... loading ...
مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو جو مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے اس مقام تک امت کے باقی افراد عبادتیں، ریاضتیں اور محنتیں کر کے بھی کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقام و مرتبے کوقرآن و سنت اور اجماع امت میں بہت خوبصورت انداز میں ذکر کیا گیا ہے، اسی پر ہمارا ایمان ہے۔ اگر کسی تاریخی روایت سے ان کے مقام و مرتبے میں ذرہ برابر بھی کمی آئے تو ہم قرآن و سنت اور اجماع امت کے مقابلے میں ایسی تاریخی روایت کو کسی صورت تسلیم نہیں کرتے کیونکہ یہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے۔
صحابی کی تعریف
امام احمد بن علی بن حجر العسقلانی رحمہ اللہ(م: 852ھ) فرماتے ہیں:وَہُوَ مَنْ لَقِیَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُؤْمِنًا بِہٖ وَمَاتَ عَلَی الْإِسْلَامِ.(نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفکر،ص:133)
ترجمہ:ہر اس شخص کو صحابی کہتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کی حالت میں ملے اور حالتِ اسلام ہی پر فوت / شہید ہو۔
صحابی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محض ملاقات کافی ہے یہ ضروری نہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرے۔ یہاں نہ لفظِ ”بصر“ ہے جس کا معنی ہوتا ہے دیکھنا، نہ لفظِ ”کلام“ ہے جس کا معنی ہوتا ہے،بات کرنا اور نہ لفظِ ”سمع“ ہے جس کا معنی ہوتا ہے سننا۔ لہٰذا جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں ایمان کی حالت میں شریک ہو جائے وہ”صحابی“ کہلاتا ہے۔ذیل میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے اہلِ اسلام کے چند عقائد درج کیے جاتے ہیں۔
عقیدہ 1:صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پکے مومن ہیں
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پکے سچے مومن ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں: مفہوم آیت:اور جو لوگ(اول)مسلمان ہوئے اور انہوں نے(ہجرت نبویہ کے زمانہ میں) ہجرت کی اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے رہے اور جن لوگوں نے(ان مہاجرین کو) اپنے یہاں ٹھہرایا اور ان کی مدد کی یہی پکے مومن ہیں ان کے لیے(آخرت میں)بڑی مغفرت اور(جنت میں) بڑی معزز روزی ہے۔
سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ(م: 1396ھ) فرماتے ہیں:آیت میں مکہ سے ہجرت کرنے والے صحابہ، ان کی مدد کرنے والے انصارِ مدینہ کی تعریف و ثنا ان کے سچا مسلمان ہونے کی شہادت،ان سے مغفرت اور باعزت روزی کا وعدہ مذکور ہے“(تفسیر معارف القرآن، تحت آیت مذکورہ)
عقیدہ 2:صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عادل ہیں
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عادل ہونے کا معنی یہ ہے کہ ان میں شریعت کے متعلق گواہی دینے کی اہلیت موجود ہے اور ان کی بات کو سچی گواہی کے طور پر تسلیم کیا جاتاہے۔ دین اسلام کا مدار انہی کی روایات، مرویات اورشہادات پر ہے اور ان کی روایات و شہادات کا انحصار ان کی ذات کے عادل ہونے پر ہے۔ الغرض ان کو سچا اور عادل تسلیم کرنے سے دین بچتا ہے اور انہیں عادل تسلیم نہ کرنے سے سارا دین بے بنیاد اور باطل ٹھہرتا ہے۔
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی رحمہ اللہ(م: 671ھ)فرماتے ہیں: تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عادل ہیں، اللہ تعالیٰ کے محبوب اور ولی ہیں، اللہ کے ہاں ان کا بہت بلند مقام ہے۔ انبیاء اور رسل علیہم السلام کے بعد ساری مخلوق میں سب سے زیادہ بہتر اور اچھے انسان ہیں۔ یہ اھل السنۃ کا مذہب ہے جس پر اس امت کے اہل علم کی جماعت متفق ہے“۔(تفسیر القرطبی، تحت سورۃ الفتح)
عقیدہ 3:صحابہ کرام رضی اللہ عنہم محفوظ ہیں
