... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو، اسمبلیوں کا تحلیل ہونا بس اب دنوں کی بات ہے، نگراں حکومت بنے گی، لیکن جو حالات اور واقعات منظر نامے پر نظر آرہے ہیں، اس لگتا ہے کہ آنے والے نگراں عوام اور سیاست دانوں کیلئے ”گراں” ہی رہیں گے۔سیاست کبھی ہمارا موضوع نہیں رہا، ہمیں تو اوٹ پٹانگ باتوں سے فرصت ہی نہیں ملتی، یہ جو کبھی ہلکی پھلکی تبصرہ بازی سیاست کے حوالے سے کرلیتے ہیں، اس کا مقصد فقط اتنا ہے کہ کہیں احباب یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ موصوف کو کچھ پتہ نہیں کہ ملک میںکیا ہورہاہے؟ ملک میں جوہونا ہے وہ تو ہوکر رہے گا، آپ کے یا ہمارے چاہنے سے کچھ ہونے والا یا کچھ رکنے والا نہیں۔اس لئے ہم کیوں فضول میں ایسے معاملات میں متھاماری کریں جس سے ہمارا یا آپ کا کوئی لینا دینا ہی نہیں۔۔
باباجی نے اپنے بینک کی ہیلپ لائن پر کال کی اور کہا۔ محترمہ میرا بیلنس چیک کر کے بتائیے گا،تاکہ میں اندازہ لگا سکوں کہ ایپل کا کونسا موبائل خرید سکتا ہوں۔۔بیلنس چیک کرنے کے بعد لڑکی نے جواب دیا۔۔سر بیلنس کے حساب سے تو آپ ایپل کا فون نہیں صرف ایپل کا جوس ہی لے سکتے ہیں۔۔ایک چوہے نے ہیرے کو نگل لیا اور ہیرے کے مالک نے چوہے کو مارنے کے لئے ایک شخص سے رابطہ کیا۔جب شکاری چوہے کو مارنے کے لئے پہنچا تو وہاں ایک ہزار سے زیادہ چوہے اکھٹے تھے مگر ایک چوہا سب سے الگ بیٹھا ہوا تھا۔شکاری نے سب سے الگ بیٹھے چوہے کو دیکھا اور اسے مار ڈالا اور مالکان حیران تھے کہ یہ وہی چوہا تھا جس نے ہیرا نگل لیا تھا! ہیرے کے مالک نے جو حیران و پریشان تھا، برداشت نہ کرسکا اور پوچھ بیٹھا۔۔آپ کو کیسے پتہ چلا کہ یہ وہی چوہا تھا؟۔۔شکاری نے مسکرا کر جواب دیا۔۔بہت آسان،جب کم ظرف امیر ہوجاتے ہیں یا معاشرے میں کوئی مقام پاتے ہیں، تو وہ دوسروں کے ساتھ میل ملاپ چھوڑ دیتے ہیں۔۔
ایک نہایت شاطر اور ماہر چور نے چوری کی خاطر، مہنگا لباس زیب تن کرکے معزز اور محترم دکھائی دینے والے شیخ جیسا حلیہ بنایا اور صرافہ بازار میں سنار کی ایک دکان کے اندر چلا گیا۔ سنار نے جب اپنی دکان میں وضع قطع سے نہایت ہی رئیس اور محترم دکھائی دینے والے شیخ کو دیکھا جس کا نورانی چہرہ چمک رہا تھا، تو سنار کو ایسا لگا جیسے اس کی دکان کے بھاگ جاگ اٹھے ہوں۔اسے پہلی بار اپنی چھوٹی سی دکان کی عزت و وقار میں اضافے کا احساس ہوا۔ سنار نے آگے بڑھ کر شیخ کا استقبال کیا۔ شیخ کے بہروپ میں چور نے کہا۔ آپ سے آج خریداری تو ضرور ہوگی مگر اس سے پہلے بتائیں کیا آپ کے لیے ممکن ہے کہ آپ اپنی سخاوت سے ہمارے ساتھ مسجد بنانے میں حصہ ڈالیں؟ اس نیک کام میں آپ کا حصہ خواہ ایک درہم ہی کیوں نہ ہو۔سنار نے چند درہم شیخ کے حوالے کئے ہی تھے کہ اسی اثناء میں ایک لڑکی جو درحقیقت چور کی ہم پیشہ تھی، دکان میں داخل ہوئی اور سیدھی شیخ کے پاس جا کر اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا، اور التجائیہ لہجے میں اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے خیر و برکت کی دعا کے لیے کہا۔سنار نے جب یہ منظر دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا اور معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگا، اے محترم شیخ لاعلمی کی معافی چاہتا ہوں مگر میں نے آپ کو پہچانا نہیں ہے۔ لڑکی نے یہ سن کر تعجب کا اظہار کیا اور سنار سے مخاطب ہوکر کہنے لگی، تم کیسے بدنصیب انسان ہو، برکت، علم، فضل اور رزق کا سبب خود چل کر تمھارے پاس آگیا ہے اور تم اسے پہچاننے سے قاصر ہو۔ لڑکی نے شیخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلاں علاقے کے مشہور و معروف شیخ ہیں، جنہیں خدا نے، کثرت علم، دولت کی فروانی اور ہر قسم کی دنیاوی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔ انہیں انسانوں کے بھلے کے سوا کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب رہتے ہیں۔ سنار نے شیخ سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ۔۔ شیخ صاحب میں معافی کا طلبگار ہوں، میرا سارا وقت اس دکان میں گزرتا ہے اور باہر کی دنیا سے بے خبر رہتا ہوں، اس لیے اپنی جہالت کی وجہ سے آپ جیسی برگزیدہ ہستی کو نہ پہچان پایا۔ شیخ نے سنار سے کہا۔ کوئی بات نہیں انسان خطا کا پتلا ہے، غلطی پر نادم ہونے والا شخص خدا کو بہت پسند ہے۔ تم ایسا کرو ابھی میرا یہ رومال لے لو اور سات دن اس سے اپنا چہرہ پونچھتے رہو، سات دنوں کے بعد یہ رومال تمہارے لیے ایسی برکت اور ایسا رزق لے آئے گا جہاں سے تمہیں توقع بھی نہ ہو گی۔ جوہری نے پورے ادب و احترام کے ساتھ رومال لیا، اسے بوسہ دیا، آنکھوں کو لگایا، اور اپنا چہرہ پونچھا، تو ایسا کرتے ہی وہ بے ہوش کر گرا۔ اس کے گرتے ہی شیخ اور اس کی دوست لڑکی نے سنار کی دوکان کو لوٹا اور وہاں سے فوراً رفو چکر ہوگئے۔ اس واقعے کو جب چار سال گزر گئے اور سنار رو دھو کر اپنا نقصان بھول چکا تھا۔ تو چار سال کے بعد پولیس کی وردی میں ملبوس دو اہلکار سنار کی دکان پر آئے، ان کے ساتھ وہی چور شیخ تھا جس کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔سنار اسے دیکھتے ہی پہچان گیا۔ ایک پولیس والا سنار کے پاس آکر پوچھنے لگا کیا آپ اس چور کو جانتے ہیں؟ کیونکہ آپ کی گواہی سے ہی قاضی اسے سزا سنا سکتا ہے۔ سنار نے کہا کیوں نہیں اس نے فلاں فلاں طریقہ واردات سے مجھے بے ہوش کرکے میری دکان لوٹ لی تھی۔پولیس والا شیخ کے پاس گیا اور اس کی ہتھکڑی کو کھولتے ہوئے کہنے لگا، تم نے جس طرح دکان لوٹنے کا جرم کیا تھا ٹھیک اسی طرح وہ ساری کارروائی دہراؤ تاکہ ہم طریقہ واردات کو لکھ کر گواہ سمیت قاضی کے سامنے پیش کرکے تم پر فرد جرم عائد کروا سکیں۔ شیخ نے بتایا کہ، میں اس اس طرح داخل ہوا اور یہ کہا، اور میری مددگار لڑکی آئی اس نے فلاں فلاں بات کی، پھر میں نے رومال نکال کر دکاندار کو دیا۔ پولیس والے نے جیب سے ایک رومال نکال کر شیخ کو تھمایا، شیخ نے سنار کے پاس جاکر اسی طریقے سے اسے رومال پیش کیا تو پولیس والا سنار سے کہنے لگا، جناب آپ بالکل ٹھیک اسی طریقے سے رومال کو چہرے پر پھیریں جیسے اس دن پھیرا تھا۔ سنار نے ایسا ہی کیا اور وہ پھر سے بے ہوش ہوگیا۔ شیخ نے اپنے دوستوں کی مدد سے دوبارہ دکان لوٹ لی جنہوں نے پولیس والوں کا بھیس بدل رکھا تھا۔واقعہ کی دُم: آج ہمارے ملک کا بالکل یہی حال ہے، ہر پانچ سال بعد چور بھیس بدل کر ہمارے پاس آتا ہے نادیدہ قوتیں پھر سب کچھ دہرانے کا کہہ کر الیکشن کرواتی ہے اور چور ووٹ ووٹ کھیل کر عوام کو پھر سے چونا لگا کر اپنے ساتھیوں سمیت پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں ۔ہر دفعہ ایک نیا منظر، نیا لباس، نیا بہروپ، نئی شکل اور نیا حربہ جس سے عوام دھوکہ کھا کر اعتبار کرتی ہے اور، اور آخر میں ساتھیوں اورہمدردوں سمیت نکلتا وہی چور۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔خدا کرے کہ میرے قرض پاک پر اتریں۔۔ وہ ڈالر کہ جس میں اندیشہ ادھار نہ ہو۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
٭٭٭