وجود

... loading ...

وجود

بدترین اسمبلی

جمعه 11 اگست 2023 بدترین اسمبلی

میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسمبلی کا آخری دن تھا اور وزیر اعظم نے حکم دیا کہ توشہ خانہ تحائف نیلام کرکے رقم یتیم بچوں کی تعلیم اور بہبود پر خرچ کی جائے ۔انہوں اپنے کپڑے بیچنے کی بات جو کی تھی اسکاذکربھی نہیں کیا اور نہ ہی ان تحفوں کا ذکر کیا جو ان کا خاندان لیکر کھاگیا۔ اسی روز (ن) لیگ کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ موجود اسمبلی تاریخ کی بدترین اسمبلی تھی جس کا حصہ بننے پر عوام سے معافی مانگتا ہوں۔ آج خوشی کا دن ہے پاکستانی عوام کو اس بدترین اسمبلی سے نجات سے خوشی ملے گی۔ اس بدترین اسمبلی میں ہم سب کا کردار ہے تاریخ فیصلہ کریگی ہم نے کیا کیا؟ عوام نے کچھ نہیں پایا۔ صرف کھویا ہی کھویا ہے۔ مجھے شرمند گی ہے کہ میں اس ایوان کا حصہ رہا۔ بدترین اسمبلی کا حصہ رہنے پر پاکستان کے عوام سے معافی مانگتا ہوں ۔اسی روز امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے بھی منصورہ میں خطاب کیا۔ ان کے الفاظ دہرانے سے پہلے عوام کے لیے خوشی کی یہ بات ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل سے قومی خزانے کو ملکی تاریخ کی سب سے بڑی وفاقی کابینہ کے بوجھ سے چھٹکارہ مل گیا۔
کابینہ میں 86 سے زائد ارکان تھے جن میں 40 معاونین خصوصی بھی شامل تھے جن کے سرکاری دفتر ، اسٹاف رہائش، سرکاری گاڑی، علاج کی سہولت اور دوسرے الائونسس کی مد میں ماہانہ کروڑوں روپے خرچ ہو رہے تھے۔ جہازی کابینہ مشکل ترین معاشی حالات میں قومی خزانے پر بوجھ بنی رہی ۔وفاقی وزیر اور وزیرِ مملکت کو تمام تر مراعات ملتی ہیں جبکہ معاونین تنخواہ تو نہیںلیتے تھے لیکن انہیں وزرا کو ملنے والی تمام مراعات حاصل ہوتی ہیں ،جن میں سرکاری رہائش، سرکاری گاڑی، پیٹرول، علاج کی سہولت اور دوسرے الائونسس شامل ہیں۔ ایک وزیر مملکت کی عام طور پر ماہانہ تنخواہ تقریبا دو لاکھ روپے ماہانہ ہوتی ہے لیکن اس تنخواہ کے علاوہ چند چیزوں کا استحقاق ان وزرا کے پاس ہوتا ہے جن میں گاڑیاں ، ماہانہ پیٹرول ، گھر کا کرایہ یا پھر گھر ملنا شامل ہے۔ اسی طرح ایک معاونِ خصوصی پر سرکاری خرچہ پانچ لاکھ سے 10لاکھ ماہانہ کے قریب آتا ہے جس میں گھر کا کرایہ، گاڑی، پیٹرول اور دفتر شامل ہیں ۔دوسری جانب قومی اسمبلی کی 38قائمہ کمیٹیوں میں سے 22کی سربراہی پی ڈی ایم کے ارکان کے پاس تھی اور ان کمیٹیوں کے سربراہان پر بھی ماہانہ کروڑوں روپے کے اخراجات آتے تھے ۔سفارشی کابینہ کے باعث قومی خزانے کو ماہانہ کروڑوں روپے کا ٹیکہ لگ رہا تھا۔ 13 جماعتی اتحادنے ایسے لوگوں کو کابینہ کا رکن بنوایا جنہیں کوئی جانتا تک نہیں تھا ۔آئینی ماہرین طارق علی جٹھول اور ڈاکٹر قطب شیر کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم ایک وقت میں چار سے زیادہ مشیر نہیں رکھ سکتے لیکن انکے پاس معاونینِ خصوصی کی پوری فوج تھی اور سب نے مل کر پندرہ ماہ عوام پر ظلم کا تسلسل برقرار رکھا ہے۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خوردونوش میں دو فیصد اضافہ ہوا، آمدنی، روزگار اور کاروبار بڑھائے بغیر یہ اضافہ غریب، تنخواہ دار طبقے اور چھوٹے کاروباری طبقات کیلئے ایٹم بم کی طرح گرایا گیا ہے۔ موجودہ حکومت مہنگائی اور معاشی زبوں حالی ختم کرنے کا وعدہ اور دعویٰ لے کر آئی تھی جس میں وہ ناکام رہی ۔ اس کی وجہ وزراء کی فوج ظفر موج، سرکاری خزانے پر بوجھ اور نااہلی ہے۔ عجلت میں ایسی قانون سازی کی گئی جو وقتی طور پر ذاتی مفادات کیلئے ہے ۔ 