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے محفوظ ہونے کا معنی یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک سے بشری تقاضوں کے مطابق کبھی کوئی گناہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان کے ذمے میں وہ گناہ باقی نہیں رہنے دیتے یعنی دنیا میں اس گناہ سے معافی اور اس گناہ کی وجہ سے ملنے والے اُخروی عذاب سے ان کو محفوظ فرمالیتے ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں: مفہوم آیت:اور اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھلایا جب تم اللہ کے حکم سے ان(کافروں)کو قتل کرنے لگے یہاں تک کہ جب تم بے ہمت ہو گئے اور ایک معاملہ میں (مورچے پر ٹھہرنے اور نہ ٹھہرنے کے بارے)آپس میں جھگڑا بھی کیا اور تم اس بارے پیغمبر کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے۔ اس کے بعد اللہ نے تمہیں وہ چیز(میدانِ جنگ میں فتح، دشمن پر غلبہ اور اس سے حاصل ہونے والا مالِ غنیمت) دکھا دی جو تم پسند کرتے تھے۔ تم میں سے کچھ ایسے ہیں جو دنیا(کے اسباب یعنی مال غنیمت) کا ارادہ کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو آخرت(کے ثواب)کا ارادہ کرتے ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے ان سے پھیر دیا (یعنی کچھ وقت کے لیے اپنی مدد موقوف کر دی) پکی بات ہے کہ اللہ نے تمہیں معاف فرما دیا ہے اور وہ اہل ایمان پر فضل فرمانے والا ہے۔(سورۃ اٰل عمران، رقم الآیۃ: 152)
اللہ تعالیٰ دوسرے مقام پر ان کی معافی کا یوں اعلان فرماتے ہیں: مفہوم آیت:دو فوجوں کی باہمی لڑائی(غزوہ اُحد)والے دن جو لوگ تم میں سے پیچھے ہٹ گئے، شیطان نے انہیں اُن کے بعض (پہلے والے) گناہوں کی وجہ سے بہکایا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اس کی بھی معافی دے دی۔ بے شک اللہ تعالیٰ کی ذات بخشنے والی اور بردبار ہے۔ (سورۃ اٰل عمران، رقم الآیۃ: 155)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ان پر مہربانی کا یوں ذکر فرماتے ہیں:مفہوم آیت:حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم اور مشکل وقت میں ان کا ساتھ دینے والے مہاجرین و انصار پر نظر رحمت فرمائی وہ ایسا مشکل وقت تھا کہ جب یہ اندیشہ ہونے لگا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل ڈگمگا جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر مہربانی فرمائی یقینا ًوہ ذات ان کے لیے بہت شفیق اور مہربان ہے۔ (سورۃ التوبۃ، رقم الآیۃ:117)
عقیدہ 4: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تنقید سے بالاتر ہیں
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تنقید سے بالاتر ہونے کا معنی یہ ہے کہ ان کی کسی قول و فعل پر ایسا تاریخی/ معاندانہ تبصرہ کرنا جس سے مقصد ان کی شخصیت کو مجروح کرنا ہو یا ان کی شان میں کمی کرنی ہو ایسی تاریخی بات اور معاندانہ تبصرے کرنا حرام ہے۔ تنقید کی دو ممکنہ صورتیں بن سکتی ہیں: ایمان پر تنقید یا اعمال پر تنقیدلیکن دونوں ممنوع ہیں۔
ایمان پر تنقید نہیں ہو سکتی
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان پر تنقیداس لیے نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کو معیار قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:مفہوم آیت:اگر وہ لوگ ایسے ایمان لائیں جیسے تم(صحابہ) ایمان لائے ہو تو پھر وہ کامیاب ہوں گے یعنی ان کا ایمان مقبول ہوگا۔ (سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:137)
اعمال کی وجہ سے تنقید نہیں ہو سکتی
پہلی بات تو یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شرفِ صحابیت میں ان کے اعمال کو سرے سے دخل ہی نہیں کہ ان کے اعمال کو لے کر ان پر تنقید ہو سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن اعمال کی وجہ سے تنقید کرنی ہے وہ اعمال اللہ نے معاف فرما دیے ہیں۔ جن باتوں کو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا ہو انہی باتوں کو لے کر اُن پر تنقید کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟اعمال کی باز پرس اور ان پر عذاب دینے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے اِکّا دُکّا کسی سے کبھی کچھ لغزش ہو گئی جسے بعد میں خود اللہ تعالیٰ نے معاف بھی فرما دیا تو اب خود اُس صحابی رضی اللہ عنہ پر یا ان کی وجہ سے پوری جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کو تنقید کا نشانہ بنانا بے وقوفی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟
