... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوم آزادی سے ایک دن پہلے خیر سے نگران وزیر اعظم کا مسئلہ بھی اب حل ہوگیا۔ یوم آزادی کے دن انوارالحق کاکڑحلف بھی اٹھا لیں گے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ نام اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کی طرف سے پیش کیا گیا تھا جس پر جمعیت علما ئے اسلام پاکستان کے سینئر رہنما حافظ حسین احمدکا تبصرہ انتہائی خوبصورت ہے لیکن اس سے پہلے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا خط بھی ملاحظہ فرمالیں جو انہوں نے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی تقرری پر مسلم لیگ ن کے قائدنواز شریف کو لکھا ہے ۔ میاں محمد نواز شریف صاحب امید ہے آپ بمعہ اہلِ خانہ خیریت سے ہوں گے۔ میرا آج کا پیغام گزشتہ پیغام مورخہ 22 جولائی 2022 کا تسلسل ہے کیونکہ جن مسائل کا ذکر میں نے پہلے کیا تھا کاش کہ ان میں کمی آتی لیکن حسب روایت ان میں اضافہ ہوتا گیا ۔اس کا الزام کسی پر ڈالنے کے بجائے ہم اپنی شومئی قسمت کو ہی ٹہرائیں تو بہتر ہوگا ۔وہی بلوچستان وہی جبری گمشدگیاں، سیاسی حل کے بجائے بندوق سے مسئلے کے حل کی کوشش، سیاست دانوں کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی طرف آس لگانا یا ان کی مشاورت سے مسئلے کا حل تلاش کرنا۔ میاں صاحب، ہم پر جو گزری یا گزر رہی ہے وہ ہماری قسمت لیکن حیرانگی اس بات سے ہے جو آپ لوگوں پر گزری اس سے ابھی تک سبق نہیں سیکھا ہمیں جنرل ایوب سے لیکر جنرل مشرف کے مظالم اچھی طرح یاد ہیں لیکن آپ کی جماعت مشرف اور باجوہ کی سازشوں اور غیر آئینی اقدامات کو اتنی جلدی فراموش کرکے ایک بار پھر رات کی تارکیوں میں بغیر اتحادیوں کو اعتماد میں لیے قانون سازی کرکے، جمہوری اداروں کو کمزور کرکے غیر جمہوری طاقتوں کو مزید طاقتور کرکے جمہوریت کے تابوت میں مزید کیلیں ٹھوکنے کے مترادف ہوگا انسانی حقوق کے برخلاف قانون سازیاں شاید ہم سے زیادہ مستقبل میں آپ حضرات کے ہی خلاف استعمال کی جائیں گی۔ کیونکہ ہم بلوچستان کے باسیوں کو روزِاول سے انسان سمجھا ہی نہیں گیا ۔سی پیک سے اہل بلوچستان کو کیا حاصل ہوا؟ آپ سے بہتر اور کون جان سکتا ہے؟ کتنے موٹروے، بجلی اور شمسی توانائی کے منصوبے، میٹرو ٹرینوں اور بسوں سے لے کر صحت اور تعلیم کی سہولتوں سے لے کر پینے کے پانی کے جو منصوبے اور سہولتیں مہیا کی گئی ہیں وہ دنیا کی ترقی کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں۔ موجودہ دور میں گوادر یونیورسٹی کے قیام بمقام لاہور کا بھی اعلان کیا گیا جو میں سمجھتا ہوں بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ گوادر ایئرپورٹ کا نام بجائے کسی بلوچستان کی سیاسی یا سماجی شخصیت کے کسی ایسے شخص کے نام کر دیا جس کے نام سے شاید ہی بلوچستان کے لوگ واقف ہوں، گزشتہ مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی جوکہ تقریبا 2کروڑ 24 لاکھ کے قریب بنتی تھی، سی سی آئی کی میٹنگ میں 73 لاکھ کم کرکے کیا پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کسی بھی اہم فیصلے میں اتحادیوں کو اعتماد میں لیے بغیر فیصلے کرنا بد اعتمادی ہی کو دوام بخشے گا، بڑے اور چھوٹے صوبوں کے درمیان نفرتوں کی مٹی سے بنائے گئے ان میناروں کی اونچائی اور مضبوطی میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوسکتا ہے۔ اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنے مستقبل میں آنے والی حکومت کی راہ ہموار کرنے کے لیے قانون بنائے اور توڑے بھی جاتے ہیں لیکن اس کے برعکس اہلِ بلوچستان کو اپنے پیاروں کے لیے آوز اٹھانا اور آنسو بہانہ بھی خلافِ قانون ہے۔ آپ کے گزشتہ دوا دوارِ حکومت میں بھی یہ سب کچھ ہوتا رہا اور ہم پچھلی بار کی طرح اس بار بھی یہ تصور اور خیال کر بیٹھے کہ شاید ان تلخ تجربات کے بعد آپ کی جماعت کو اب احساس ہوگیا ہوگا لیکن آپ کی جماعت نے ہمیں پہلے بھی غلط ثابت کیا اور اب بھی کاش کہ ہمیں مطالعہ پاکستان کی نصاب کی کتابوں میں گزشتہ 76 سالہ تاریخ پڑھائی جاتی تو شاید ہم تاریخ سے سبق حاصل کرتے لیکن اب تو ہم اور آپ تاریخ کے سامنے صرف اور صرف جواب دہ ہیں۔ آج نگراں وزیرِ اعظم کی نامزدگی ایسے شخص کی کی گئی جس سے ہم پر سیاست کے دروازے بندکردیے گئے ہیں بلکہ آپ کے اس طرح کے فیصلوں نے ہمارے اور آپ کے درمیان مزید دوریاں پیدا کر دی ہیں۔
اب حافظ حسین احمد کا نگران وزیر اعظم کے تقرر پر خوبصورت تبصرہ بھی ملاحظہ فرمالیں کہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا نام سابق وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کے لیے بھی سرپرائیز ثابت ہوا۔ فیصلہ کرنے والی یہ دونوں شخصیات انتہائی مطیع اور فرمابردار ثابت ہوئیں۔ ماضی میں اقتدار سے ہٹانے کے لیے کاکڑ فارمولہ استعمال ہوا جبکہ اب کاکڑ کو بٹھانے کے لیے وہی انداز اپنایا گیا۔ بلوچستان کی محرومیوں کو لیپا پوتی کے لیے چھپایا تو جاتا ہے ختم نہیں کیا جاتا۔ دیکھتے ہیں کہ فرزند بلوچستان ثانی برادرم انوار الحق کاکڑ بلوچستان کے سونا چاندی، معدنیات، ساحل و وسائل اور مسنگ پرسنز کے حوالے سے محرمیوں کو کم کرنے کے لیے ترازو کے پلڑوں کو برابر رکھ سکیں گے؟ جبکہ ماضی میں کاکڑ فارمولے کے تحت میاں نواز شریف کا تختہ الٹا گیا تھا، ایک بار پھر اسی فارمولے کے تحت کاکڑ کو لایا گیا ہے، اس بار دیکھا جائے کس کس کو تخت پر بٹھایا جائے گا نگران وزیر اعظم کی تقرری تو ہوچکی لیکن تمام جماعتوں کی جانب سے انتخابات میں تاخیر کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ خدشہ ہے کہ ٹرینوں کی طرح جمہوریت کو بھی پٹری سے اتارنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا اظہار خواجہ آصف اور رانا ثنا اللہ سمیت دیگر رہنما دبے لفظوں میں کررہے ہیں جو جمہوری نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ آئین و قانون کے مطابق مقررہ مدت میں انتخابات کرائیں جائیں تاکہ جمہوری عمل جاری رہے اور نئی اسمبلیوں سے سینیٹ کے انتخابات کرائے جاسکیں۔
آخر میں کچھ اپنی طرف سے بھی لکھتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عوام کو اپنے مسائل کا حل چاہیے نہ کہ سیاستدانوں کے مسائل کا حل۔ ہمارے سیاستدانوں نے لڑتے لڑتے دنیا جہاں میں جائیدادیںبنا لیں جبکہ عوام نے انکی خاطر اپنا گھر بار بھی تباہ کرلیا۔ رشتے داریاں اور دوست گنوا لیے۔ اس بار نگران ہی کچھ نہ کچھ کرجائیں تو آزادی کا حق ادا ہوجائیگا ۔
٭٭٭