... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسمبلی کا آخری دن تھا اور وزیر اعظم نے حکم دیا کہ توشہ خانہ تحائف نیلام کرکے رقم یتیم بچوں کی تعلیم اور بہبود پر خرچ کی جائے ۔انہوں اپنے کپڑے بیچنے کی بات جو کی تھی اسکاذکربھی نہیں کیا اور نہ ہی ان تحفوں کا ذکر کیا جو ان کا خاندان لیکر کھاگیا۔ اسی روز (ن) لیگ کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ موجود اسمبلی تاریخ کی بدترین اسمبلی تھی جس کا حصہ بننے پر عوام سے معافی مانگتا ہوں۔ آج خوشی کا دن ہے پاکستانی عوام کو اس بدترین اسمبلی سے نجات سے خوشی ملے گی۔ اس بدترین اسمبلی میں ہم سب کا کردار ہے تاریخ فیصلہ کریگی ہم نے کیا کیا؟ عوام نے کچھ نہیں پایا۔ صرف کھویا ہی کھویا ہے۔ مجھے شرمند گی ہے کہ میں اس ایوان کا حصہ رہا۔ بدترین اسمبلی کا حصہ رہنے پر پاکستان کے عوام سے معافی مانگتا ہوں ۔اسی روز امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے بھی منصورہ میں خطاب کیا۔ ان کے الفاظ دہرانے سے پہلے عوام کے لیے خوشی کی یہ بات ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل سے قومی خزانے کو ملکی تاریخ کی سب سے بڑی وفاقی کابینہ کے بوجھ سے چھٹکارہ مل گیا۔
کابینہ میں 86 سے زائد ارکان تھے جن میں 40 معاونین خصوصی بھی شامل تھے جن کے سرکاری دفتر ، اسٹاف رہائش، سرکاری گاڑی، علاج کی سہولت اور دوسرے الائونسس کی مد میں ماہانہ کروڑوں روپے خرچ ہو رہے تھے۔ جہازی کابینہ مشکل ترین معاشی حالات میں قومی خزانے پر بوجھ بنی رہی ۔وفاقی وزیر اور وزیرِ مملکت کو تمام تر مراعات ملتی ہیں جبکہ معاونین تنخواہ تو نہیںلیتے تھے لیکن انہیں وزرا کو ملنے والی تمام مراعات حاصل ہوتی ہیں ،جن میں سرکاری رہائش، سرکاری گاڑی، پیٹرول، علاج کی سہولت اور دوسرے الائونسس شامل ہیں۔ ایک وزیر مملکت کی عام طور پر ماہانہ تنخواہ تقریبا دو لاکھ روپے ماہانہ ہوتی ہے لیکن اس تنخواہ کے علاوہ چند چیزوں کا استحقاق ان وزرا کے پاس ہوتا ہے جن میں گاڑیاں ، ماہانہ پیٹرول ، گھر کا کرایہ یا پھر گھر ملنا شامل ہے۔ اسی طرح ایک معاونِ خصوصی پر سرکاری خرچہ پانچ لاکھ سے 10لاکھ ماہانہ کے قریب آتا ہے جس میں گھر کا کرایہ، گاڑی، پیٹرول اور دفتر شامل ہیں ۔دوسری جانب قومی اسمبلی کی 38قائمہ کمیٹیوں میں سے 22کی سربراہی پی ڈی ایم کے ارکان کے پاس تھی اور ان کمیٹیوں کے سربراہان پر بھی ماہانہ کروڑوں روپے کے اخراجات آتے تھے ۔سفارشی کابینہ کے باعث قومی خزانے کو ماہانہ کروڑوں روپے کا ٹیکہ لگ رہا تھا۔ 13 جماعتی اتحادنے ایسے لوگوں کو کابینہ کا رکن بنوایا جنہیں کوئی جانتا تک نہیں تھا ۔آئینی ماہرین طارق علی جٹھول اور ڈاکٹر قطب شیر کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم ایک وقت میں چار سے زیادہ مشیر نہیں رکھ سکتے لیکن انکے پاس معاونینِ خصوصی کی پوری فوج تھی اور سب نے مل کر پندرہ ماہ عوام پر ظلم کا تسلسل برقرار رکھا ہے۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خوردونوش میں دو فیصد اضافہ ہوا، آمدنی، روزگار اور کاروبار بڑھائے بغیر یہ اضافہ غریب، تنخواہ دار طبقے اور چھوٹے کاروباری طبقات کیلئے ایٹم بم کی طرح گرایا گیا ہے۔ موجودہ حکومت مہنگائی اور معاشی زبوں حالی ختم کرنے کا وعدہ اور دعویٰ لے کر آئی تھی جس میں وہ ناکام رہی ۔ اس کی وجہ وزراء کی فوج ظفر موج، سرکاری خزانے پر بوجھ اور نااہلی ہے۔ عجلت میں ایسی قانون سازی کی گئی جو وقتی طور پر ذاتی مفادات کیلئے ہے ۔ 13پارٹیوں کی حکومت نے عوام پر گزشتہ 15ماہ میں جو معاشی بوجھ ڈالا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ بجلی، گیس، پیٹرول اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔ حکمرانوں کو عام آدمی کی حالت کا ادراک نہیں تھا کہ لوگ غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے فاقوں مر رہے ہیں۔ حکمرانوں کے جھوٹے نعرے اور وعد ے صرف وعدے ہی رہے لیکن پنجاب کی نگران حکومت عوام کے لیے کچھ نہ کچھ کرتی رہی۔ ا بھی پنجاب حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جس کے مطابق ایڈہاک ریلیف کے تحت گریڈ1سے گریڈ16تک کے سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں 35فیصد اضافہ اور گریڈ17سے گریڈ22تک کے ملازمین کی بنیادی تنخواہیں 30فیصدتک بڑھائی گئی ہیں۔ حکومت نے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن بھی 17.5فیصد بڑھادی ہے ۔
اب کچھ باتیں سراج الحق صاحب کی جن کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت نے کم ترین مدت میں بدترین گورننس کا ریکارڈ توڑ دیا۔ وزیراعظم اور کابینہ عوام کو تکلیفیںدینے پر معافی مانگیں۔ حکمرانوں نے 16ماہ میں قرضے لینے اور اپنے کیسز معاف کرانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا۔ بڑی حکمران جماعتوں کے درمیان امریکی وفاداری اختیار کرنے کا مقابلہ ہے۔ یہ آئی ایم ایف کو یقین دلاتے ہیں کہ انھیں موقع دیا جائے یہ زیادہ تابعداری کریں گے۔ حکمران ائیرپورٹس، اسٹیل ملز، موٹرویز کے سودے کر رہے ہیں ملک کی عدالتوں میں انصاف نہیں۔ حکمرانوں نے عوام کو تعصبات پر تقسیم کر رکھا ہے۔ ان کی وجہ سے مساجد کو مساجداور مدارس کو مدارس سے لڑایا جاتا ہے ۔بدامنی عام ہے۔ لوگ غیر محفو ظ ہیں۔ روزانہ لاشیں گرتی ہیں۔ ان حالات میں صرف پاکستانی قوم ہی نہیں پوری امت مظلوم ہے۔ کشمیریوں اور فلسطینیوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ ان نام نہاد بڑی حکمران جماعتوں میں کوئی فرق نہیں ۔سب نے مل کر کشمیر کا سودا کیا اور یہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا امریکا سے مطالبہ تک نہیں کر سکے۔ مسلمان اقلیتوں کی جان و مال محفوظ نہیں۔ خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ لوگ چیلنج کر کے قرآن کریم کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ لیکن امت کچھ نہیں کر سکتی۔ پاکستانی قوم کا پوری دنیا میں مذاق اڑایا، ان کی وجہ سے اوورسیز پاکستانی شرمندہ ہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے قوم کے ہاتھوںمیں آئی ایم ایف کی غلامی کی ہتھکڑیاں پہنائیں۔ ملک کا بچہ بچہ مقروض کیا۔ پاکستان کی سیاست میں ایسے لوگ مسلط رہے ہیں جنھوں نے ملک کا خزانہ لوٹا۔ اپنی شوگر ملیں اور جائدادیں بنائیں۔ اولاد کے لیے جمع پونجی اکٹھی کی اور قوم کے بچوں کے مستقبل کو تاریک کیا۔ ان کا بس چلے تو پورا ملک بیچ دیں ۔انہیںبس اقتدار چاہیے۔ اب پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی عوام سے خوف زدہ ہیں کہ انہوں نے غریبوں کو بجلی کے جھٹکے دیے۔ ان پر پیٹرول بم گرائے جبکہ بدامنی حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ چند خاندانوں نے ملک تباہ کر دیا۔انہوں نے 75برسوں سے قوم کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور اب یہ اپنے بچوں کے لیے آیندہ 30برس تک بہتر سیاسی ماحول کے طلب گار ہیں۔ کیا 24کروڑ عوام انہی جاگیرداروں اور وڈیروں کے غلام رہیں گے؟ کیا غریب پڑھا لکھا نوجوان اسمبلیوں میں نہیں جا سکتا؟ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ فرسودہ نظام کے خلاف جدوجہد کرے حضور پاکۖ کی سب سے افضل سنت بھی یہی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