... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
پاکستان میں اس وقت نوجوان آبادی کا تناسب تاریخ کی سب سے بلند ترین سطح پر ہے۔ پاکستان دنیا کے اواخرمیں وجود میں آنے والے چند ملکوں میں سے اور جنوبی ایشیا میں افغانستان کے بعد وجود میں آنے والا دوسرا ملک ہے۔ ہمارے ملک کی کل آبادی میں 68 فیصد لوگ تیس سال سے کم عمر اور 32 فیصد پندرہ سے بیس سال کی عمر کے درمیان ہیں۔اقوام متحدہ اورورلڈو میٹرز( Worldometers)کے تازہ اعداشمار کے مطابق اس وقت پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے جس میں سے تقریبا ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔نوجوان کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ۔
اقوام متحدہ کے زیراہتمام نوجوانوں کا عالمی دن ہر سال 12 اگست کو پوری دنیا میں منایا جاتاہے۔ اس دن کا مقصد نوجوانوں کے مسائل اور ان کی ترقی کے لیے مواقعوں کو تلاش کرنا اور بیرون ملک ملنے والے مواقع اور خطرات سے آگاہ اور ازالے کے بارے میں شعور بیدار کرنا ہے۔ اس دن کے حوالے سے دنیا بھر میں نوجوانوں کی ترقی کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے مختلف تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ جن میں نوجوانوں کو پیش آنے والے مسائل اور ان کے حل پر بحث و مباحثہ کیاجاتا ہے اور ان کی ترقی کے لیے ملک میں اور عالمی سطح پر موجود موقعوں کو تلاش کیاجائے گا تاکہ نوجوانوںٍ کی ترقی کے لیے بہتر اقدامات کیے جاسکیں۔نوجوانوں کے عالمی دن کا مقصد نوجوانوں کی شرکت کو درج ذیل سطحوں پر مرکوز کرنا ہے۔مقامی وبرادری کی سطح پر شرکت،قومی سطح پر شرکت (قوانین اور پالیسیوں کی تشکیل اور عمل) اورعالمی سطح پرنوجوانوں کی شرکت۔اس سال نوجوانوں کے عالمی دن 2023 کا موضوع(GREEN SKILLS FOR YOUTH :TOWARDS A SUSTAINABLE WORLD) موجودہ سال کے تھیم کا مقصد اس بات پر زور دینا ہے کہ مقامی ، قومی اور عالمی سطح پر نوجوانوں کی صلاحیتوں،علم،اقدار اور مثبت رویے کو فروغ دے کر معاشرے کا کارآمد فرد بنایاجائے کیونکہ پوری دنیا کورونا وائرس اورماحولیاتی تبدیلی سمیت دیگر مسائل سے دوچار ہے جن سے نمٹنے کے لئے صرف حکومتی ادارے یا فلاحی تنظیمیں ناکافی ہیں اس لئے موجودہ دور کی نئی آفتوں اور مسائل سے نمٹنے کے لئے نوجوانوں کی ملکی و بین الاقوامی سطح پر مدد بہت ضروری ہے لیکن افسوس آج کا نوجوان سوشل میڈیا کی بھینٹ چڑھتا جارہا ہے۔نوجوانوں کی ہمدردیاں ،تعاون ،مسائل کا حل صرف اور صرف سوشل میڈیا تک محدود رہ گیا ہے۔سوشل میڈیا میں اس قدر ڈوبنے کی وجہ سے نوجوانوں کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں کم ہوتی جارہی ہیں،ان کے اندر محنت،جذبہ اورکام کی لگن کم ہوتی جارہی ہے۔آج کا نوجوان ڈپریشن کا شکار ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں میں خود کشی کے رحجانات بڑھنے لگے ہیں۔آج کے نوجوان کو ڈپریشن اور خود کشی کے رحجانات سے نکلنے کے لئے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دنیا سے ایک حد تک منسلک رہ کر عملی کام کرنے ہونگے۔نوجوانوں کو ملکی سیاست میں شامل کرنا ہوگا۔نوجوانوں کو باضابطہ سیاسی میکانزم میں حصہ لینے کی اجازت دینا واقعتا جمہوری خسارے کو کم کرسکتا ہے اس طرح سیاسی عمل کی منصفانہ صلاحیت میں اضافہ اور بہتر اور پائیدار پالیسیاں مرتب کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ، بنی نوع انسان کو درپیش بیشتر چیلنجز ، جیسے COVID-19 کی وبا ء اور ماحولیاتی تبدیلی کو موثر طریقے سے حل کرنے کے لئے مربوط عالمی اقدامات اور بامقصد نوجوانوں کی شرکت اور شراکت کی ضرورت ہے۔پاکستان کو ایسی پرامن خوشحال قوم تصور کیا جاتا ہے جو اپنے نوجوانوں کو معیاری تعلیم، سودمند روزگار اور بامقصد طور پر مصروف عمل رکھتی ہے اور یہ کام مربوط، فعال، پائیدار یوتھ دوست قانون سازی، پروگرامز اور اداروں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
مارچ 1948ء میں ڈھاکہ میں قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا”میرے نوجوانو،میں تمہاری طرف توقع سے دیکھتا ہوں کہ تم پاکستان کے حقیقی پاسبان اور معمار ہو۔” قائد کے فرمان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نوجوان اگر پڑھا لکھا اور برسر روزگار ہو گا تو ملک میں ترقی کی رفتاراتنی ہی تیز ہوگی اسی لئے دنیا بھر میں کسی بھی ملک کی تعمیرو ترقی میں نوجوانوں کی بھرپور صلاحیتوں سے استفادہ کرنے اور انھیں قومی دھارے میں شامل میں شامل کرنے کے لئے پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔پاکستان میں نوجوانوں کو ہر شعبے میں آگے بڑھنے کے لئے بھرپور مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