13پارٹیوں کی حکومت نے عوام پر گزشتہ 15ماہ میں جو معاشی بوجھ ڈالا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ بجلی، گیس، پیٹرول اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔ حکمرانوں کو عام آدمی کی حالت کا ادراک نہیں تھا کہ لوگ غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے فاقوں مر رہے ہیں۔ حکمرانوں کے جھوٹے نعرے اور وعد ے صرف وعدے ہی رہے لیکن پنجاب کی نگران حکومت عوام کے لیے کچھ نہ کچھ کرتی رہی۔ ا بھی پنجاب حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جس کے مطابق ایڈہاک ریلیف کے تحت گریڈ1سے گریڈ16تک کے سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں 35فیصد اضافہ اور گریڈ17سے گریڈ22تک کے ملازمین کی بنیادی تنخواہیں 30فیصدتک بڑھائی گئی ہیں۔ حکومت نے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن بھی 17.5فیصد بڑھادی ہے ۔
اب کچھ باتیں سراج الحق صاحب کی جن کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت نے کم ترین مدت میں بدترین گورننس کا ریکارڈ توڑ دیا۔ وزیراعظم اور کابینہ عوام کو تکلیفیںدینے پر معافی مانگیں۔ حکمرانوں نے 16ماہ میں قرضے لینے اور اپنے کیسز معاف کرانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا۔ بڑی حکمران جماعتوں کے درمیان امریکی وفاداری اختیار کرنے کا مقابلہ ہے۔ یہ آئی ایم ایف کو یقین دلاتے ہیں کہ انھیں موقع دیا جائے یہ زیادہ تابعداری کریں گے۔ حکمران ائیرپورٹس، اسٹیل ملز، موٹرویز کے سودے کر رہے ہیں ملک کی عدالتوں میں انصاف نہیں۔ حکمرانوں نے عوام کو تعصبات پر تقسیم کر رکھا ہے۔ ان کی وجہ سے مساجد کو مساجداور مدارس کو مدارس سے لڑایا جاتا ہے ۔بدامنی عام ہے۔ لوگ غیر محفو ظ ہیں۔ روزانہ لاشیں گرتی ہیں۔ ان حالات میں صرف پاکستانی قوم ہی نہیں پوری امت مظلوم ہے۔ کشمیریوں اور فلسطینیوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ ان نام نہاد بڑی حکمران جماعتوں میں کوئی فرق نہیں ۔سب نے مل کر کشمیر کا سودا کیا اور یہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا امریکا سے مطالبہ تک نہیں کر سکے۔ مسلمان اقلیتوں کی جان و مال محفوظ نہیں۔ خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ لوگ چیلنج کر کے قرآن کریم کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ لیکن امت کچھ نہیں کر سکتی۔ پاکستانی قوم کا پوری دنیا میں مذاق اڑایا، ان کی وجہ سے اوورسیز پاکستانی شرمندہ ہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے قوم کے ہاتھوںمیں آئی ایم ایف کی غلامی کی ہتھکڑیاں پہنائیں۔ ملک کا بچہ بچہ مقروض کیا۔ پاکستان کی سیاست میں ایسے لوگ مسلط رہے ہیں جنھوں نے ملک کا خزانہ لوٹا۔ اپنی شوگر ملیں اور جائدادیں بنائیں۔ اولاد کے لیے جمع پونجی اکٹھی کی اور قوم کے بچوں کے مستقبل کو تاریک کیا۔ ان کا بس چلے تو پورا ملک بیچ دیں ۔انہیںبس اقتدار چاہیے۔ اب پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی عوام سے خوف زدہ ہیں کہ انہوں نے غریبوں کو بجلی کے جھٹکے دیے۔ ان پر پیٹرول بم گرائے جبکہ بدامنی حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ چند خاندانوں نے ملک تباہ کر دیا۔انہوں نے 75برسوں سے قوم کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور اب یہ اپنے بچوں کے لیے آیندہ 30برس تک بہتر سیاسی ماحول کے طلب گار ہیں۔ کیا 24کروڑ عوام انہی جاگیرداروں اور وڈیروں کے غلام رہیں گے؟ کیا غریب پڑھا لکھا نوجوان اسمبلیوں میں نہیں جا سکتا؟ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ فرسودہ نظام کے خلاف جدوجہد کرے حضور پاکۖ کی سب سے افضل سنت بھی یہی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر