وجود

... loading ...

وجود

متناسب نمائندگی کا نظام ہی بہترین ہے!

جمعه 11 اگست 2023 متناسب نمائندگی کا نظام ہی بہترین ہے!

ریاض احمدچودھری

وطن عزیز میں صاف شفاف اور آزادانہ انتخابات کی ضرورت ہے مگر موجودہ صورتحال میں ایسا نظر نہیں آتا۔پاکستان اسلام کے نام پر بنا۔ یہاں اسلام کا نفاذ ہونا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے اسلام اپنی اصل شکل میں نافذ نہیں ہو سکا۔ ملک میں پارلیمنٹ کے ذریعے اسلام آ سکتا ہے مگر حالیہ پارلیمنٹ اس قابل نہیں کہ اسلام کا نفاذ کر سکے۔جب تک ساری جماعتیں اس مسئلے پر متفق نہ ہوں ۔وطن عزیز میں طبقاتی اور متناسب نمائندگی کا نظام ہونا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت مکمل ہو گئی، جمہوریت ،پارلیمانی نظام اور آئین کا تقاضا ہے کہ 90 دن میں انتخابات کرائے جائیں۔ وفاقی حکومت کے علم میں تھا کہ مردم شماری کی بروقت تکمیل سے اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے پر بروقت انتخابات کرائے جا سکیں گے لیکن بدنیتی اور سیاسی انجینئرنگ کے لئے مردم شماری کے نتائج کی نوٹیفکیشن کے لئے ایسا وقت چنا گیاکہ آئینی ابہام پیدا کر کے انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کریں۔یہ آئین کی روح ہے کہ جمہوریت، عوام کی انتخابی حق کو اولیت ملنی چاہیے۔ مردم شماری پر اعتراضات نے بھی زور پکڑ لیا ہے۔ متنازع مردم شماری کی بنیادپر عام انتخابات 2023ء کو متنازع نہ بنایاجائے۔ مردم شماری کے تنازعات حل ہوتے رہیں گے اس مرحلہ پر آئینی مدت میں انتخابات کرائے جائیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان 24 کروڑ عوام کو جمہوری حق سے محروم نہ کرے۔
پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے خاتمہ کے بعد عبوری نگران حکومت کو قائم ہونا ہے لیکن وزیراعظم میاں شہباز شریف ، اتحادی حکومت کے پارٹنرز اور اپوزیشن لیڈر کے گٹھ جوڑ نے عبوری حکومت کے قیام سے پہلے ہی حالات میں شکوک وشبہات اور تنازعات پیدا کر دیے۔ آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے دو ہی راستے ہیں، اولین تو یہ کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان دباؤ سے آزاد ہو کر آئینی مدت میں بروقت انتخابات کا انعقاد کرائے اور متنازع مردم شماری کو نظر انداز کر دے۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے تنازع سے نکل کر اس مرحلہ پر آئینی مشوروں کے حکومتی بدنیتی سے ٹکراؤ کی وجہ سے جمہوریت، انتخابات ، آئین کو لاحق خطرات سے بچاؤ کے لئے تمام ججوں پر مشتمل فل بنچ بنائیں اور بروقت انتخابات کے لئے آئین کی تشریح کا آئینی حق اور کردار ادا کریں۔
موجودہ انتخابی نظام کے ذریعے پارلیمنٹ میں عوام کی صحیح نمائندگی منتخب نہیں ہوتی۔ایک ہوتی ہے عملی جمہوریت یا طبقاتی نمائندگی۔ اس میں مختلف طبقات کو اسمبلی میں نمائندگی دی جاتی ہے۔ مثلاً طلبا، خواتین، کسانوں، مزدوروں کی نمائندگی۔ بہترین نظام حکمرانی میں ضروری ہے کہ ٹیکنیکل افراد اسمبلیوں میں بھیجے جائیں۔ ڈاکٹرز، معیشت دان، مذہبی سکالرز، قانون دان ،زرعی ماہرین جیسے لوگ اگر اسمبلیوں میں ہوں گے تو بہتر انداز سے قانون سازی کر سکیں گے۔ اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر افراد اپنی وزارتوں میں بہترین کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ عوامی فلاح و بہبود کے قوانین اور پالیسیاں بنا سکتے ہیں۔ لہذا ہمیں ایسے افراد کو اسمبلی میں نمائندگی دینی چاہیے جو کسی نہ کسی فیلڈمیں ماہر ہوں اور کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہوں۔ حقیقی جمہوریت کے لئے ضروری ہے کہ پورے نظام میں شفافیت ہو ۔ہمارے یہاں کوئی شفافیت یا کھرا پن نہیں جبکہ مغربی اور جمہوری ملکوں میںمکمل شفافیت ہے کہ وہاں نمائندگان کیا کیا مراعات لے رہے ہیں، ان کے اخراجات کیا ہیں؟ اثاثہ جات کیا ہیں؟ اختیارات و کارکردگی کیا ہے؟ مغربی ملکوں کی جمہوریت میں پارلیمنٹ کی ویب سائٹس ہوتی ہیں جس پر ہر ایم پی اے اور ایم این اے کے بارے میں مکمل معلومات دست یاب ہوتی ہیں۔ ہر شہری کو حق ہے کہ وہ خود دیکھ سکے کہ اس کے حلقے کے ایم این اے نے کیا کمایا، کتنی مراعات لیں، کیا اخراجات کیے اور کیا اثاثہ جات جمع کیے۔ پاکستان میں کتنے لوگوں کو ان معلومات تک رسائی ہے؟
پاکستان میں جمہوریت کا جو ماڈل ہے اس کا نہ تو علامہ اقبال کے جمہوری تصور سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی قائد اعظم پاکستان ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں امیر و غریب میں امتیاز برتا جاتا ہو، جس نظام میں شہریوں کو مساوی حقوق و مواقع میسر نہ ہوں۔ہمارے ہاں متناسب نمائندگی کی جمہوریت چاہیے۔ ہر جماعت کو ملنے والے فیصد ووٹوں کے اعتبار سے اسمبلی کی نشستیں حاصل ہو جائیںگی۔ ہر جماعت الیکشن سے پہلے الیکشن کمیشن کو اپنے نامزد ارکان کی ایک فہرست جمع کرائے گی۔ متناسب نمائندگی کے نظام کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ بہت سے سیاسی کارکن جو مال و دولت نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑسکتے پارٹی کیطرف سے نامزد ہونے پر اسمبلیوں میں پہنچ سکیں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں عوام اپنے نمائندوں پر کوئی اختیار رکھتے ہیں؟ کیا ان نمائندوں سے پوچھ گچھ ہو سکتی ہے؟ ہمارے ہاں عوام کو مکمل اندھیرے میں رکھا جاتا ہے۔ ایوانوں میں کیا ہو رہا ہے،کون سے قوانین پاس ہو رہے ہیں، بجٹ میں عوامی مفاد کتنا اور کیسا ہے ، عوام اس سے بے خبر رہتے ہیں۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر