وجود

... loading ...

وجود

قائد اعظم اور آٹھ سالہ بچے کا نعرہ

پیر 14 اگست 2023 قائد اعظم اور آٹھ سالہ بچے کا نعرہ

ڈاکٹر جمشید نظر

تاریخی کتابیں بتاتی ہیں کہ برصغیر میں جتنی بھی قومیں حملہ آور ہوئیں وہ سب بعد میںمقامی تہذیب(ہندو تہذیب) میںجذب ہوکر اپنی الگ پہچان کو مٹا بیٹھیں لیکن اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے ہزاروں سال ہندو تہذیب کے ساتھ رہ کر بھی اپنی علیحدہ پہچان کو برقرار رکھااورپھر برصغیر پر اپنی حکمرانی قائم کی۔مغلیہ سلطنت کے آخری عظیم الشان شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی 1707میں وفات کے بعد برصغیر میں مسلمانوں کا ایسازوال شروع ہوا کہ خطہ میںمسلمانوں کا اقتدارختم ہوکر رہ گیا۔مسلمانوں کے زوال کے بعد انگریزوں نے برصغیر پر اپنا قبضہ جمانا شروع کردیا، 1757میں انگریزوں نے پہلے بنگال پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کی اور پھر 1857کی جنگ آزادی کے بعد پورے برصغیر میں انگریز راج قائم کرلیااس طرح مسلمان جو برصغیر پر راج کرتے تھے وہ اپنے ہی خطہ میں محکوم بن کررہ گئے۔
انگریز وں کو ہمیشہ سے اس بات کاخدشہ رہتا تھا کہ مسلمان کہیںپھر سے اپنی حکومت واپس پانے کی کوشش نہ کریں اسی لیے انھوں نے ہندوستان میں ”تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی پالیسی اپناتے ہوئے ہندووں کو اپنے ساتھ ملالیا اور مسلمانوں کے لئے مشکلات پیدا کرتے رہے، ہندو جو ہمیشہ سے مسلمانوں کے خلاف تھے انھوں نے انگریزوں کا منظور نظر بننے کے لالچ میںاورمسلمانوں سے اپنے پرانے بدلے اتارنے کی خاطر ان کا معاشی،تعلیمی و سیاسی استحصال کرنا شروع کردیااس صورتحال کو دیکھ کر سر سید احد خان کو اندازہ ہوا کہ ہندو کبھی بھی مسلمان کے دوست نہیں ہوسکتے چنانچہ جب ہندووں نے اردو زبان کو ختم کرکے ہندی زبان کورائج کرنے کا تنازع کھڑا کیا تو سر سید احمد خان نے واضح الفاظ میں اعلان کردیا کہ” مسلمان اور ہندو الگ الگ قومیں ہیں”۔
دو قومی نظریہ مذہب اور تہذیب کی بناء پر قائم ہوا جس کی بنیاد اسی وقت پڑ گئی تھی جب برصغیر میںپہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔قائد اعظم نے 1944ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا”پاکستان تو اسی روز وجود میں آگیا تھا جب پہلا ہندوستانی باشندہ مسلمان ہوا تھا”۔ حضرت مجدد الف ثانی برصغیر کے پہلے بزرگ تھے جنھوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد رکھی۔کہا جاتا ہے کہ جنوبی ہندوستان کے ایک ہندو فلسفی رامانج نے ایک تحریک کا آغاز کیا جس کا نام ”بھگتی تحریک”تھا اس تحریک کے تحت ہندو سادہ لوح مسلمانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ رام اور رحیم میں کوئی فرق نہیں،تحریک کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو ہندووں میں ضم کرنا تھا ۔اس دور میںحضرت مجدد الف ثانی نے ہندو بھگتوں کی سازش کو بے نقاب کیا اور مسلمانوں کو دین سے بھٹکنے سے بچایا۔ حضرت شاہ ولی اللہ بھی دو قومی نظریے اور مسلم قومیت پر یقین رکھتے تھے اسی طرح دیگرمسلمان زعماء مولانا جمال الدین افغانی ،مولانا عبدالحلیم شرر،ولایت علی بمبوق،مولانا مرتضیٰ احمد،مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی دو قومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو علیحدہ قوم قرار دیا۔ایک انگریز مفکر ”جان برائٹ ”نے برطانوی راج کے قیام کے صرف ایک سال بعد یعنی 24جون1858کو مسلمانوں کی الگ ریاست کا تصور پیش کیا تھا۔