چمنستانِ دنیا اور چمنستانِ نبوت
ایک بہت بڑا پھولوں کا باغ ہو جس میں رنگارنگ کے ہزاروں / لاکھوں خوبصورت پھول اپنی خوشبوئیں بکھیر رہے ہوں،ہر ایک پھول کی رنگت اور مہک سے دور دور تک فضا معطر اور باغ کی دل کشی بڑھ رہی ہو ان ہزاروں / لاکھوں پھولوں میں اگر ایک دو پھول گرمی کی سخت لُوسے کچھ دیرکے لیے مرجھا گئے یا جھلس گئے ہوں پھر چمن کے مالی نے اُن کی دیکھ بھال کر کے دوبارہ انہیں اس قابل بنا دیا ہو کہ وہ باغ میں اپنی رنگت اور مہک سے حسن اور معطر فضا کا باعث بن گئے ہوں۔ بھلا ان ایک دو پھولوں کے کچھ وقت کے مُرجھا جانے سے سارے چمن کے ہزاروں /لاکھوں پھولوں پر کیسے تنقید کی جا سکتی ہے؟
نہیں بالکل نہیں!اسی طرح چمنستانِ نبوت میں ایک لاکھ چوبیس ہزار کھلے ہوئے پھولوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین) میں سے ایک دو کسی وجہ سے کچھ دیر کے لیے مُرجھا بھی گئے اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ شادابی بخش دی اور انہوں نے چمنستانِ نبوت کو اپنے وجود سے دوبارہ حُسن اور مہک بخشی ہو اس طرح کے دوبارہ شادابی سے کھلنے والے پھولوں کی آڑ لے کر پورے چمنستانِ نبوت کو تنقید کا نشانہ بنانا، بھلا کیسے اور کہاں تک درست ہو سکتا ہے؟
عقیدہ 5:صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خدائی انتخاب ہیں
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خدائی انتخاب ہونے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جیسے نبوت ورسالت کے لیے انبیاء و رسل علیہم السلام کا انتخاب فرمایا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ہر صحابی کو بھی خود منتخب فرمایا۔ معلوم یہ ہوا کہ مقام صحابیت محض اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک عظیم الشان منصب ہے اس کو حاصل کرنے میں انسان کی کوششوں کو دخل نہیں ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل علیہم السلام کے علاوہ تمام عالَم سے میرے صحابہ کو پسند فرمایا اور بطور خاص میرے(جانشین بننے کے)لیے چار صحابہ کوپسند فرمایا یعنی ابوبکر، عمر، عثمان اور علی(رضی اللہ عنہم)ان کو میرا بہترین ساتھی بنایا اور میرے تمام صحابہ میں خیر ہی خیر رکھ دی۔(اصول السنۃ لابن ابی زمنین، رقم الحدیث:191)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں پر نظر ِانتخاب فرمائی تو ان میں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل مبارک کو سب لوگوں کے دلوں سے بہترین پایا چنانچہ انہیں نبوت و رسالت کے لیے منتخب فرمایا پھر اس کے بعد لوگوں کے دلوں پر نظر ِانتخاب فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے دلوں کو(انبیاء و رسل علیہم السلام کے علاوہ) تمام لوگوں کے دلوں میں سب سے اچھا پایا چنانچہ انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رفیق کار بنادیا۔(مجمع الزوائد و منبع الفوائد، رقم الحدیث: 832)
خلاصہ یہ ہے کہ
1۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے ہر ایک صحابی پکاسچا مومن ہے۔
2۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے ہر ایک صحابی عادل ہے۔
3۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے ہر ایک صحابی محفوظ ہے۔
4۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے ہر ایک صحابی تنقید سے بالا تر ہے۔
5۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے ہر ایک صحابی خدائی انتخاب ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سچی محبت، اطاعت اور عقیدت عطا فرمائے، ان کے نقشِ قدم پر چلائے اور قیامت والے دن ہمارا حشر انہی مقدس شخصیات کے ساتھ فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم
٭٭٭