... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو، کیا کبھی آپ نے ایسے نوجوان یا بندے کو دیکھا ہے جو گھر سے تو مکمل لباس پہن کر نکلے اور آفس پہنچ کر کوئی نیکر پہن لے یا بنیان اور شارٹس پہن لے؟ کیا باس اس نوجوان کو آفس میں بیٹھ کر کام کرنے دیں گے؟ کیا سب اس کا مذاق نہیں اڑائیں گے؟ کیا اسے پاگل نہیں سمجھا جائے گا؟ کیا ایسے حلیے والے نوجوان کو کوئی بڑی کمپنی جاب دے گی؟ کیا کسی مرد ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ کو دیکھا ہے نیکر بنیان میں؟ یا شلوار بنیان میں آن ڈیوٹی؟ کیا کبھی دیکھا ہے کسی میٹنگ میں جانے سے پہلے کوئی سی ای او پینٹ کے پائنچے پنڈلیوں سے بھی اوپر تک چڑھا لے؟ نہیں دیکھا نا۔ اچھا اب آگے سنیے۔ یہ جو لڑکیاں گھر سے عبایا پہن کر نکلتی ہیں اور آفس جا کر عبایا اتار کر بال کھلے کر کے دوپٹے کے بغیر پائنچے چڑھائے آخر کیوں شمع محفل بن جاتی ہیں؟ یا پھر جو گھر سے ہی نامناسب چھوٹا اور باریک لباس پہن کر نکلتی ہیں۔ انہیں کیوں احساس نہیں ہوتا کہ وہ کس جال میں پھنس چکی ہیں۔۔۔عورت کو آج مرد سے شکایت ہے کہ اسے عزت نہیں مل رہی تو اس بات کی ذمہ دار خود عورت ہے،کیوں خود کو اتنا کھول کر پیش کیا؟ چھپائے رکھتی نا خود کو جیسے کہ چھپانے کا حکم تھا تو مردوں کے نگاہوں پر بھی لگام ڈلی رہتی۔مرد نے مختصر لباس پہننے کا آپشن رکھا ہی نہیں اس لیے انہیں ”جاب”کے لیے یہ نہیں کہا جاتا کہ ہمیں سلم اورا سمارٹ ٹائپ ماڈرن لڑکا درکار ہے۔ عورت نے یہ آپشن رکھا۔ جتنا پیسہ دو گے اتنی ڈیمانڈ مانوں گی۔ آخر عورت نے کیوں اس جال میں پھنسنا قبول کیا؟ کیوں خود کی بولی لگوائی؟ جس دن خواتین کو یہ احساس ہوگیا کہ یہ جسم کی نمائش ان کی عزت میں کمی کا باعث ہے اس دن وہ اللہ رب العزّت کا شکر ادا کریں گی کہ اس نے انہیں چھپائے جانے کے لیے بنایا۔ اللہ نے خواتین کو مقدس، پاکیزہ، چھپا ہوا اہم بنایا تھا،لیکن انہوں نے خود کو بے پردہ کرکے غیراہم اور معمولی بنالیا۔۔موقف ہوتا ہے، بھئی نظرکا پردہ ہونا چاہئے، پھر مرد نظر ڈالتے ہیں تو شور نہ مچایا کریں،ہوسکتا ہے وہ بس دیکھ رہا ہو مگر اس کاذہن شفاف ہو؟ سمجھ نہیں آئی نہ یہ لاجک؟ پردے کا حکم اللہ نے دیاہے،اللہ کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہیں،بہانے نہیں کرتے۔پردہ نظر و زہن کا بھی ہوتا ہے اور جسم کا بھی ۔ نظر کے پردے کو جواز بنا کر جسم کو نہیں کھول سکتے۔اس لیے اگر آپ گھر سے عبایا یا چادر پہن کر جاتی ہیں تو باہر جا کر بھی زیب تن کیے رکھیں۔ اور اگر گھر سے بے پردہ ہو کر نکلتی ہیں تو سوچیں ایک بار۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان جیل جاکر بھی اپنے حریفوں کے دماغ سے نہیں نکل پارہے۔ ہر ٹاک شو، ہر بیان میں خان صاحب کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے۔۔ پنڈ کا چودھری دوجے گاؤں کی نیاز(خیرات) پراپنے ساتھ اپنے گاؤں کے مراثی کو بھی لے گیا۔ ساتھ کے گاؤں پہنچ کر انہوں نے چوہدری کو ورتاوے (بانٹنے) پر لگا دیا۔۔مراثی اپنے چودھری کے ساتھ ہی بیٹھا تھا، جیسے ہی چوہدری نے دیگ کھولی اورمراثی کو چھوٹے گوشت اور دیسی گھی کی خوشبو پہنچی تومراثی کے چودہ طبق روشن ہوگئے، بھاگ کر لائن میں لگ گیا۔مراثی کو لائن میں لگا دیکھ کر چودھری بولا۔۔۔توں ایدھر آ جا توں ہیگا ایں میرے ذہن وچ ٹینشن نہ لے۔۔پہلی دیگ ختم ہو گئی مراثی کا منہ لٹک گیا۔دوسری دیگ کھلی۔۔مراثی کو دیگ کی خوشبو نے بے حال کردیا، ازخود نوٹس کی طرح مراثی پھر لائن میں لگ گیا۔چودھری بولا۔۔توں ایدھر آ جا توں ہیگا ایں میرے ذہن وچ۔۔۔مراچی پھر سرجھکائے اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا۔ دوسری دیگ بھی ختم ہو گئی ، مراثی مزید پریشان ہوگیا۔۔تیسری اور آخری دیگ کھلی۔مراثی پھر لپک کر لائن میں لگ گیا۔چودھری اسے دیکھ کر بولا۔۔ ایدھر آ جا توں ہیگا ایں میرے ذہن وچ۔۔ مراثی زچ ہوچکا تھا ، دانت پیستے ہوئے بولا۔۔ خیر ہووے موتیاں آلیو۔۔تسی دو منٹ آسطے مینوں اپنے ذہن چوں کڈ نئیں سکدے؟؟
مطالعہ تو کرتے ہیں پر کچھ یاد نہیں رہتا! تو پھر مطالعہ کا فائدہ کیا؟؟یہ شکایت اکثر نوجوان نسل کورہتی ہے،وہ شکایات اکثر اپنے احباب سے کرتے ہوئے نظر بھی آتے ہیں۔ شیخ سلمان العودہ اپنی کتاب۔۔زنزانہ میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے شیخ سے شکایت کی کہ میں نے ایک کتاب پڑھی، لیکن مجھے اس میں سے کچھ یاد نہیں رہا! چنانچہ انھوں نے مجھے ایک کھجور دی، اور فرمایا۔۔لو، یہ چباؤ! پھر مجھ سے پوچھا۔کیا اب تم بڑے ہوگئے؟ میں نے کہا: نہیں! تو فرمانے لگے۔۔ لیکن یہ کھجور تمھارے جسم میں گھل مل گئی، چنانچہ اس کا کچھ حصہ گوشت بنا، کچھ ہڈی، کچھ پیٹھ، کچھ کھال، کچھ بال، کچھ ناخن اور مسام وغیرہ!!تب میں نے جانا کہ جو کتاب بھی میں پڑھتا ہوں، وہ تقسیم ہوجاتی ہے۔چنانچہ اس کا کچھ حصہ میری لغت مضبوط کرتا ہے، کچھ میرا علم بڑھاتا ہے، کچھ میرا اخلاق سنوارتا ہے، کچھ میرے لکھنے بولنے کے اسلوب کو ترقی دیتا ہے، اگرچہ میں اس کو محسوس نہیں کر پاتا ہوں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ایک مسجد کے سامنے شراب خانہ کُھلا۔ مسجد میں نمازی ہر نماز کے بعد اس کاروبار کی ناکامی کی دُعائیں مانگتے۔کچھ دن بعد شراب خانے میں شارٹ سرکٹ کے باعث آگ لگ گئی اور سب کچھ جل کر خاکستر ہوگیا۔شراب خانے کے مالک نے امام مسجد اور نمازیوں کے خلاف کیس کر دیا۔اس نے موقف اختیار کیا کہ میری دکان جلنے کی وجہ وہ بد دُعائیں تھیں جو ہر روز مسجد میں کی جاتی تھیں۔مسجد کے نمازیوں اور امام مسجد نے اس بات سے انکار کیا کہ آگ ان کی بددعاؤں کی وجہ سے لگی ہے۔۔جج نے اپنا فیصلہ سُناتے ہوئے کہا کہ ۔۔اس مقدمے کا فیصلہ کرنا بہت مُشکل ہے کیونکہ ایک طرف
شراب خانے کا مالک ہے جو دُعاؤں کی طاقت پر ایمان رکھتا ہے، جبکہ دوسری طرف نمازی ہیں جن کو اپنی دعاؤں پر یقین نہیں ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