخلیق کی جانی تھی اور حکم دیا کہ :اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے”۔ دنیا میں آنے سے قبل :آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی، جس کو اس کے رب نے قبول کر لیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ”۔جنت کے اندر دنیا میں پیش آنے والے حالات سے عملاً آگاہ کرنے کے بعد بھول چوک کی تلافی کا سلیقہ بھی سکھا دیا گیا اور آگے کے لیے یہ ہدایت فرما دی گئی کہ:تم سب یہاں سے اتر جاؤ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے ، تو جو لوگ میر ی ہدایت کی پیروی کریں گے ، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہو گا”۔اس طرح اُس غلط عقیدے کی نفی ہوجاتی ہے کہ حضرت آدم کسی گناہ کی پاداش میں اس کا بوجھ لے کر دنیا میں آئے تھے بلکہ یہ بتایا گیا کہ دنیا میں آنا تو نوعِ انسانی کا مقدر تھا۔ اس کے ساتھ یہ تنبیہ بھی کر دی گئی کہ :”اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے ، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ”۔
رب کائنات نے بنی نوع انسانی کو اس کے انجام سے آگاہ کردینے کے بعد جو آزادی عطا فرمائی اس کا کوئی حکمراں یا نظام تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ دنیا کے لوگ مختلف مجبوریوں کے پیش نظر یا مفادات کی خاطر آزادی و حریت کا نعرہ لگاتے ہیں مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے یہ اہتمام کسی مجبوری یا دباو کے تحت نہیں کیا گیا بلکہ آزمائش کا تقاضے کے طور پر برضاو رغبت عطا کی گئی ۔ ارشادِ سبحانی ہے :” اگر تیرا رب چاہتا تو روئے زمین پر جتنے لوگ بھی ہیں سب ایمان قبول کرلیتے ”۔ اس آفاقی حقیقت کو بیان کرنے کے بعد محبوب خداوندی سے کہا جارہا ہے :” تو کیا آپ لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ مومن بن جائیں؟” عوام کی دین کے معاملے میں غفلت وانکار سے نبی کریم ۖ کی فکر مندی کو اللہ تبارک و تعالیٰ اس طرح بیان فرماتا ہے کہ شاید اآپ اس غم میں اپنی جان کھو دوگے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے لیکن پھر یہ تلقین بھی فرمائی گئی کہ :”’آپ یاد دہانی فرمادیں ۔ آپ تو بس ایک یاددہانی کردینے والے ہو۔آپ ان پر داروغہ نہیں مقرر ہیں”۔ یہ دراصل انسانی آزادی کی معراج ہے ۔ اس آزادی کو اللہ کی بندگی میں کھپا دینا انسانوں کو ہر طرح کی غلامی سے نجات دے دیتا ہے ۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے
یہ ایک سجدہ جسے تو گراںسمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
علامہ اقبال کی فارسی نظم ”در معنی حریت اسلامیہ و سر حادثہء کربلا”۔ میں واقعہ کربلا کے حوالے سے آزادی کا تصور واضح کیا گیا ہے ۔ اس نظم کے اندر اسلام میں حریت کا تصور بڑے زور و شور کے ساتھ پیش کیا گیا ۔اس کے پہلے ہی شعرِ کا مفہوم ہے ”جس نے بھی اللہ تعالیٰ سے اپنا پیمان باندھ کر اس کی عبودیت کو اختیار کر لی، اس کی گردن ہر دوسرے معبود کی غلامی سے آزاد ہوگئی ”۔آگے فرماتے ہیں ”صاحب عشق کی جان کو آرام تب نصیب ہوتا ہے ، جب وہ حریت اور آزادی حاصل کر لیتا ہے ”۔
اس تناظر میں امام حسین کوفاطمة الزہراکی اولاد میں سے عاشقوں کے امام اور رسول اللہۖ کے گلستان میں انہیں سرو آزاد کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے ۔ آگے چل کر ساری امت بلکہ ساری انسانیت کے لیے امام حسین کے کردار سے آزادی کا پیغام اس طرح بیان کیا گیا کہ: جب خلافت نے قرآن سے اپنے رشتہ کو توڑ لیا تو امام حسین نے ملوکیت سے نجات کے لیے مسلمانوں کو حریت کا پیغام دیا۔ وہ کربلا کی زمین پر بادلوں کی طرح آئے اور برس کر اس طرح سے چلے گئے کہ ویرانوں کو لالہ زارکردیا ۔ انھوں نے قیامت تک کے لیے استبداد کی جڑ کاٹ دی اور اس سرزمین پر اپنے خون سے چمن پیدا کر دیے ۔
وہ حق کی خاطر خاک و خون میں غلطاں ہوئے ، اسی لیے انھیں بنائے لا الہ کہا جاتا ہے ۔مسلمان اللہ کے علاوہ کسی کا بندہ نہیں بن سکتا اور
اس کا سر کسی فرعون کے سامنے نہیں جھک سکتا۔ امام حسین نے اس بھید کی اپنے خون کے ذریعہ تفسیر کی ہے اور اپنی اور اپنے انصار و اہل بیت کی قربانی دے کر سوئی ہوئی ملت کو بیدار کیا ہے ”۔
علامہ اقبال آزادی کی عظمت کے ساتھ غلامی کی آفت کا بھی ذکرکیا ہے ۔ حکیم الامت کے مطابق غلامی انسان کے ضمیر کو سلا دیتی ہے اور اسے حرکت و جرأت سے محروم کر دیتی ہے ۔ غلامی سے دل انسانوں کے بدن میں مر جاتے ہیں اور غلامی سے روح انسان کے تن کے لیے بوجھ بن جاتی ہے ۔ غلامی کی وجہ سے شباب میں بھی بڑھاپا طاری ہو جاتا ہے اور انسان کچھ کرنے سے محروم رہ جاتا ہے ۔ غلامی سے کچھار میں موجود شیر بھی حرکت اور جرأت سے عاری ہو جاتا ہے ۔ غلامی کی حالت میں ملت کی انجمن فرد فرد ہو جاتی ہے اور معرکے میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مقابلہ نہیں کرتی”۔ایک اور مقام پر کہتے ہیں”عالم غلامی میں ذوق دیدار اور محبوب کی محبت کے لیے جستجو کی تمنا جاتی رہتی ہے ۔ لہٰذا غلام سے اس ذوق یا بیداری کی توقع کریں ”۔علامہ اقبال کا خود شناس مرد آزاد ایک مضبوط قوت ارادی کا مالک ہوتا ہے اس لیے وہ آمریت، ملوکیت ، بادشاہت اور جمہوریت کے ظلم و استبداد کا خاتمہ کرکے خلافت کے ذریعہ حقیقی آزادی کا پیغام دیتا ہے ۔ علامہ فرماتے ہیں
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا؟ زورِ حیدر، فقر بوذر، صدق سلمانی