قائد اعظم محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ اقبال سمیت تحریک پاکستان کے دیگر رہنماؤں نے دو قومی نظریے کے تحت الگ وطن پاکستان کا مطالبہ کیا تو ہندووں نے اس کی مخالفت شروع کردی۔ ایک مرتبہ سن1941 ء میں قائد اعظم مدراس میں مسلم لیگ کا جلسہ کرکے واپس جارہے تھے کہ راستے میں ایک قصبہ سے گزر ہوا جہاں مسلمانوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا،سب پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگارہے تھے اسی ہجوم میں پھٹی پرانی نیکر پہنے ایک آٹھ سال کا بچہ بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگارہا تھا،اسے دیکھ کر قائد نے اپنی گاڑی روکنے کو کہا اور لڑکے کو پاس بلا کرپوچھا”تم پاکستان کا مطلب سمجھتے ہو؟”لڑکا گھبراگیا۔قائد نے اس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے پیار سے پھروہی سوال پوچھا۔لڑکا بولا”پاکستان کا بہتر مطلب آپ جانتے ہیں،ہم تو بس اتنا جانتے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومت وہ پاکستان اور جہاں ہندووں کی حکومت وہ ہندوستان”۔قائد اعظم نے اپنے ساتھ آئے صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ”مدراس کا چھوٹا سا لڑکا پاکستان کا مطلب سمجھتا ہے لیکن گاندھی جی نہیں سمجھ سکتے”۔یہ بات صحافیوں نے نوٹ کرلی اور اگلے روز دنیا کے اخبارات میںیہ خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی جس کے بعد دنیا جان گئی کہ مسلمان اور ہندو ،دو الگ قومیں ہیں۔
مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ اتنا فطری تھا کہ 1947میں پاکستان وجود میں آگیالیکن انگریزوں اور ہندووں نے ایک سازش کے تحت پاکستان کو بہت سے مسلمان اکثریتی علاقوں سے محروم کردیا جن میں مقبوضہ کشمیر بھی شامل ہے ۔3جون 1947ء کوپاکستان اور بھارت کی سرحدوں کا تعین کرنے کے لیے ایک باونڈری کمیشن تشکیل دیا گیا ،برطانوی حکومت نے ریڈ کلف کو اس کا سربراہ منتخب کیا جبکہ قائد اعظم برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے لاء ممبر کو باونڈری کمیشن کا سربراہ بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ریڈ کلف کو چونکہ وائسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن کے کہنے پرکمیشن کا سربراہ مقرر کیا تھا، اس لیے اس نے ریڈ کلف پر دباؤ ڈال کرہندوستان کی غیر منصفانہ تقسیم کی جس سے قائداعظم کی دور اندیشی ثابت ہوگئی کہ وہ ریڈ کلف کے بجائے کسی اور کو باونڈری کمیشن کا سربراہ بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ہندوستان کی تقسیم کے موقع پرہندووں نے سازش کرکے مقبوضہ کشمیر پر اپنا غیر قانونی تسلط قائم کرلیا حالانکہ کشمیر کی سرحد بھارت کے بجائے پاکستان سے ملتی ہے اور وہاں مسلمان اکثریت میں آباد تھے۔بھارت نے ایک چال کھیلتے ہوئے اقوام متحدہ میں کشمیر سے متعلق قرار داد پیش کی،اس کا خیال تھا کہ اقوام متحدہ اس کے تسلط کو درست قرار دے گا لیکن بھارت خود اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنس گیا، اقوام متحدہ نے کشمیر کی ریاست میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرانے کی قرارداد منظور کی تاکہ کشمیری عوام کی رائے معلوم ہوسکے کہ وہ ہندوستان اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں۔بھارت نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو ماننے سے انکار کردیا اورہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوجیں بھیج کر وہاں زبردستی قبضہ کرلیا اور آج تک کشمیریوں کو حق خود ارادیت استعمال کرنے نہیں دے رہا۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد انتہا پسند ہندووں نے جس طرح مسلمان بچوں،بوڑھوں اور نوجوانوں کا قتل عام کیا ، خواتین اورلڑکیوں کی عزتوں کو پامال کیا وہ انسانیت سوز اور دلخراش واقعات ہمیشہ تاریخ کے آئینہ میں یاد رکھے جائیں گے۔بین الاقوامی ویب سائٹ ”پارٹیشن آرکائیو1947” کی ایک رپورٹ کے مطابق تقسیم ہند کے وقت پر تشدد واقعات میں بیس لاکھ افراد مارے گئے۔برطانوی میڈیا کے مطابق پارٹیشن کے وقت تقریبا ڈیڑھ کروڑ افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی۔اتنی بڑی تعداد میں انسانی ہجرت ایک عالمی ریکارڈ ہے۔پارٹیشن کے بعد ابھی پاکستان اپنے پاؤں پر صحیح کھڑا نہیں ہوا تھاکہ11ستمبر1948کو قائد اعظم وفات پاگئے،انا للہ وانا الیہ راجعون۔لاکھوں قربانیوں کے بعد ملنے والے وطن پاکستان کی آزادی کا دن مناتے ہوئے ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ لہو سے جن چراغوں کو روشن کیا گیا ہے ہم ان کوکبھی بجھنے نہیں دیں گے چاہے خون کا ایک ایک قطرہ ہی کیوں نہ بہانا پڑے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر