وجود

... loading ...

وجود

نوح میں دہشت کی حکمرانی

بدھ 16 اگست 2023 نوح میں دہشت کی حکمرانی

معصوم مرادآبادی

ہریانہ کے شہر نوح میں فرقہ وارانہ تصادم کے بعد دہشت کی حکمرانی ہے ۔ دہشت پسندوں کی شرانگیزیوں کے بعدپولیس اور انتظامیہ مسلمانوں پر یک طرفہ قہر ڈھارہے ہیں۔ ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد مسلمانوں کے مکانوں اور کاروباری اداروں کے وحشیانہ انہدام کا سلسلہ تو رک گیا ہے ، لیکن اندھا دھند گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے ۔اس کے علاوہ مسلمانوں کے سرپہ معاشی اور سماجی بائیکاٹ کی تلوار بھی لٹک رہی ہے ۔ سپریم کورٹ میں اس معاملے کی سماعت کے دوران عرضی گذارصحافی شاہین عبداللہ نے نوح میں فرقہ وارانہ تصادم کے بعد حصار میں سمست ہندو سماج نامی تنظیم کی طرف سے مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی اپیل کا ویڈیو عدالت میں پیش کیا ہے ۔ عرضی گزار نے اس قسم کی ریلیوں کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کی طعن وتشنیع اور انھیں کھلے عام تشدد اور قتل کرنے کی اپیلوں کا اثر صرف محدود علاقوں تک نہیں رہے گا بلکہ اس سے پورے ملک میں انتشار پھیلے گا۔عرضی میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ ریاست اور ضلع انتظامیہ کو اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت دے کہ اس طرح کی نفرت نگیز تقاریر والی ریلیوں کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوگی۔اس سے قبل نوح میں مسلسل کئی روز تک کی گئی غیرقانونی انہدامی کارروائی پر روک کا حکم دیتے ہوئے عدالت عالیہ نے پوچھا تھاکہ کیا نظم ونسق کے مسئلہ کی آڑ میں ایک مخصوص فرقہ کی جائیداد منہدم کی گئی ہے ؟کیا نسلی صفائے کی مشق کی جارہی ہے ؟دراصل ہریانہ سرکار نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور فساد بھڑکانے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے جس بے شرمی کے ساتھ مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنے کی مہم چلائی، وہ حکمرانی کے نام پر ایک سیاہ داغ ہے ۔ دستور پر ہاتھ رکھ کر سب کے ساتھ بلاتفریق مذہب وعقیدہ انصاف کرنے کا عہد کرنے والی حکومت ہی جب کمزور طبقوں کے ساتھ ظلم وستم کی علامت بن جائے تو پھر اس ملک میں باقی ہی کیا رہتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہائی کورٹ کو اس معاملے میں مداخلت کرنی پڑی اور اس نے صوبائی حکومت کی سرزنش بھی کی۔ بعد کو اس معاملہ پر سخت تبصرے کرنے والے ججوں کو تبدیل کردیا گیا۔ اس کے بعد معاملہ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے جسٹس ارون پلی کی ڈویژن بنچ کے پاس پہنچ گیا ہے ، جہاں سرکار کو تحریری جواب داخل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
اگرہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے نوح میں مسلمانوں کے مکانوں اور تجارتی اداروں پرچل رہے بلڈوزور پر روک نہیں لگائی ہوتی تو اب تک یہ علاقہ میدان جنگ کا منظر پیش کررہا ہوتا۔کئی روز تک چلی اس انہدامی کارروائی میں مسلمانوں کی سیکڑوں جائدادیں نیست ونابود کردی گئی ہیں۔اس دوران 750 سے زیادہ مکان، دکانیں،شوروم، جھگیاں منہدم کئے گئے ہیں۔انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ اس دوران 57ایکڑ زمین ناجائز قبضوں سے آزاد کرائی گئی ہے ۔ اس میں روہنگیا پناہ گزینوں کی250 جھگیاں بھی شامل ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن زمینوں پر مسلمان برسوں سے آباد تھے ، وہ فساد ہوتے ہی اچانک ناجائز اور غیرقانونی کیسے ہوگئیں؟ اگر وہ غیرقانونی تھیں تو پھر انھیں منہدم کرنے سے پہلے مکینوں کو نوٹس کیوں نہیں دئیے گئے ؟یہ اور اس جیسے ڈھیروں سوالات اس انہدامی کارروائی کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں، لیکن ان میں سے کسی کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
نوح میں جس یاترا کے دوران فساد برپا ہوا تھا، اس میں شرپسندوں نے مسلمانوں کو حددرجہ مشتعل کرکے ان پر حملے کئے تھے ۔ جب مسلمانوں نے اپنے دفاع میں اقدام کیا تو انھیں سرکاری مشنری نے یک طرفہ طورپر نشانہ بنایا۔ نہ صرف سیکڑوں مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیابلکہ ان کی املاک کو جس بے دردی اور سفاکی کے ساتھ منہدم کیا گیا ہے ، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ نوح میں برپا ہوا تشدد پوری طرح انتظامی مشنری کی ناکامی کا مظہر تھا، لیکن کسی سرکاری اہل کار سے کوئی بازپرس نہیں کی گئی اور نہ ہی ہندو انتہا پسند تنظیموں کے ان دہشت پسندوں سے کچھ کہا گیا جنھوں نے نوح میں تشدد کا اسکرپٹ لکھا تھا۔25سے زائد مسلمانوں کے خلاف قتل کے مقدمات درج کئے گئے ہیں اور انھیں ایسی سنگین دفعات میں ماخوذ کیا گیا ہے کہ وہ ساری عمر ایڑیاں ہی رگڑتے رہیں گے ۔ اس کے برعکسمسلمانوں کو کھلی دھمکیاں دینے والے مونو مانیسر اور اور بٹو بجرنگی کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے ۔انتظامی مشنری کی جانبداری کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف سوشل میڈیا پربے ہودہ پروپیگنڈہ کرنے والے بٹو بجرنگی کو پولیس نے معمولی دفعات کے تحت گرفتار تو کیا، لیکن اسے تھانے سے ہی ضمانت دے کر آزاد کردیا گیا۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ بی جے پی اقتدار والی کسی ریاست میں مسلمانوں کو بے گھر اور بے در کیا گیا ہے بلکہ اس سے پہلے اترپردیش اورمدھیہ پردیش میں بھی ہی سب کچھ ہوچکاہے ۔مذہبی جلوس میں پتھراؤ کا الزام لگاکر سیکڑوں مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کو منہدم کیا گیاہے ۔ آج بی جے پی کے اقتدار والی کئی ریاستوں میں مسلمان بڑی بے بسی اور بے کسی کی زندگی گزاررہے ہیں۔یہی سب کچھ ہریانہ کے نوح اور دیگر شہروں میں بھی ہوا ہے ۔سب کے ساتھ یکساں انصاف کرنے کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی حکومتیں مسلمانوں کے ساتھ جس ظلم وناانصافی کا مظاہرہ کررہی ہیں، وہ ہندوستانی دستور کا کھلا مذاق ہے ۔ دستور میں واضح طور پر بلاتفریق مذہب وعقیدہ سبھی شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کے کاندھوں پر ڈالی گئی ہے ۔لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دستوری ضمانت بے معنی ہوچکی ہے ۔ اندھی فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی ہی بی جے پی سرکاروں کا ایجنڈا ہے جس پر پوری بے شرمی کے ساتھ عمل کیا جارہا ہے ۔ ہریانہ میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی اور نفرت انگیز تقاریر کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے ملک میں نفرت انگیز تقریروں پر مرکزی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے پورے ملک میں اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے کمیٹی بنانے کا حکم جاری کیا ہے ۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہفرقوں کے درمیان ہم آہنگی ہونی چاہئے ۔ جسٹس سنجیو کھنہ اور ایس وی این بھٹی کی بنچ نے نفرت انگیز تقریروں پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کو کوئی قبول نہیں کرسکتا۔سپریم کورٹ کے روبرو مرکز کی نریندرمودی حکومت نے اس قسم کی نفرت انگیز تقاریر سے پلہ جھاڑتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی حمایت نہیں کرتی تاہم حکومت نے عدالت کو یہ نہیں بتایا کہ ہریانہ میں اسی کی حکومت ہونے کے باوجود اس طرح کے عناصر کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہورہی ہے ؟
نوح کے واقعات کے بعد پوری ریاست میں مسلمانوں کا جینا محال کردیا گیا ہے ۔ سیکڑوں خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ کئی
پنچایتوں میں ان کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی تجاویز منظور کی گئی ہیں، لیکن ان معاملوں میں سرکاری مشنری نے خاطیوں کو سزا دینے کے لیے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے ۔گروگرام میں مسلمانوں کو ملازم رکھنے والوں کو وارننگ دی گئی ہے کہ اگر انھوں نے ایسا کیا تو وہ قوم کے غدار کہلائیں گے ۔ غرضیکہ ہریانہ میں اس وقت مسلمان ہونا سب سے بڑا جرم ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہریانہ کے متاثرہ مسلمانوں کی ہرسطح پر دادرسی کی جانی چاہئے اور انھیں ہرقسم کی قانونی، معاشی اور اخلاقی امداد فراہم کی جائے ، تاکہ وہ موجود حالات سے نبرد آزما ہو سکیں۔ نوح میں مسلمانوں کی کمر توڑ دی گئی ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے میں پاکستان کردار ادا کرے وجود جمعه 11 اپریل 2025
فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے میں پاکستان کردار ادا کرے

ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا جھگڑا کیا ہے؟ وجود جمعه 11 اپریل 2025
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا جھگڑا کیا ہے؟

ٹیرف کی وجہ سے عالمی سطح پر بے چینی وجود جمعه 11 اپریل 2025
ٹیرف کی وجہ سے عالمی سطح پر بے چینی

بھارت غیر قانونی منشیات سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک وجود جمعرات 10 اپریل 2025
بھارت غیر قانونی منشیات سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک

امن کا درس وجود جمعرات 10 اپریل 2025
امن کا درس

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر