... loading ...
ریاض احمدچودھری
اقبال کاکلام اردو میں کم ہے لیکن فارسی میں زیادہ ہے لہٰذا عوام کی سہولت کے لیے اقبال کے فارسی کلام کو آسان اردو میں پیش کرنا چاہیے۔دجلہ و فرات دودریاؤں کے نام نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک بہت وسیع فکراورنظریات کارفرماہیں۔قربانی کے باب میں حضرت امام حسین ایک معیاربن چکے ہیں۔ برائی کو دیکھو تو قوت سے روکو، نہیں تو زبان سے روکو، یہ دونوں نہیں کر سکتے تو دل سے برا جانو یہ ایمان کا کمزور درجہ ہے۔ انسان مردم شماری میں بہت زیادہ ہیں مگر مرد شناسی میں کم ہیں۔ آج کایزید عالم اسلام پرچڑھ دوڑاہے اور ضرورت ہے کہ امام حسین کاکرداراداکرنے کے لیے کوئی آگے بڑھے اور انسانیت کواس استحصالی نظام سے نجات دلائے۔
عالمی مجلس بیداری فکر اقبال کی نشست میں”گرچہ ہے تابدا ر ابھی گیسوئے دجلہ و فرات” کے عنوان پر فریدالدین مسعود برہانی نے بتایا کہ زیرمطالعہ مصرعہ بال جبریل سے لیا گیا ہے۔ اس وقت معاشرہ زوال کا شکار ہو گیا ہے،دجلہ اور فرات میں اب بھی طغیانی ہے، یعنی حالات ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں، مگر کیا کیا جائے قافلہ حجاز میں اس وقت ایک بھی حسین نہیں۔انسان حالات کا شکار نہیں ہوتا بلکہ حالات خود پیدا کرنے ہوتے ہیں۔علامہ محمد اقبال کو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا گہرا ادراک و احساس تھا اور اس عظمت کے کھو جانے کا شدید ملال تھا۔ مگر وہ اس پر ماتم نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا مقام یاد کراتے ہیں اور انہیں یہ مقام پھر سے حاصل کرنے کا ولولہ اور حوصلہ دیتے ہیں۔ علامہ اقبال کے کلام کا بیشتر حصہ ملت اسلامیہ کی عظمت کی بحالی کے عزم سے مزین ہے۔ علامہ نے ملت اسلامیہ کو خواب غفلت سے بیدار ہونے، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور با وقار قوم کی طرح جینے کا ہنر اور حوصلہ دیا ہے۔
شاعرِ مشرق ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے معروف مفکر، شاعر، مصنف، قانون دان، سیاست دان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ علامہ اقبال محض ایک فلسفی شاعر ہی نہیں بلکہ انسانوں کے انسانوں کے ہاتھوں استحصال کے بھی خلاف تھے۔ علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں مسلم نوجوان کو ستاروں پر کمند ڈالنے اور قوم کو خانقاہوں سے نکل کر میدان عمل میں اترنے کی ترغیب دی۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونکی، جو تحریکِ آزادی میں بے انتہا کارگر ثابت ہوئی۔ علامہ اقبال کے شعری مجموعوں میں بانگ درا، ضرب کلیم، بال جبرئیل، اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، جاوید نامہ شامل ہیں۔
علامہ اقبال کی شاعری کا اصل اور نچوڑ دیکھا جائے تو وہ ملت بیضاکی عظمت رفتہ کی بحالی ہے۔ انکا یہ ایمان تھا کہ عشق مصطفی ۖ میں دین و دنیا کی فلاح ہے اور اسی جذبہ سے ملت بیضاکی عظمت رفتہ کو واپس لایا جا سکتا ہے۔ ملت اسلامیہ کی عزت و سربلندی کے حصول کے لیے وہ شریعت کے اولین سرچشموں سے سیرابی اور صحابہ کرامکی مثالی زندگیوں کوسامنے رکھتے ہوئے نوجوانان ملت کو بیدارکرتے ہیں۔علامہ اقبال اپنے فکر و تخیل کی دنیا میں خود کو ہمیشہ قافلہ حجاز سے وابستہ سمجھتے رہے اور رسول اکرمۖ کی ذات گرامی ان کے قلب و روح کے لیے سامان راحت بنی رہی اور سفرِ زندگی میں ہر قدم پر اقبال ذات مصطفی ۖ ہی کو اپنا ہادی و راہنما تسلیم کرتے رہے۔علامہ محمد اقبال کی شاعری سوئی ہوئی روحوں کو بیدار کرنے والی شاعری ہے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے سوئی ہوئی مسلم امہ کو جگایا اور اپنے اپنے فرائض یاد دلائے۔ علامہ اقبال کی زیادہ تر شاعری فارسی میں ہے لہٰذا ایران میں علامہ اقبال کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حضرت علامہ اقبال کی شاعری پر دنیا کے مختلف ممالک میں آج بھی کام ہو رہا ہے۔ آپ کی شاعری کے تراجم ہو چکے ہیں اور تعلیمی اداروں میں آپ کی شاعری پڑھائی جا رہی ہے۔
حضرت علامہ اقبال راسخ العقیدہ اور پکے مسلمان تھے۔ وہ ملک کے ولی بھی تھے۔ عشق خدا اور عشق رسول ان میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے جس کی جھلک ان کی شاعری میں ملتی ہے۔ حضرت علامہ اقبال نہ صرف شاعر بلکہ عظیم فلسفی بھی تھے۔ حضرت علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں سو سال قبل ہی آج کے حالات کا نقشہ کھینچ دیا تھا۔ ان جیسا شاعر صدیوں بعد کسی قوم کو ملتا ہے اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں علامہ اقبال جیسا ولی اللہ کی صفات رکھنے والا شاعر ملا۔ پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا جبکہ اس کی تعبیر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے پوری کرکے دکھائی۔علامہ اقبال ایک ہمہ جہت شاعر ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ محض ایک شاعر ہی نہیں، بلکہ عظیم مفکر اور فلسفی بھی ہیں۔اقبال ایک ایسے مفکر ہیں جنہوں نے زندگی کے مختلف اور متنوع مسائل پر برسوں مسلسل غور وفکر کے بعد اپنے کلام اور نثری مقالہ جات کے ذریعے ایسے پرازحکمت اور بصیرت افروز خیالات پیش کئے۔جنہوں نے دنیا کے لوگوں کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
علامہ محمد اقبال نے اپنے اشعار کے ذریعے مسلم امہ کو خواب غفلت سے جاگنے کا پیغام دیا اور فلسفہ خودی کو اجاگر کیا مگر مغربی مفکرین کو یہ ایک آنکھ نہ بھایا۔اقبال نے اس دور میں شاعری کو اظہار کا ذریعہ بنایا، جب برصغیر کے مسلمان انگریزوں کی غلامی میں تھے، جب کہ امت مسلمہ کی آنکھیں مغرب کی چمک دمک سے چندھیا چکی تھیں۔ اقبال نے مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لیے اپنے اشعار میں مغربی تہذیب پر تنقید کی، تو وہاں کے نقاد نے شاعرمشرق کا پیغام سمجھے بغیر ہی ان کے خلاف محاذ کھول لیا۔
٭٭٭