... loading ...
ریاض احمدچودھری
طلبہ اور نوجوان کسی بھی ملک کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتے ہیں، یہی سبب ہے کہ زندہ قومیں اپنے طلبہ اور نوجوانوں کو مستقبل کا معمار سمجھتی ہیں۔ انفرادی طور پر ہر ملک کے نوجوان اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ لیکن اجتماعی طور پر بر صغیر کے مسلمان نوجوانوں اور طلبہ نے تحریک پاکستان میں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے تاریخ عالم میں ان کا جواب نہیں۔قائد اعظم نے نوجوانوں میں نئی روح پھونک دی تھی۔ تحریک پاکستان میں غریب نوجوان بھی تھے اور متوسط گھرانوں کے نوجوان بھی، لیکن آزادی کی تڑپ اور حصول پاکستان کی لگن ان سب کے سینوں میں برابر موجزن تھی۔ تحریک پاکستان میں لاکھوں مسلم نوجوان قائداعظم محمد علی جناح کی سب سے بڑی طاقت تھے۔ حصول پاکستان میں نوجوانوں نے نمایاں کردار ادا کیا اور اب استحکام پاکستان میں بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
تحریک پاکستان زوروں پر تھی ۔ان دنوں راقم الحروف کے ہاں لاہور سے روزنامہ زمیندار اور روزنامہ احسان آیا کرتے تھے۔ روزنامہ احسان مسلم لیگ کی سرگرمیوں کو زیادہ اہمیت دیتاتھا۔ میں اس وقت لوگوں کو مسلم لیگ کی سرگرمیوں سے آگاہ کیاکرتا تھا۔ امرتسر میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے طلباء تحریک پاکستان میں جوش و خروش سے شامل ہوتے تھے۔ سٹی مسلم لیگ کے صدر شیخ صادق حسن مرحوم اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرپرست اور بزرگ سیاسی رہنما شیخ سراج الدین پال ایڈووکیٹ سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ شیخ سراج الدین پال، شیخ عزالدین پال، ذکی الدین پال اور تقی الدین پال کے والد محترم تھے۔ تحریک پاکستان میں دو محاذوں پر کانگریس کو شکست فاش اٹھانا پڑی۔ قیادت کے محاذ پر قائد اعظم جیسا کوئی دماغ نہ تھا اور نوجوانوں کے محاذ پر جری، بے باک اور جان پر کھیل جانے والے نوجوان نہ تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان میں مسلمان نوجوانوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ قائد اعظم نے مسلمان نوجوانوں کی طاقت کو جس طرح منظم کیا اور جس انداز میں اسے منزل بہ منزل استعمال کیا اس کی مثال دنیا کی کسی بھی ملک کی تاریخ آزادی میں نظر نہیں آتی۔ قیام پاکستان کے وقت دیکھنے میں آیا کہ کس طرح نوجوان نسل نے قائداعظم کاہراول دستہ بن کر قائد اعظم کا پیغام اور تحریک پاکستان کا ایسا چرچا کیا کہ مخالفین کی ہوا اکھڑ گئی جس کی واضح مثال قیام پاکستان سے قبل 1946ء کے عام انتخابات تھے۔طلباء نے دسمبر 1946 کے انتخابات میںمسلم لیگی امیدوار وں کی کامیابی کیلئے بڑے جوش و خروش سے کام کیا اور انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ ہمارے حلقے سے چودھری نصراللہ خاں ایڈووکیٹ کامیاب ہوئے جو داود ضلع ناروال سے تعلق رکھتے تھے۔ بعد میں نصراللہ خاں 1970 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ واحد اکثریتی پارٹی تھی۔ لیکن کانگریسی رہنما مولانا ابوالکلام آزاد بذریعہ طیارہ دہلی سے لاہور آئے اور انہوں نے ہندوؤں کے ساتھ ساز باز کر کے کانگریس، اکالی دل اور یونینسٹ پارٹی کے ساتھ معاملات طے کر کے ملک خضر حیات ٹوانہ کو پنجاب وزیر اعلیٰ بنوا دیا۔
مسلم لیگی کارکنوں اور مسلم ا سٹوڈنٹس فیڈریشن کے طلباء نے امرتسر میں خضر حیات کی وزارت کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے۔ ہم امرتسر میں روزانہ جلوس نکالتے جس میں ملک خضر حیات ٹوانہ کا علامتی جنازہ بھی شامل ہوتا اور طلباء اس پر ڈنڈے برساتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ مظاہرے پورے پنجاب میں پھیل گئے اور بالآخر خضر حیات ٹوانہ کو مستعفی ہونا پڑا۔ بعد ازاں انگریز گورنر نے بھی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم لیگ کو کابینہ بنانے کی دعوت نہ دی۔ بالآخر قیام پاکستان کے بعد نواب افتخار حسین ممدوٹ کو مسلم لیگ کی وزارت بنانے کی دعوت دی گئی۔ وہ قائد اعظم اور دیگر مسلم لیگی رہنماؤں سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔ کابینہ بنانے کے بعد علامہ محمد اسد نے وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر محکمہ احیائے اسلام قائم کیا۔ علامہ اسد تحریک پاکستان کے دوران پاکستان کے مطالبہ کے حق میں انگریزی اخبارات میں مضامین لکھا کرتے تھے۔ قائد اعظمنے نوجوانوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یوں فرمایا:”نوجوان طلبا میرے قابل اعتماد کارکن ہیں۔ تحریک پاکستان میں انھوں نے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دی ہیں۔ طلباء نے اپنے بے پناہ جوش اور ولولے سے قوم کی تقدیر بدل ڈالی ہے۔” 1937 کے کلکتہ کے اجلاس میں قائد اعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”نئی نسل کے نوجوانوں آپ میں سے اکثر ترقی کی منازل طے کرکے اقبال اور جناح بنیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ قوم کا مستقبل آپ لوگوں کے ہاتھوں میں مضبوط رہے گا۔”
٭٭٭